سیلاب زدگان کی امداد کا اخلاقی فریضہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سیلاب زدگان کی امداد کا اخلاقی فریضہ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ایک بار پھر خدا کی ناراضگی نے سیلاب کا روپ دھا ر لیا ہے۔ دریاؤں کی موجیں پھر بپھر پڑی ہیں۔سیلاب زدہ علاقو ں میں لوگوں کی فصلات ، مویشی ، غلہ اناج اجڑ گئے ہیں۔ بعض دیہی علاقوں میں لوگوں کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ زراعت پیشہ طبقے کو بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بنیادی ضروریات زندگی ختم ہو رہی ہیں۔ لوگ امداد کے منتظر ہمارے راہ تک رہے ہیں۔ بعض رفاہی تنظیمیں اپنی وسعت کے مطابق سیلاب زدگان کو امدادی سامان مہیا کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کے مکان گر گئے ، رہنے کے لیے کچھ نہیں ، کھانے کے لیے کچھ نہیں انہیں مکان ، لباس اور خوراک پہنچائی جا رہی ہے۔
افسوس صد افسوس !کہ اس نازک موقع پر بھی امداد کے نام پر اپنی سیاست کی دکان چمکائی جا رہی ہے۔ ریلیف فنڈ کو مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کیا جا رہا ہے۔ نادار اور مفلس لوگوں کی غربت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ دو طرح کے لوگ امداد کی آڑ میں سامنے آ رہے ہیں۔
مذہبی ………یہ گروہ مختلف علاقوں میں سیلاب زدگان کے لیے مختلف ناموں سے فنڈ زاکٹھا کرتے ہیں اورسیلاب زدگان کو خیمےاورراشن وغیرہ کے ساتھ ساتھ اپنا مسلکی لٹریچر بھی دیتے ہیں۔ جس میں اسلامی احکامات کے دلنشین عنوانات کے تحت اسلاف بیزاری کا سبق لکھا ہوا ہوتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرین سیلاب سے تو بچ گئے ہیں لیکن گمراہی کے سمندر میں ضرور ڈوب جائیں گے۔
سیاسی……………یہ گروہ سیاست سے ماوراء ہو کر انسانیت کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی حریف جماعتوں کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ پانی میں کھڑے ہو کر اپنی تصاویر اتروا کر اپنا” فرض منصبی“ پورا کر رہے ہیں۔
ملک میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں بعض غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق دو سوسے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے شب و روزگزار رہے ہیں۔ فقر وفاقہ اور تنگدستی سے لاچار مرد وزن، معمر خواتین اور سن رسیدہ بزرگ ،دودھ کے لئے بلکتے ننھے معصوم بچے اس آفت کے ٹلنے کے انتظار کر رہے ہیں۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے عوام مایوسی کی تصویر بنے جا رہے ہیں۔ ہمیں بے حسی چھوڑ کر حالات کا نزاکت کا احساس کرنا ہوگا اور ایثار کا مظاہرہ کر کے دیانتداری سے اپنے بے کس بہنوں اور بھائیوں کا ساتھ دینا ہوگا۔
ایک طرف سیلابی ریلوں نے ملک کو ڈبو رکھا تو دوسری طرف بعض منچلوں کے دھرنوں نے ملکی معیشت کو ڈبو رکھا ہے دونوں خدا کے عذاب کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔ ایسے حالات میں رجوع الی اللہ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اور اس بات کی بھی کہ نیک نیتی سےاپنے سیلاب زدہ بھائیوں تک لباس ، خوراک ، خیمے ، ادویات اور ہر طرح کے راشن کو بہم پہنچایا جائے۔ بے کسوں کی سسکیاں کانوں میں گونج رہی ہیں۔ ہم نے اپنے بھائیوں کی اس مشکل گھڑی میں دلا کھول کر خدمت کرنی ہے۔ ان کے تباہ شدہ مال اور نظام زندگی کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہم سب اپنے بھائیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مصیبتوں کو ختم فرمائے اور ملک پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم
محتاجِ دعا