مبارک ہو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مبارک ہو
……مولانا امان اللہ حنفی
ذیشان اور مریم ایک محلے میں رہنے کی وجہ سےاکٹھے کھیلتاکرتے تھے۔ جوں جوں دن گذرتے گئے دونوں کی عمر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ جب ذیشان کی والدہ نے ذیشان سے پوچھا :بیٹا! آپ کی شادی کرنی ہے اگر آپ کی کوئی پسند ہے تو بتا دو! چہ جائیکہ ہم اپنی مرضی سے کردیں اور وہ آپ کو پسند نہ آئے تو۔ ذیشان نے فوراًہی مریم کا نام لے دیا۔
ذیشان کی ماں یہ انتخاب سنتے ہی بہت خوش ہوئی کیونکہ مریم کو وہ اس کے بچپن سے ہی جانتی تھی اور مریم کی شرافت اور معصومیت کی وجہ سے اس پر پیاربھی بہت آتا تھا۔ تو وہ ذیشان کی بات سن کر بہت خوش ہوئی۔
شام کوجب ذیشان کے ابو کام سے گھر واپس آئے تو فاطمہ( ذیشان کی ماں ) نےان کو ساری بات بتادی تو دونوں بہت خوش ہوئے اور رات کو کھانا کھانے کے بعد مریم کے گھر جانے کا ارادہ کیا کہ مریم کے والدین سے مریم اور ذیشان کی بات کرتے ہیں۔ جب یہ رات کو مریم کے والدین سے ملے اور ان کی شادی کی بات کی تو انہوں نےبھی فوراًحامی بھر لی کیونکہ ذیشان کا گھرانہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔
خیر سے شادی کی تیاریاں دونوں طرف سے شروع ہو گئیں اور دن اور تاریخ مقرر کر دی گئی۔ پھر وہ دن بھی آگیا مریم نے دلہن بن کر ذیشان کے گھر جانا تھا۔ اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا۔
شادی کے بعد ہر طرف خوشی ہی خوشی محسوس کی جارہی تھی گھر کا ہر فرد مریم اور ذیشان کی جوڑی سے بہت خوش تھا اور ان دونوں کو خوش اور آپس کی محبت دیکھ کر ہر شخص کے منہ سے یہی نکلتا تھا کہ کتنی اچھی جوڑی بنائی ہے اللہ نے۔
گھر میں پیار محبت کا ماحول بنا ہوا تھا۔محلے سے عورتیں آتیں اور مریم اور ذیشان کو خوش دیکھ کر ان کی تعریف کرتی نہیں تھکتی تھیں کیونکہ یہ مریم کو شروع سے جانتی تھیں اسی محلے میں رہنے کی وجہ سے۔
پھر وہ دن قریب آگئے جب اللہ نے مریم کی گودکو ہراکرنا تھا۔ جب فاطمہ کو اس بات کا پتہ چلا تو ہر طرف تیاریاں شروع ہو گئی کہ ذیشان کے گھر بیٹا پیدا ہوگا۔ فاطمہ ہر وقت بیٹے کی رٹ لگائے رکھتی اور اس کے لئے لنگوٹ اور ریڈی میٹ سوٹ بھی لائے جانے لگے اور گھر میں یہ اعلان کر دیا کہ کوئی بھی گھر کا فرد بیٹی کا نام نہ لے گا۔ اگر مجھے چاہیے تو صرف بیٹا چاہیےاور بیٹا ہی ہوگا۔
اگر کوئی غلطی سے کہہ دیتا کہ صرف بیٹے کی ہی تیاریاں نہ کرو انسانیت کی اولاد میں اللہ نے لڑکا ،لڑکی دونوں کو رکھا ہے۔ یا کہہ دیتا کہ بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے۔
تواس کہنے والے کی شامت آجاتی اور گھر کا ماحول ایسا ہو جاتا کہ قیامت سے پہلے قیامت ٹوٹ پڑی جب معاملہ ٹھنڈا ہونے لگتا تو ساس اپنی اس بہو کو جسے بہت لاڈ اور پیار سے بیٹی بنا کر گھر لاتی تھی اس کی طرف انگلی اٹھا کر وارننگ کے انداز میں کہتی : اے لڑکی! تو بھی سن لے مجھے اگر چاہیے تو بیٹا چاہیے اور بس بیٹا۔ گویا بیٹی یا بچی کا نام گھر میں لینا جرم بن چکا تھا۔
مریم کی طبعیت خراب ہونے لگی تھی ہر وقت ایک بات سنتی اور پھر سوچتی کہ اگر اللہ نے اس کے علاوہ لڑکی دے دی تو میرا کیا بنے گا ؟؟کیونکہ اس سے محبت کرنے والا ذیشان بھی ہر وقت یہی رٹ لگائے رکھتا تھا کہ بس مجھے بیٹا چاہیے۔
مریم سوچتی رہتی اچھے خاصے دیندارلوگ ہیں اور جاہلوں والی باتیں کرتے ہیں نہ جانے ان کی وہ دینداری کہاں چلی گئی ہے جس کے لوگ گُن گاتے ہیں ؟؟؟
محلے والے تو حاجن کہہ کر پکارتے ہیں پتہ نہیں وہ حج کس طرح کرلیا کس طرح اسلام کے رکن کےلیے اپنی دولت کو خرچ کر بیٹھی اس حج کا کیا فائدہ جو اللہ کی تقدیر پر راضی نہ ہو۔
مریم یہ باتیں ہروقت سوچتی رہتی اگر اتنا ہی بیٹے کا شوق ہے تو اللہ سے دعا مانگو۔ اللہ سے دعا مانگنا نہیں ہے اور میرے گلے میں طوق دے رکھا ہے۔ مریم جب بھی یہ باتیں اوروہ محبت سوچتی جو شروع کے دنوں میں اسے بیٹی کہا جاتا تھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔
خیر! سے وہ دن آگیا جس دن کا انتظار تھا………… مریم کی طبعیت خراب ہوئی اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ نرس نے باہر آکربینچ پر بیٹھے ذیشان اور فاطمہ کو کہا آپ کو مبارک ہو۔۔۔۔۔ اتنا سننا تھا کہ ماں بیٹا دونوں ہی خوشی سے اچھل پڑے۔
اس کے ساتھ ہی نرس کے اگلے الفاظ تھے اللہ نے آپ کو پیاری سی بچی دی ہے اور جس جوڑے کے ہاں پہلی اولاد بچی ہو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوڑے کے بارے میں بڑی بشارت دی ہے۔
بس یہ الفاظ سننا تھے ماں اور بیٹا دونوں مرجھا کر رہ گئے۔ جیسے بہت محنت سے انہوں نے ایک عالی شان مکان تعمیر کیا ہو اور جیسے ہی کام سے فارغ ہوں اور مکان دھڑام سے نیچے آلگے اور ملبے کا ڈھیڑ بن چکا ہو۔
دونوں ماں بیٹے پر جیسے سکتہ طاری ہو چکا ہو۔ کچھ دیر بیٹھے رہنے کے بعد ذیشان نے سہارا دے کر ماں کو اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر چلے گئے۔
مریم کی بری حالت ہو رہی تھی اور رونے کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی جس ساس اور خاوند کے ساتھ وہ ہاسپٹل آئی تھی وہ واپس جا چکے تھے اب تک کوئی اس کو ملنے اور تسلی دینے والا نہیں آیا تھا ،مریم سوچ رہی تھی کہ اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہاں اللہ کی مرضی چلتی ہے۔
وہ یہ باتیں سوچ ہی رہی تھی کہ ذیشان کے والد صاحب آئے اور انہوں نے نرسوں کی مدد سے مریم کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر لے گئے۔ جیسے ہی مریم گھر میں داخل ہوئی ذیشان کی نظر مریم پر پڑی تو اس نے اپنے چہرے کو دوسری طرف پھیرتے ہوئےزور سے کہا :
میرے پاس چلی جاؤ!!میں تیرے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ میں تجھے دیکھنا بھی نہیں چاہتا میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔
ذیشان نے یہ الفاظ اس طرح بولے کہ اب ان میں جدائی یقینی بن چکی تھی اور دونوں میں جدائی ہو گئی۔مریم کو اپنے گھر جانا پڑا پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ذیشان نے دوسری شادی کرلی پھر کچھ سالوں بعد ذیشان کے دوست نےذیشان کی کھانے پر دعوت کی کھانے دوران ایک بچہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
ذیشان نے بچے کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچ رہا تھا کاش میرا بھی اس طرح کا بیٹا ہوتا اس نے بچے کو گود میں بٹھا کر اسے پیار دینا شروع کر دیا ،پھر دوست سے پوچھنے لگا آپ کی شادی کب ہوئی ؟
اس کے دوست نے بتایا۔ ذیشان بھائی! آپ کے محلے میں ایک لڑکی تھی جو بہت خوبصورت تھی اور شریف بھی بہت تھی اور اس کے خاوند نے اس کو اس بات پر طلاق دے دی تھی کہ اس کی پہلی اولاد بیٹی ہوئی اور میں نے اس سے شادی کر لی اللہ نے مجھے یہ پیارا سا بیٹا دیا۔ ذیشان نے یہ بات سنی اور رو پڑا کیونکہ اس کو سمجھ میں آگیا تھا کہ یہ اس مریم کی بات کر رہا ہے جس کو اس نے طلاق دی۔ اسی دوران ذیشان کے موبائل پر کال آئی ،اور اطلاع دی گئی کہ آپ کی بیٹی پیدا ہوئی ہے۔مبارک ہو !!!