رقم کی واپسی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رقم کی واپسی
……بنت مولانا عبدالقدوس،احمد پور سیال
آپ کو کیا ہے؟ میں نے کتنی بار روکا ہے کہ ان جاہل لوگوں سے مت تعلق رکھا کرو۔ اونچے لوگوں سے تعلق ختم کردیا ہے اور ان جاہل اور بے وقوفوں سے تعلق رکھا ہوا ہے۔ مقدس بیگم سرور خواجہ پر برس رہی تھی۔
مقدس بیگم؛ سرور خواجہ کو کسی نچلے طبقے والے لوگوں کے ساتھ دیکھتی تو غصے کی آگ میں جلتی رہتی تھی، ان کا خیال تھا کہ یہ آس پاس کے غریب لوگ ہم پر بوجھ ہیں جب کہ سرور خواجہ ہمیشہ مقدس بیگم کو سمجھاتے تھے کہ ایسا نہ کہا کرو اللہ کو ہم پر ناراضگی آجائے گی لیکن مجال ہے جو مقدس بیگم کے کان پر جوں تک رینگے۔
سرور خواجہ ایک بڑی دکان کے مالک بہت ایماندار اور شریف آدمی تھے ، خدمتِ خلق کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، حلال روزی کماتے ،ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھتے، ان کے گھر کے پاس ایک غریب شخص ”محمود“ کا گھر تھا۔
گھر کیا………… چھوٹی سی جھونپڑی تھی ،ان کے گھر میں ضرورت کی ہی چیزیں موجود تھیں، سرور خواجہ روزانہ اس کے گھر تھوڑی سی نقدی اور کھانے پینے کی چند اشیاء دے آتے تھے، اس بات کی خبر مقدس بیگم کو نہ تھی ورنہ سرور خواجہ کو بہت باتیں سناتیں۔
سرور خواجہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا دیا تھا، سرور خواجہ نے ان کی تربیت اسلامی تعلیم سے شروع کی جب کہ مقدس بیگم کا خیال تھا کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو شہر کے سب سے بڑے اسکول میں داخل کرواؤں گی، جب مقدس بیگم کو اپنے شوہر کے خیالات کا پتہ چلا تو وہ اس نے سرور خواجہ سے لڑائی شروع کی۔ لیکن سرور خواجہ نے مقدس بیگم کو سختی سے کہہ دیا :اگر میرے راہ میں رکاوٹ بنی تو میں ہمیشہ کے لیے اس شہر سے چلا جاؤں گا۔ چنانچہ مقدس بیگم کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور سرور خواجہ نے ننھے فہد خواجہ کو ایک دینی جامعہ میں حافظ قرآن بنانے کے لیے داخل کروادیا۔
فہد نے 10 سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیا، سرور خواجہ کی خوشی قابل دید تھی مقدس بیگم بھی خوش تھی ، لیکن اس نے سرور خواجہ سے کہا اب یہ حافظ قرآن آپ کی خواہش پر بن چکا ہے اب میرا ارادہ ہے اسے میٹرک تک عصری تعلیم بھی حاصل کروائیں !!سرور خواجہ اس بات پر راضی ہوگئے، فہد خواجہ سکول میں جانے لگا اور اپنی کامیابی کا وہاں خوب سکہ بٹھایا،ہر کلاس میں نمایاں پوزیشن حاصل کی دہم کلاس کے امتحان دے کر رزلٹ کا انتظار کررہا تھا دہم کلاس بھی اس نے نمایاں پوزیشن سے پاس کرلی، فہد خواجہ بھی سرور خواجہ کے نقش قدم پر چلا اس میں بھی خدمت ِ خلق کا جذبہ تھا۔
جب کہ مقدس بیگم ان دونوں سے نالاں تھیں۔ وہ چاہتی تھی کہ اونچے لوگوں سے یہ بات چیت کریں جب کہ وہ دونوں ہمیشہ مقدس بیگم کو سمجھاتے رہتے تھے لیکن مقدس بیگم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔
فہد 20 سال کا ہوچکا تھا اب وہ عالم بن رہا تھا انہی دنوں میں سرور خواجہ کی دکان کو چند لٹیروں نے اچھی طرح سے لوٹ لیا تھا سرور خواجہ بہت پریشان ہوئے، پریشانی کے عالم گھر پہنچے تو بیگم دیکھ کر پریشان ہوگئی اس نے سرور خواجہ سے بات دریافت کی تو سرور خواجہ نے سارا واقعہ بیگم کو سنادیا۔
خواجہ نے بیگم سے کہا :مجھے لگتا ہے اللہ کو ہم پر ناراضگی آگئی ہے۔ فہدخواجہ رات کو گھر لوٹ کر آیا تو والدین کو پریشان دیکھ کر وجہ دریافت کی انہوں نے فہد کو سب کچھ بتادیا۔ فہد نے والدین سے کہا: آپ اللہ سے مانگیں !اللہ دے گا، انہوں نے اللہ سے گڑ گڑاکر دعا کی اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کی۔
دو دن ہوگئے سرور صاحب کا رو رو کر برا حال تھا۔ ادھر محمود بھی پریشان تھا کہ آخر کیا بات ہے؟ جو سرور خواجہ دو دن سے میرے گھر نہیں آئے۔ وہ سرور خواجہ کے گھر کی طرف چل پڑا دروازہ کھٹکا کر وہ تھوڑی دیر انتظار کے لیے کھڑا ہوا لیکن جلد ہی فہد نے دروازہ کھولا اپنے سامنے محمود کو دیکھ کر سلام کیا اور اسے بیٹھک میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ فہد اپنے والد کو بلا کر لے آیا۔ محمود نے سرور صاحب سے وجہ دریافت کی کہ دو دن سے آپ ہمارے گھر پر نہیں آئے، سرور خواجہ نے روتے ہوئے ساری بات انہیں بتادی۔ محمود نے تھوڑی دیر کے لیے گھر جانے کی اجازت مانگی اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آیا اس کے ہاتھ میں کچھ نقدی کے نوٹ تھے جو کہ اس نے سرور خواجہ کی دی ہوئی نقدی کو سنبھال رکھاتھا، اس نے سرور خواجہ کو وہ نقدی تھمادی اور اسے دکان کی چیزیں خریدنے کو کہا۔ سرور خواجہ نے محمود سے پوچھا کہ یہ نقدی تو نے کہاں سے لی ہے؟محمود نے صاف صاف ساری بات سرور خواجہ کو بتادی۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ محمود گھر رخصت ہوگیا۔
اس نے خواجہ کو بتایا کہ وہ بھی اب کاروبار شروع کررہا ہے۔ حلال روزی کمائے گا ،محمود نے بہت خوشی سے بتایا کہ یہ سارا آپ کی مدد اور حلال روزی کی برکت ہے۔ خواجہ بہت خوش ہوئے انہوں نے جب مقدس بیگم کو ساری بات بتائی تو وہ بہت شرمندہ ہوئی۔سرور خواجہ نے مقدس بیگم سے کہا اگر میں ایسا نہ کرتا تو آج ہماری فاقوں تک نوبت آجاتی بیگم نے خواجہ سے معافی مانگی اور آئندہ خود بھی مخلوق کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔
فہد خواجہ نے بھی اپنے والد سے وعدہ کیا کہ وہ بھی انسانیت کی خدمت کرے گا، سرور خواجہ کی چھوٹی سی نیکی سے اللہ نے ان کو اتنے بڑے نقصان سے بچالیا۔