حدیث جبرائیل علیہ السلام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حدیث جبرائیل علیہ السلام
……ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
3 فروری 2014ء بروز پیر جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا میں استاذ مکرم متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے درس حدیث دیا جس میں حدیث جبرئیل علیہ السلام کی دلنشیں پیرائے میں تشریح فرمائی۔ افادۂ عام کے لیے ہدیہ قارئین ہے۔
الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾
(سورۃ الحشر:7)
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُهُ مِنَّا اَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ وَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ: أَخْبِرْنِى عَنِ الإِسْلاَمِ قَالَ: اَلْإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ سَبِيْلًا». قَالَ صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ ثُمَّ قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِيمَانِ قَالَ : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. قَالَ:صَدَقْتَ. قَالَ : فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ». قَالَ فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَةِ قَالَ:مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ. قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنْ أَمَارَاتِهَا. قَالَ :« أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِى الْبُنْیَانِ ».قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا ثُمَّ قَالَ لِى:« يَا عُمَرُ اَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ؟ ». قُلْتُ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ :فَاِنَّہُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ».
(المشکوٰۃ: حدیث نمبر2)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
ام الکتاب و ام السنۃ:
سورۃ الفاتحہ کا ایک نام ہے ”ام الکتاب“ اور اس حدیث جبرائیل کا نام ہے ”ام السنہ“۔ ام الکتاب کا معنی ہے ”قران کا خلاصہ“ اور ام السنہ کا معنی ہے ”احادیث کا خلاصہ“۔سورۃ فاتحہ میں پورے قرآن کے مضامین اجمال کے ساتھ ہیں اور اس حدیث جبرائیل میں تمام احادیث کے مضامین اجمال کے ساتھ ہیں، اس لیے وہاں پہلی سورۃ ”ام الکتاب“ تھی اور یہاں پہلی حدیث ”ام السنہ“ ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ساری بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ [آمین]
میں نے حدیث جبرائیل کا متن پورا پڑھا ہے، اس کا ترجمہ، خلاصہ اور تشریح عرض کرتا ہوں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ“
ہم ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ ”إِذْ طَلَعَ رَجُلٌ“اچانک ایک شخص آیا۔
عربی زبان میں آنے کو کہتے ہیں ”جَآءَ“ اور ”اَتیٰ“ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ”جَآءَ“نہیں فرمایا بلکہ فرمایا”طَلَعَ“،”طَلَعَ“کا معنی ”آنا“ نہیں ہے، ”طَلَعَ“ کا معنی ”طلوع ہونا“ ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ”جَآءَ“ نہیں فرمایا ”طَلَعَ“کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ آنے والا بشر نہیں تھا، آنے والا نور تھا ،بشر آیا کرتا ہے، نور طلوع ہوا کرتا ہے۔ سورج کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ ”جَآءَتِ الشَّمْسُ“سورج آیا ہے بلکہ کہتے ہیں ”طَلَعَتِ الشَّمْسُ“ سورج طلوع ہوا ہے۔ اس لیے فرمایا: ”إِذْ طَلَعَ رَجُلٌ“ ہمارے پاس اچانک ایک شخص آیا۔ اس کی حالت کیا تھی؟
”شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ“
اس کے کپڑے نہایت سفید تھے ، بال اس کے نہایت سیاہ تھے۔
”لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ“
اس پر سفر کی کوئی علامت اور نشانی نہیں تھی۔
گرد و غبار لگا ہو، بال بکھرے ہوں، کپڑے گندے ہوں، میلے کچیلے ہوں لیکن سفر کی کوئی نشانی بالکل نہ تھی۔
”وَلاَ یَعْرِفُهُ مِنَّا اَحَدٌ“
اور ہم میں سے کوئی بندہ اس کو پہنچانتا بھی نہیں تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا تعجب بتارہے ہیں، جب دیکھتے ہیں علامت سفر کو تو کوئی علامت نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینے کا رہنے والا ہے اور ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا نہیں ہے تو پتا چلتا ہے کہ مدینے کے باہر سے آیا ہے۔ اب شش و پنج میں ہیں کہ یہ بندہ کون ہے؟ مدینہ کا ہے یا باہر سے آنے والا ہے؟ ہم یہ بات ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ:
حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ گیا۔
فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ۔
( دو زانو ہو کر بیٹھا اور) اپنے گھٹنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک گھٹنوں کے ساتھ ملادیے۔
وَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ
اس نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے یا اپنے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر رکھ لیے۔
محدثین نے دونوں ترجمے کیے ہیں۔ اگر اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سائل اسی طرح بیٹھتا ہے کہ اپنے ہاتھ اپنے رانوں پر رکھ کے باادب ہوکر بیٹھ جاتا ہے اور اگر اپنے ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں مبارک پر رکھے ہیں تو اس کا مطلب معنی یہ تھا کہ وہ اپنی احتیاج ظاہر کرنا چاہتا ہے جیسے سائل اپنی احتیاج بتانے کے لیے کبھی اپنے ہاتھوں کو دوسرے کے گھٹنے پر رکھتا ہے۔ بہر حال انہوں نے اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے اور عرض کیا: يَا مُحَمَّدُ!” یا محمد“ کہا ”یا رسول “ نہیں کہا۔ اس سوال کا جواب میں تھوڑا سابعد میں دوں گا، سوال ذہن میں رکھ لیں۔
اسلام کیا ہے؟
پھر سوا ل یہ کیا: أَخْبِرْنِى عَنِ الإِسْلاَمِ•
مجھےاسلام کے بارے میں بتائیں کہ اسلام کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور پانچ چیزیں ارشاد فرمائیں:
اَلْإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ سَبِيْلًا.
اسلام یہ ہے کہ تو اپنی زبان سے کہہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اور نماز قائم کر (یہ نہیں فرمایا
وَتُصَلِّی الصَّلَاۃَ، بلکہ فرمایا وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ، تُصَلِّی الصَّلَاۃَ کا معنی ہے نماز پڑھا کر اور تُقِيمَ الصَّلاَةَ کا
معنی ہے نماز کی پابندی کیا کر) زکوٰۃ ادا کیاکر، رمضان کا روزہ رکھا کر اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج ادا کرنا۔
انہوں نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی چیزیں فرمائیں؟ [پانچ۔ سامعین] انہیں کہتے ہیں ”ارکان اسلام“ یعنی کلمہ، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج یہ ارکان اسلام ہیں۔
حج میں استطاعت کی شرط کیوں؟
اس پر ایک سوال سمجھیں۔ میں ان شاء اللہ ساتھ ساتھ بات پوری کرتا جاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کلمہ بھی پڑھنا، نماز بھی ادا کرنا، زکوٰۃ بھی دینا، روزہ بھی رکھنا اور جب حج کی باری آئی تو فرمایا ”طاقت ہو تو حج کرنا۔ “سوال یہ ہے کہ کلمہ زبان سےاس وقت پڑھے گا جب استطاعت ہو گی، استطاعت نہ ہو تو نہیں پڑھے گا۔
نماز پڑھنے کی طاقت ہو گی تو پڑھے گا، نہیں ہو گی تو نہیں پڑھے گا۔
زکوٰۃ کی استطاعت ہوگی تو دے گا، نہیں ہوگی تو نہیں دے گا۔
روزہ کی استطاعت وطاقت ہوگی تو رکھے گا، نہیں ہوگی تو نہیں رکھے گا۔
تو کلمے، نماز، روزے، زکوٰۃ ان سب کا تعلق استطاعت سے ہے لیکن صرف حج کے متعلق کیوں فرمایا”
إِنِ اسْتَطَعْتَ سَبِيْلًا
“کہ طاقت ہو تو حج کرنا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کا تعلق انسان کی ذات سے ہے، نماز کا تعلق انسان کی ذات سے ہے، روزے کا تعلق انسان کی ذات سے ہے، زکوٰۃ کا تعلق انسان کی ذات سے ہے، حج ایسا فریضہ ہے کہ جب انسان شادی شدہ ہو تو صرف اس کی ذات سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ بیوی اور بچوں سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے، نماز میں اپنا مسئلہ ہوتا ہے لیکن حج پر تب جائے جب اپنے لیے زاد راہ بھی ہو اور گھر میں بیوی بچوں کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی ہو۔ اب اگر اپنے پاس ٹکٹ موجود ہے، مکہ مدینہ کے ہوٹل کا کرایہ موجود ہے لیکن بیوی اور بچوں کے پاس کچھ نہیں ہے، یہ وہاں جائے گا تو بیوی بچے مانگتے پھریں گے، اسی لیے فرمایا کہ حج تب کرنا جب اپنی ٹکٹ کے پیسے بھی ہوں ،مکہ مدینہ کے ہوٹل کا کرایہ بھی ہو اور بیوی بچوں کا خرچہ بھی دے کر جانا۔عموماً ہم اپنی ذات کو دیکھتے ہیں لیکن بیوی بچوں کو نہیں دیکھتے، اس لیے اپنا خرچہ ہونا بھی ضروری ہے اور گھر میں بیوی بچوں کا خرچہ ہونا بھی ضروری ہے۔
قَالَ صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ•
یہ بات سن کر اس آنے والے شخص نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ سوال بھی خود کرتا ہے اور ”صَدَقْتَ“ کہہ کر تصدیق بھی کرتا ہے۔ جب سوال کرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کو مسئلے کا پتا نہیں ہے اور جب ”صَدَقْتَ“ کہتا ہےتو معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مسئلے کا پتا ہے۔ ہم حیران تھے کہ کیسا آدمی ہے کہ سوال بھی کرتا ہے اور ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق بھی کرتا ہے، ہم شش و پنج میں تھے۔
گیارہویں کی حقیقت:
” شش و پنج“ کب بولتے ہیں جب بات سمجھ میں نہ آئے۔ علامہ خالد محمود صاحب فرمانے لگے کہ مجھ سے ایک آدمی نے پوچھا: گیارہویں کیا ہے؟ میں نے کہا: ”شش و پنج“ اس نے کہا: جی کیا مطلب؟ فرمایا: ”شش“ کا معنی چھ ہے اور ”پنج“ کا معنی پانچ ہے، شش و پنج کا معنی گیارہویں۔ کہنے لگا: جی سمجھا نہیں۔ فرمایا: جو سمجھ نہ آئے وہی تو شش و پنج ہوتی ہے۔ تو گیارہویں کیا ہے؟ شش و پنج، دینے والے کو نہیں پتا کیوں دیتے ہیں؟ کھانے والے کو بھی نہیں پتا کہ کیوں کھاتے ہیں، بس گیارہویں ہے اسے ”شش و پنج“ کہتے ہیں کہ جس کا بندے کو پتا نہ ہو کہ یہ ہےکیا، اسے کہتے ہیں ”گیارہویں “۔
ایمان کیا ہے؟
اس آنے والے نے فوراً دوسرا سوال کردیا :فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِيمَانِ•
اللہ کے نبی بتائیں کہ ایمان کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ .اللہ کو ماننا،
اللہ کے فرشتوں کو ماننا، خدا کی آسمانی کتابوں کو ماننا، اللہ کے رسولوں کو ماننا، آخرت کے دن کو ماننا اور اچھی یا بری تقدیر کو ماننا۔
ایک لطیف نکتہ:
اس پہ ذرا ایک سوال سمجھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےجب ایمان کے بارے میں پوچھا توکتنی چیزیں ببیان فرمائیں؟ [چھ۔ سامعین]
(۱) اللہ کوماننا، (۲) فرشتوں کوماننا، (۳) رسولوں کوماننا، (۴)کتابوں کوماننا، (۵) قیامت کوماننا، (۶) تقدیر کوماننا۔
جب تقدیر کی باری آئی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ”تُؤْمِنَ“ فرمایا، پہلی پانچ چیزوں پرایک بار ”تُؤْمِنَ“فرمایا، یعنی
”أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ•“
پہلی پانچ چیزوں کےلیے ایک بار ”تُؤْمِنَ“اورتقدیر کی باری آئی تو”تُؤْمِنَ“دوبارہ فرمایا،اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم چھ چیزوں کواکٹھے ذکر فرما دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ توجہ رکھنا!! اللہ پرایمان لانا آسان چیزہے سمجھنا بھی آسان ہے، فرشتوں پرایمان لانا یا سمجھنا بھی آسان ہے، انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا یا سمجھناآسان ہے،آسمانی کتابوں پر ایمان لانا یاسمجھنا آسان ہے، قیامت کےدن پر ایمان لانا اورسمجھنا آسان چیز ہے ،تقدیر ایسا مسئلہ ہے کہ جوآسانی سےسمجھ میں نہیں آتا ا س لیے اس پر ”تُؤْمِنَ“ دوبارہ فرمایاکہ سمجھ میں آئے تب بھی مانناہے اور سمجھ میں نہ آئے تب بھی مانناہے۔
ایمان کہتے ہی اسے ہیں کہ سمجھ میں آئےتومانیں سمجھ میں نہ آئےتومانیں، اس لیے ”تُؤْمِنَ“ دوبارہ فرمایا کہ سمجھ میں نہ آئے تب بھی ماننا ہے۔ میں ایک چھوٹی سی بات کرتاہوں تاکہ آپ کی سمجھ میں آئے کہ تقدیر کامسئلہ سمجھنا کتنا مشکل ہے؟! ایک آدمی کہتاہے کہ ”اللہ نےجنت اور جہنم انسان کے مقدر میں لکھ دی ہے، جب لکھ دی ہے تونماز کی ضرورت کیاہے؟ جنت مقدر میں لکھ دی ہے نماز پڑھے گا تب بھی جنت میں اورنماز نہ پڑھے گا تب بھی جنت میں۔ ایک آدمی کےمقدر میں اللہ نے جہنم لکھ دی ہے، تواب یہ بندہ نماز پڑھے تب بھی جہنم میں اورنماز نہ پڑھے تب بھی جہنم میں۔ تواب نمازپڑھنے کی ضرورت کیاہے؟“
اسی طرح ایک بندہ کہتاہے کہ ”تقدیر میں لکھاتھا کہ فلاں بندے نےفلاں کےہاتھوں قتل ہوناہے، اب قاتل تومجبورتھا کہ اس کے ہاتھوں مقتول نےقتل ہوناتھا، اب قاتل کو سزائےموت دینےکامطلب کیا ہے؟“ میں سامعین کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جب آپ نے یہ سوال سننا ہے تو پریشان ہوجانا ہے۔ میں درس کے درمیان یہ باتیں اس لیے عرض کرتارہتاہوں کہ سننے والے کو پتاچلے کہ ہمارا کام کیاہے؟ جوکام سب سےمشکل ہے وہ ہم نے اپنےذمہ لیاہواہے۔ یہ کہنا توبہت آسان ہے کہ تقدیر پرایمان لاؤ لیکن یہ سمجھانا بہت مشکل ہےکہ تقدیر پر ایمان کیسے لاؤ۔
باتیں توبہت ہیں لیکن پونےگھنٹے میں پوری بات تونہیں کرسکتا البتہ اشارہ کرتاہوں۔ مجھے ایک شخص کہنےلگا کہ ”مولانا صاحب! جب مقدرمیں لکھاتھا قتل ہونا،مقدر میں تھا قتل کرنا تو اس پر سزائےموت کیوں؟“ میں نے کہا: اس کو ایک سے مثال سمجھیں۔ ایک شخص روزانہ آتااورانگور چوری کرکے لےجاتا۔ ایک دن مالک نے چوکیدار سے کہاکہ اس چور کوپکڑو۔ چوکیدار نےمحنت کی اورچور کو پکڑلیا۔ جب چور کوپکڑا توچورکہنےلگا: دیکھو میں مسلمان آدمی ہوں، تم بھی مسلمان ہو میرے مقدر میں خدانے یہ لکھاہےکہ میں چوری کرکے انگور کھاؤں تومیں چوری کرکے کھارہاہوں، یہ میری مجبوری ہےمیں خدا کے لکھے کےخلاف تونہیں کرسکتا۔ چوکیدار سیدھا سادہ آدمی تھا اس نے اسے چھوڑدیا۔مالک نے پوچھا: بھئی کتنے دن ہوگئے ہیں چورنہیں پکڑا۔ چوکیدار نے کہا: جی رات میں نے پکڑلیاتھا لیکن پھر چھوڑ دیا۔ مالک نے کیا: چھوڑ کیوں دیا؟ اس نے کہا جی چورنے دلیل اتنی اچھی دی ہے کہ اس کو پکڑنےکا جواز بنتاہی نہیں تھا۔ مالک نے کہا اب آئےتوپھرپکڑنا۔ مالک سمجھدارتھا، صبح ایک عالم کےپاس گیا۔ اس نےکہا: مولانا ہمارے ہاں چورآیاتھا اور پڑھا لکھا چورتھا، اس نے دلیل ایسی دی کہ ہمارےچوکیدار نے اس کوچھوڑدیا۔ مولانا صاحب نےپوچھا کہ اس چورنے کیابات کی؟ مالک نےکہاجی اس نےیہ بات کی تھی۔ مولانا صاحب نے کہاکہ چورکوپکڑو اور پکڑکے مجھےبتانا۔ اب چوکیدار رات بیداررہا۔ چورآیا تواس نےپکڑلیا۔ جب چورکوپکڑا تواس نے کہاجی میراقصور نہیں ہے میں نے تو خدا کے لکھے ہوئے پر عمل کیاہے،میں مجبور ہوں۔ مولانا صاحب کھڑے تھے، انہوں نےکہا: اس نے جس بیل سےانگور توڑے ہیں اسی بیل کےساتھ اسے باندھو۔ باندھ دیاگیا۔ اب مولانا صاحب نےچوکیدارسے کہا: اب اسے ڈنڈے سےمارو۔ جب اس نےدوچارلگائےتو چیخا کہ مجھےچھوڑدو۔ مولانا صاحب نےکہا: نہیں بھئی! تمہارے مقدر میں انگور کھانابھی تھا، تمہارےمقدر میں ڈنڈےکھانا بھی تھا۔ جب تک تمہارے مقدر میں مارکھانا لکھا ہے خان صاحب (چوکیدار) اس کومارتےرہو، جب اللہ کہیں گے چھوڑدو پھر چھوڑ دینا۔ اس نے کہا: جی مجھے مسئلہ سمجھ میں آگیا، آئندہ میں یہاں کبھی نہیں آؤں گا۔
حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے اتناآسان لفظوں میں تقدیر کامسئلہ سمجھایاہےکہ شاید اس سے آسان لفظوں میں بات کرنا ممکن نہ ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:”تقدیر علمِ الٰہی کانام ہے نہ کہ امرِالٰہی کا۔“ لفظ یاد رکھ لیں ”تقدیر علمِ الٰہی کانام ہےنہ کہ امرِالٰہی کا۔“ ہم سمجھتے ہیں کہ تقدیر امرِالٰہی کانام ہے حالانکہ یہ امرِالٰہی کانام نہیں بلکہ علمِ الٰہی کانام ہے۔
توجہ رکھنا اس کامطلب کیاہے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ میں اس بندے کواختیار دوں گا، یہ بندہ یوں کام کرےگا، اس لیےخدانے لکھ دیا کہ اس بندے نےایسے کام کرناہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانے اس کوگناہ کرنےکاپابند کیاہے، خدا کے علم میں تھا اس نے ایسےکرناہے اس لیے خدا نےلکھ دیا،یہ بندہ اس لیے نہیں کر تا کہ خدانے لکھاہے بلکہ خدانے اس لیے لکھاہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ اس نے کرناہے۔ علمِ الٰہی الگ ہے اورامرِالٰہی الگ ہے۔ اس سے آسان تعبیر نہیں ہے اس لیے اگرپھر بھی سمجھ نہ آئے توبھی مان لیں۔
اچھی اور بری تقدیر کا مطلب:
ایک سوال اورسمجھیں۔ تقدیر اگراللہ کافیصلہ ہےتواللہ کافیصلہ خیر ہی ہوتا ہے یاکبھی شربھی ہوتاہے؟ [خیرہی ہوتاہے۔ سامعین]ہاں ہمیشہ خیرہوتاہے اورہم کیاکہتےہیں:” تقدیر اچھی ہوتب بھی اللہ کی طرف سے ہے اور بری ہوتب بھی اللہ کی طرف سے ہے۔“ سوال یہ ہے کہ تقدیر بری کیسےہوسکتی ہے؟
میں یہی بات سمجھانے لگاہوں کہ مثلاً ایک آدمی نےقتل کردیا، اس کے خلاف 302 کی ایف آئی آر کٹی، تھانے والوں نےگرفتارکرلیا، عدالت میں پیش کردیا، کیس چلتارہا، عدالت نے اس قاتل کو سزائےموت دےدی۔ یہ فیصلہ عدالت کا ٹھیک ہےیا غلط؟ [ٹھیک ہے۔ سامعین] اب اگرفیصلہ عدالت کاٹھیک ہے توآپ مٹھائی کاڈبہ لو، قاتل کےباپ کوجاکر مبارکباد پیش کرو، وہ پوچھے کیوں آئےہو؟ آپ کہیں: آپ کومبارکباد دینےآئے ہیں کہ بالکل صحیح فیصلہ عدالت نےدےدیاہے۔ مبارکباد دیں گے؟ [نہیں۔ سامعین] آپ توافسوس کریں گے، حالانکہ فیصلہ ٹھیک ہے قاتل کوسزائے موت ہونی چاہیے لیکن قاتل کےباپ سےجا کر افسوس کرتے ہیں مبارکباد نہیں دیتے، اس کامطلب کیاہے؟ اللہ کافیصلہ ہمیشہ ٹھیک ہوتاہے کبھی انسانوں کی مرضی کےمطابق ہوتاہے اورکبھی انسانوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ فیصلہ خدا کاہے اگرانسان کی مرضی کےموافق ہوا سے ”تقدیر خیر“ کہتے ہیں، انسان کےمزاج کےمخالف ہواسے ”تقدیر شر“ کہتے ہیں، فیصلہ تو ٹھیک ہے کبھی ہماری خواہش کےموافق ہوتاہے کبھی ہماری خواہش کےمخالف ہوتاہے اسے کہتے ہیں تقدیر خیر اورتقدیر شر۔
احسان کیاچیزہے؟
اس آنے والے نے پوچھا:
فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِحْسَانِ.
اللہ کےنبی! بتائیں احسان کیاہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ.
خداکی عبادت یوں کرگویا تواللہ کودیکھ رہاہے، اگریوں نہ کرسکے توپھر عبادت یوں کرکہ گویا خداتجھے دیکھ رہاہے۔
عبادت کی دو قسمیں:
توجہ رکھنا گویا اب عبادت کی دوقسمیں ہیں:
ایک قسم…… بندہ خداکودیکھے خدابندےکودیکھے
دوسری قسم…… بندہ خداکونہ دیکھے صرف خدابندے کودیکھے
بندہ خداکودیکھے خدابندے کودیکھے اس عبادت کانام ہے ”عالم مشاہدہ والی“ اوربندہ خداکونہ دیکھے خدابندےکودیکھے اس عبادت کانام ہے”عالم غیبوبت والی“ ایک دوسرے کودیکھیں یہ ”مشاہدہ“ہے ایک دیکھےدوسرا نہ دیکھے یہ ”غیبوبت“ ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرور دامت برکاتہم نے لکھاہے کہ عبادت کی دوقسمیں ہیں؛ ایک عبادت نبی کی ہے ایک عبادت امتی کی ہے، نبی کی عبادت یہ ہے کہ خدانبی کودیکھتاہے نبی خداکودیکھتاہے، امتی کی عبادت یہ ہےکہ خدا امتی کو دیکھتا ہے لیکن امتی خدا کو نہیں دیکھتا، ایک دوسرے کو دیکھیں یہ عبادت نبی کی ہے، خدادیکھے بندہ نہ دیکھے یہ عبادت امتی کی ہے۔ اس سےاب دومسئلے سمجھیں:
خانقاہ؛ تربیت گاہِ امتی:
آپ نے خانقاہوں یا مدرسوں میں یہ جملہ لکھا ہوا دیکھا ہے: ”اے بندے! یہ احساس پیداکرکہ خداتجھے دیکھ رہاہے“ ایک بندے نےمجھےکہا: دیوبند والوں کے مدرسوں اور خانقاہوں میں لکھا ہوا یہ جملہ حدیث کےخلاف ہے۔ میں نے کہا: کیوں؟ کہنےلگا: حدیث مبارک میں ہے کہ یہ احساس پیداکروکہ تم خداکودیکھ رہےہو۔ (حدیث میں لفظ ”احسان“ ہےنا کہ عبادت ایسےکرو جیسےتم خداکودیکھ رہے ہو، اگریہ کیفیت نہیں توپھر یہ احساس پیداکروکہ خداتمہیں دیکھ رہاہے، توپہلامرحلہ ہے کہ بندہ خداکودیکھے أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ) وہ بندہ مجھے کہنےلگا: تمہارے مدرسوں، مسجدوں اورخانقاہوں میں لکھاہوتا ہے کہ احساس پیدا کر کہ خدا تجھے دیکھ رہاہے اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں کہ عبادت یوں کرکہ تو خدا کودیکھ رہاہے، توتمہاری خانقاہ کےجملے حدیث کےخلاف ہیں۔ میں نےکہا: حدیث کےخلاف نہیں ہیں، اس خانقاہ میں تربیت نبی کی نہیں ہے اس خانقاہ میں تربیت امتی کی ہے، اس مسجد میں نماز پڑھنے کےلیے نبی نہیں آئے یہاں نماز پڑھنے کے لیے امتی آتےہیں، امتی کی عبادت یہ ہے کہ یہ احساس پیداکر کہ خداتجھے دیکھ رہاہے اورنبی کی عبادت یہ ہے کہ یہ احساس پیداکر کہ توخداکودیکھ رہاہے، خانقاہوں میں لکھاہوا یہ جملہ نبی کےلیے نہیں ہے بلکہ امتی کےلیےہے۔
مقتول فی اللہ اور مقتول فی سبیل اللہ:
ہماراعقیدہ ہےکہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ ابھی میں نے ”احسان“ کامعنی بیان کیا، احسان کا پہلا درجہ کہ بندہ خدا کو دیکھے اور خدا بندےکودیکھے، احسان کا دوسرا درجہ کہ خدا بندےکو دیکھے بندہ خداکونہ دیکھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: بندہ خدا کودیکھے خدابندےکو دیکھے یہ عبادت نبی کی ہے اور بندہ خدا کونہ دیکھے خدا بندے کو دیکھے یہ عبادت امتی کی ہے۔نبی پہ موت آتی ہے، نبی شہیدہوتے ہیں لیکن نبی نے خداکودیکھاہوتاہے، امتی شہید ہوتاہے وہ خداکونہیں دیکھتا بلکہ خداکے راستے کو دیکھتا ہے۔ جوخداکودیکھے اورقتل ہوجائےاسے ”مقتول فی اللہ“ کہتےہیں اور جو خدا کے راستے کودیکھے اورقتل ہوجائے اسے”مقتول فی سبیل اللہ“ کہتےہیں، نبی نے خدا کو دیکھااورقتل ہوا یہ مقتول فی اللہ ہے شہید نے راہِ خداکودیکھا اورقتل ہوا یہ مقتول فی سبیل اللہ ہے۔ توجہ رکھنا!!”أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ“ عبادت یوں کر کہ خداتجھے دیکھے توخداکو دیکھے، اب یہ قتل ہواتو ”مقتول فی اللہ“ ہے، ”فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ“عبادت یوں کر کہ تجھے خدادیکھے، اب قتل ہوا تو”مقتول فی سبیل اللہ“ ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ نبی خداکودیکھے خدانبی کودیکھے، اس نبی پرموت آئے یہ ”مقتول فی اللہ“ ہے، شہید خداکونہ دیکھے خداشہید کودیکھے پھرقتل ہوجائے تویہ ”مقتول فی سبیل اللہ“ ہے، توجس نےراہِ خداکودیکھا اورقتل ہوگیا وہ زندہ ہے توجس نے خداکودیکھا اورقتل ہوگیا وہ بڑھ کےزندہ ہے۔ اس لیے لفظ یادرکھ لوشہید مقتول فی سبیل اللہ ہے اورنبی مقتول فی اللہ ہے۔
قیامت کےبارے میں بتایئے:
پھر اس آنے والے نےسوال کیا:
فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَةِ•
اللہ کے نبی!ہمیں بتائیں قیامت کب آئےگی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ.
اس سوال کاجواب تجھے بھی نہیں آتااس سوال کاجواب مجھے بھی نہیں آتا۔
توجہ رکھنا اوریہ جملہ سمجھنا۔ چاہیےتویہ تھاکہ اللہ کے نبی جواب نہ دیتے، اس لیے کہ جب انہوں نےپوچھا: اسلام کیاہے؟ فرمایا پانچ چیزیں، پوچھا ایمان کیا ہے؟ فرمایا: چھ چیزیں، پوچھا احسان کیاہے؟ فرمایادوچیزیں، پوچھاقیامت کب آئےگی؟ آپ فرماتے مجھے نہیں پتا۔ جواب تو یہی بنتاہے کہ مجھے نہیں پتالیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ جواب کیوں دیا؟ ذرا وجہ سمجھیں؛ اگراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کےجواب میں فرماتے مجھے نہیں پتا تو کسی کےذہن میں اشکال آ سکتا تھا کہ جب پوچھا اسلام کیاہے؟ جواب دیا پانچ چیزیں، ایمان کیاہے؟ فرمایا چھ چیزیں، تو اس آنے والے شخص نے کہا”صَدَقْتَ“ (آپ نے سچ فرمایا) اس سے معلوم ہوتا تھا کہ سوال کرنے والے کوجواب آتاتھا لیکن پوچھ رہا تھا۔ جب سوال کیاقیامت کب آئےگی؟ تواگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے مجھے نہیں پتا تو کسی کے ذہن میں یہ آسکتاتھاکہ اس سوال کاجواب اس شخص کوپتا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کونہیں پتا، اس لیے اللہ کے نبی نےفرمایا: مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ•جب میں نےکہا :اسلام پانچ چیزیں ہیں تو تونے کہا:”صَدَقْتَ“ میں نے کہا: ایمان چھ چیزیں ہیں، تونے کہا:”صَدَقْتَ“ تولوگ سمجھے کہ اس کاجواب تجھے آتاہے، لیکن قیامت کا دن کب ہے؟ یہ مجھے بھی نہیں پتا توتجھے بھی نہیں پتا۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کونہیں پتا تواس آنے والے کو پتاہے، ایسا نہیں کہہ سکتے۔
قیامت کی علامات:
اس نے کہا:فَأَخْبِرْنِى عَنْ أَمَارَاتِهَا•قیامت کی نشانیاں ہی بتادیں۔
اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنشانیاں بتائیں۔ فرمایا:
(1): أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا•
فرمایا: جب وہ دورآجائے کہ باندی اپنی مالکہ کوجنے یعنی بیٹی کی حیثیت مالکہ کی بن جائے اورماں کی حیثیت باندی کی بن جائے توسمجھ لینا قیامت آنےلگی ہے۔
علماء نےعجیب نکتہ لکھاہے کہ یہ کیوں فرمایا کہ جب بیٹی کی حیثیت مالکہ کی اور ماں کی حیثیت باندی کی بن جائے۔ اللہ کے نبی یہ بھی توفرماسکتےتھےکہ جب ایسا دور آجائے کہ باپ یوں ہوجائےجیسے غلام ہےاور بیٹایوں ہوجائے جیسےمالک ہے، اللہ کےنبی نے باپ اوربیٹے کی مثال نہیں دی بلکہ ماں اوربیٹی کی مثال دی ہے یہ سمجھانے کےلیے کہ بیٹا باہررہتاہے، بیٹاطاقت والاہے، بیٹاکماتاہے، ہوسکتاہے زور اور طاقت کےناز پہ باپ کوغلام بنالے لیکن بیٹی توگھر میں ہے، صنفِ نازک ہے، کمزور ہے، جب ایسا دور آجائے کہ بیٹیاں کمزور ہونے کےباوجود مالکن بننے کی کوشش کریں تو سمجھو قیامت قریب آرہی ہے۔
(2): وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِى الْبُنْیَانِ•
فرمایا جب دیکھو آدمی کےپاؤں میں جوتے بھی نہیں ہیں، آدمی کے جسم پر کپڑا بھی نہیں ہے،آدمی کے پیٹ میں روٹی بھی نہیں ہے اوربکریاں چرانے والاہے جب ایسے آدمی لمبی لمبی عمارتیں کھڑی کریں توسمجھ لینا قیامت آرہی ہے۔
میں ایک جملہ کہتاہوں کہ اُس دور میں یہ بات سمجھنی بڑی مشکل تھی لیکن آج کےدور میں سمجھنی بڑی آسان ہے۔اُس دور میں سمجھنی بڑی مشکل تھی کہ بکریوں کاچرواہا جس کے پاس کھانے کےلیے روٹی نہیں ہے، پہننے کےلیے کپڑا نہیں ہے، پاؤں کےلیے جوتیاں نہیں ہیں یہ اونچی منزلیں کیسےبنائےگا؟! یہ بات سمجھنی بڑی مشکل تھی لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کاایمان ایساتھا کہ اگر کوئی مثال نظرنہیں آرہی، سمجھنا مشکل ہو رہا ہو لیکن مان تب بھی لیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹھیک فرمایا ہے۔ اب اس کامعنی کیاہے؟ میں آج کے ماحول کےاعتبار سے اس کے دومعنی بتاتا ہوں۔
پہلا معنی:
آدمی کےپاس بظاہرکپڑےبھی نہیں ہیں، پاؤں میں جوتابھی نہیں ہے، غریب آدمی ہے اور پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر دوسروں سے بھیک مانگتاہے صبح سےشام تک، لگتاہے پیٹ میں بھی کچھ نہیں ہے لیکن بینک بیلنس دیکھو اس کا، تاجرسے زیادہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق بنتانہیں ہے لیکن مانگناپیشہ ہے۔ جب یہ دور آئےتوسمجھیں قیامت آرہی ہے۔ آج ایسے حالات ہیں کہ نہیں؟ [ہیں۔ سامعین] پاؤں سے ننگاہوگا، کپڑے پھٹےہوں گے اوراس نےپیٹ پہ ہاتھ رکھاہوگا کہ صبح سے بھوکاہوں ابھی تک کھانانہیں کھایا، بچے بھی بھوک سےمررہےہیں، دس روپےدےدو۔ اس کوتیس بندے سوروپےدیں توتین ہزار بنتےہیں ایک دن کے، تین ہزار ہوں تومہینے کے نوے ہزار بنتے ہیں۔ بجلی کابل بھی نہیں دیتا، دکان کاکرایہ بھی نہیں دیتا، سامان خرید کربھی نہیں لاتا، اب اس بندے کونوے ہزارمہینے کامل جائے توآپ دیکھیں سال کےبعد اس کے اکاونٹ میں دس ساڑھے دس لاکھ روپیہ نکلتاہے۔یہ بلڈنگ تو بنا سکتاہےنا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بات سمجھائی۔ اُس دور میں اگرچہ سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر بھی مان لی ہے۔
دوسرا معنی:
دوسرا مطلب میں آج کےدورمیں یوں پیش کرتاہوں کہ آدمی ہوتاقوم کا چرواہا ہے، قوم کاگھٹیا ہے، دیہات میں رہتاتھا لوگ اس کی قوم کوجانتےتھے، شہرمیں آیا ، بزنس بدل گیا، اب قوم بھی بدل گئی۔ میں مثال نہیں دیتا کہ اگرمثال فٹ آگئی تو آپ نے کہناہے کہ مولوی صاحب نے اےساڈےبارے وچ آکھیا اے(مولانا صاحب نے ہمارے بارے میں کہاہے) ایساہوسکتاہے نا؟[جی۔ سامعین]
مثال فٹ آ گئی:
ایک آدمی نےمجھے سے کہا کہ ہماری ہمشیرہ نے خواب دیکھا ہے، آپ تعبیر بتائیں۔ میں نے اس کوتعبیر بتائی کہ تمہارےخاندان کاقریبی آدمی گورنمنٹ کاملازم ہے اورسرکاری مال کھاتاہے اسے کہوکہ توبہ کرے۔ جب وہ لڑکا گھر تعبیر لےکرگیا۔ اسی وقت گھرسے بڑےبھائی کافون آیا: ”مولوی صاحب اساڈی تساڈی کیڑی لڑائی اے؟! (مولانا صاحب! ہماری اور آپ کی کیا لڑائی ہے) میں نےکہا:کیوں؟ کہنے لگا: بہن نےکہا ہے کہ مولانا صاحب نےآپ کےبارے میں بتایاہے۔ میں نےکہا: مجھے پتاہی نہیں کہ آپ سرکاری ملازم ہیں، اس نےخواب دیکھی میں نے تعبیر بتائی، فِٹ آپ پر آئی ہے تومیرا کیاقصورہے۔
اس لیے میں مثالیں نہیں دیتاکہ اگرفٹ آجائیں توکہیں گے کہ مولانا صاحب نےتقریر ہمارےخلاف کی ہے، کسی نےکان بھرےہوں گے کہ یہ بات ضرورکریں حالانکہ بندے کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتا۔ میں صرف اتنی بات سمجھادیتاہوں کہ گاؤں میں تھا توقوم اورتھی، شہرمیں آیا توقوم اورہے، فقیرتھا توقوم اورتھی، پیسے ملے توقوم اورہے۔ توجب دولت کی بنیاد پر قومیں بدلی جانے لگیں توسمجھوقیامت آرہی ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتےہیں:ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا•جب یہ سوال وجواب ہوئے وہ آدمی چلاگیا تو میں کچھ عرصہ اسی سوچ میں رہا کہ یہ آدمی کون ہو گا؟حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند دن بعد فرمانےلگے:يَا عُمَرُ اَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ؟عمر!جانتےہو یہ سوال کرنے والاکون تھا؟
حضرت عمررضی اللہ عنہ کوپتانہیں تھا کہ یہ سوال کرنے والاکون ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاجواب سنو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےیہ عرض نہیں کیاکہ ”حضور!مجھے نہیں پتا کہ سوال کرنے والا کون تھا۔“ بلکہ یہ کہا:”اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.“اللہ اوراس کارسول زیادہ جانتےہیں۔
اس سے ہم نے ایک مسئلہ سمجھنا ہے کہ اگر حضرت عمررضی اللہ عنہ یہ فرمادیتے کہ مجھے نہیں پتا تو اس سے یہ تو پتا چلتا کہ حضرت عمر کو نہیں پتا لیکن اس جواب سے یہ پتا نہ چلتا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا ہے یا نہیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سائل کون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ مجھے نہیں پتا۔ اس سوال سے حضرت عمر کی لا علمی تو ثابت ہوتی لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا علم ثابت نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عمر نے ایسا جملہ بولا جس سے اپنی لا علمی بھی ثابت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم بھی مانا کہ ”حضور! آپ کو تو پتا ہے مجھے پتا نہیں تو کیا ہوا“حضرت عمر نے ادب بتایا کہ بڑا جب بات پوچھے تو یوں کہنا چاہیے کہ ”آپ فرمادیں، آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ “
اس سے ایک اور بات سمجھیں کہ حضور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات کیوں فرمائی؟ اس پر میں ایک مثال دیتا ہوں پھر بات سمجھاتا ہوں۔
مثال :
سکول میں چھٹی ہے، آپ مارکیٹ جانے لگے ہیں ،بیٹا کہتا ہے کہ میں نے بھی ساتھ جانا ہے،ابو جی! شاپنگ میں نے بھی کرنی ہے۔ آپ بیٹے سے پوچھتے ہیں: جیب میں کچھ پیسے بھی ہیں؟ وہ یہ نہیں کہتا کہ میری جیب میں پیسے نہیں ہیں، کیوں؟ اگر وہ یہ کہہ دے میرے پاس پیسے نہیں ہیں ،آپ کہیں گے کہ بیٹا پھر تو شاپنگ کیسے کرے گا؟ اب لمبا سوال و جواب چلے گا۔ بیٹا یہ نہیں کہتا کہ میری جیب میں پیسے نہیں ہیں، وہ باپ کی جیب پہ ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ ابو! میری جیب میں نہیں تو کیا ہوا آپ کی جیب میں تو ہیں ناں! آپ کی جیب میں نہ ہوتے تو پھر مسئلہ تھا میری جیب میں نہ ہوں کیا فرق پڑتا ہے؟! اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ بتانا چاہتا ہے کہ میری جیب میں ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا آپ کی جیب میں ہوں تو ہم شاپنگ کرلیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عمر جانتے ہو سائل کون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ مجھے نہیں پتا بلکہ آپ نے کہا: حضور! آپ کو تو پتا ہے ناں، (ہمیں پتا نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے، مسئلہ تب ہو جب آپ کو پتا نہ ہو ،ہمیں پتا نہیں ہے تو ہم آپ سے پوچھ لیں گے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَاِنَّہُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ•
یہ جبریل تھے، تمہارے پاس آئے تھے تاکہ تمہارا دین تمہیں سکھا ئیں۔ الفاظِ نبوت پہ غور کرناحضر ت جبرئیل علیہ ا لسلام کس کے پاس آتے تھے؟ [حضور پاک کے پاس،سامعین] حضور کیا فرمارہے ہیں”أَتَاكُمْ“ تمہارے پاس آئے ہیں۔
میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ اسٹیج پر مولانا اعلان کرتے ہیں: ”یہ مولانا صاحب تمہارے لیے آئے ہیں، ہم نے تمہارے لیے بلایا ہے، اب تم بات نہیں سنتے تو کون سنے گا؟ ہم نے آپ کے لیے ہی بلایا ہے۔“ اللہ کے نبی سمجھانا چاہ رہے ہیں:
اِنَّہُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ•اے عمر! یہ جبریل تھے، آئے بیشک میرے پاس ہیں لیکن آئے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے ہیں۔ تمہارے پاس کیوں آئے ہیں؟
”يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ“
مجھے سکھانے کے لیے نہیں بلکہ تمہیں سکھانے کے لیے آئے ہیں۔
کیونکہ جبریل معلمِ مصطفی نہیں ہوتا، دنیا میں نبی کا اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی استاذ نہیں ہوتا ،نبی کا استاذ خدا ہوتا ہے، جبریل استاذ نہیں۔ جبریل درمیان میں واسطہ ہوتا ہے، اگر جبریل کو استاذ مان لو گے تو استاذ کا مقام بڑھ جائے گا، شاگرد کا کم ہوجائے گا لیکن نبی کا مقام جبریل کے مقام سے بڑھ کر ہے، اس لیے فرمایا:”يُعَلِّمُكُمْ“
یہ تمہیں سکھانے کے لیے آیا ہے، مجھے سکھانے کے لیے نہیں آیا۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے استاذ سبق پڑھاتا ہے، شاگرد سبق پڑھ رہے ہیں، استاذ ایک بندے کو کہتا ہے: یہ کتاب لو اور اس طالب علم کو دے دو ،کوئی بندہ یہ نہیں کہتا کہ درمیان والے استاذ ہیں بلکہ یہی کہتا ہے کہ استاذ یہ ہیں شاگرد یہ ہے اور یہ درمیان میں واسطہ ہے۔ بالکل اسی طرح خدا استاذ ہے، مصطفی شاگرد ہے اور جبریل درمیان میں واسطہ ہے۔ پھر فرمایا:”دِينَكُمْ“ تمہارا دین، یہ نہیں فرمایا: ”دِیْنِیْ“ میرا دین …اس سے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے جو بات سمجھائی ہے ذرا توجہ سے سمجھنا۔ قرآن مجید کو دیکھیں۔ دوموقعوں پر اللہ نے عجیب لفظ استعمال فرمایا لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ؁اصل میں تھا: ”وَلِيَ دِينِیْ“اے مشرکین مکہ! تمہارا دین تمہارے لیے، میرا دین میرے لیے، مکہ میں خدا نے دین کی نسبت حضور پاک کی طرف کی ہے۔ مدینہ منورہ میں فرمایا:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْاب یہ دین کی نسبت اللہ نے صحابہ کی طرف کی ہے، آخر فرق کیا ہے؟ مکہ میں دین کی نسبت حضور کی طرف ہے، مدینہ میں دین کی نسبت صحابہ کی طرف ہے یہ بتانے کے لیے کہ جب دین شروع ہوا تو ”دینِ محمد“ ہے اور جب دین مکمل ہوا تو یہ دین ”دینِ صحابہ“ہے۔ دین محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ملے گا تو صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ملے گا، ان کو درمیان سے نکال دو تو دین محمد مل ہی نہیں سکتا۔ اس لیے فرمایا:يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْجبریل آیا بھی تمہارے لیے ہے، سکھایا بھی تمہیں ہے اور یہ دین بھی تمہارا ہے۔ میں جا رہا ہوں ، اب تم نے دین کی حفاظت کرنی ہے۔
اس حدیث کا نام ہے ”حدیث جبرائیل“ ذرا خلاصہ سنیں۔ یہ حدیث پورے دین کا خلاصہ ہے، اسے ”ام السنہ“ بھی کہتے ہیں۔ دین نام ہے کچھ چیزوں کا :
(۱) ایمانیات، (۲) اسلامیات، (۳) احسانات۔
میں اور آسان کرتا ہوں: (۱) عقائد، (۲) مسائل، (۳) تصوف۔
ان تین چیزوں کا نام ”دین“ ہے۔
آپ کہیں گے جی کیوں؟ میں کہتا ہوں: انسان میں تین چیزیں ہیں۔
انسان کا جسم ہے، جسم میں دل ہے، دل میں کیفیت ہے۔ جس کا تعلق انسان کے جسم سے ہے اسے ”اسلام“ کہتے ہیں، جس کا تعلق انسان کے دل سے ہے اسے ”ایمان“ کہتے ہیں، جس کا تعلق دل کی کیفیت سے اسے ”احسان“ کہتے ہیں۔ پہلے سوال اسلام کے بارے میں تھا جو ظاہرِ بدن سے ہے، پھر سوال ایمان کے بارے میں تھا جو قلبِ بدن سے ہے، پھر تصوف کے بارے میں تھا جو انسان کی قلبی کیفیات سے ہے۔
تو دین نام ہے تین چیزوں کا :
 ”عقائد “اسے ایمان کہتے ہیں
 ”مسائل“ اسے اسلام کہتے ہیں
 ”اخلاق“ اسے احسان کہتے ہیں
اگر کسی نے ایمان پڑھنا ہو یعنی عقیدہ یہ ملتا ہے ”متکلم“ سے۔
اگر مسائل پوچھنے ہوں یہ ملتے ہیں ”فقیہ “اور ”مفتی“ سے۔
اگر کسی نے احسان یعنی تصوف سیکھنا ہو تو یہ ملتا ہے”شیخ طریقت“ سے۔
 جس علم میں عقیدہ ہو اسے ”علم کلام“ کہتے ہیں۔
 جس میں مسائل ہوں اسے ”علم فقہ“ کہتے ہیں۔
 جس میں اخلاق ہوں اسے ”علم تصوف“ کہتے ہیں۔
پتا یہ چلا کہ دین مین تین چیزیں ہیں:
٭ علم الکلام یہ عقیدہ ہے ٭ علم المسائل یہ فقہ ہے ٭ علم الاخلاق یہ تصوف ہے۔
آپ حیران ہوں گے دیوبند کے پاس ”متکلم“ بھی ہیں، دیوبند کے پاس ”فقیہ“ بھی ہیں، دیوبند کے پاس خانقاہ و طریقت کے ”شیخ“ بھی ہیں۔ عقیدہ چاہیے ”علم الکلام“ بھی ہے، مسائل چاہییں ”علم الفقہ“ بھی ہے، طریقت چاہیے ”علم التصوف“ بھی ہے۔ یہ سب کچھ دیوبند والوں کے پاس موجود ہے تو بتاؤ پھر دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جرات سے کہا کریں کہ ہم دیوبندی ہیں، اس میں جھجکنا نہیں چاہیے۔ جب کسی سے اس کی قوم کے بارے میں پوچھیں کہ آپ کون ہیں تو کہتے ہیں:گوندل،آپ کون ہیں: میں شیخ، آپ کون ہیں: میں ارائیں، آپ کون ہیں: وٹو، یہ ساری قومیں بتاتے جا رہے ہیں اور جب مسلک کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں: ناں ناں دیوبند نہ کہنا، عجیب بات ہے!! شیخ الہند دیوبند، مولانا تھانوی دیوبند، حضرت مدنی دیوبند، عطاء اللہ شاہ بخاری دیوبند، شیخ زکریا دیوبند، قاری طیب دیوبند، مفتی محمود دیوبند، حضرت مولانا الیاس دیوبند، اب تک تجھے جو کچھ ملا وہ دیوبند سے ہے، مسجد دیوبند کی، مقتدی دیوبند کا، مفتی دیوبند کا، خطیب دیوبند کا، بعض لوگ مجھے کہتے ہیں: ہماری مسجد میں یہ دیوبند نہ کہنا، تو میں کہتا ہوں پھر کسی اور کو بلاؤ، بات ٹھیک ہے کہ غلط ہے؟ [ٹھیک ہے۔ سامعین] یہ مسجد کس کی ہے؟ دیوبند کی۔ میں نے کسی کو برا کہا؟ [نہیں۔ سامعین] اپنی بات تو کہہ سکتا ہوں۔ہم اپنے مسلک کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اس لیے قوم برباد ہوتی ہے کہ ہم نہ اپنے عقائد بتاتے ہیں، نہ اپنے اکابر بتاتے ہیں، نہ مسائل بتاتے ہیں اس لیے لوگ تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ شائد اس میں کمی ہے، بحمد اللہ دیوبند میں کمی نہیں ہے۔
تو اس حدیث کا نام ہے ”حدیث جبرائیل“اسلام کتنی چیزوں کا خلاصہ ہے؟ تین چیزوں کا (۱)ایمان(۲)اسلام (۳) احسان۔
ایمان یہ ”عقائد “ ہیں۔
اسلام یہ”مسائل“ ہیں۔
احسان یہ ”اخلاق“ ہیں۔
ہم تینوں کو مانتے ہیں۔ اگر ان تینوں کو مان لیا جائے تو قیامت میں اچھا بدلہ ہے اور اگر نہ مانیں تو پھر برا بدلہ ہے۔ یہ پورے دین کا خلاصہ تھا جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پورے دین ک پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب ا لعلمین