شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عالم﷫

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عالم﷫
……حافظ سمیع اللہ طاہر
شہر شیخوپورہ کے معروف دینی ادارہ جامعہ فاروقیہ کے بانی و مہتمم شیخ الحدیث مولانا محمد عالم رحمہ اللہ کی وفات کی خبر پوری دنیا میں انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ سُنی گئی۔حضرت مولانا محمد عالم کا تعلق ان علماء حق سے ہیں جو کہ تمام زندگی (قال اللہ و قال الرسول) کی صدا بلندکرتے اور لاکھوں لوگوں کو شرک و بدعت اور ضلالت و گمراہی کے گڑھوں سے نکال کر ان کے دلوں میں توحید الہٰی اور عشق مصطفوی ﷺ کی شمعیں روشن کرکے ان کے ایمان کی حفاظت اور جنت کی طرف راہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آپ کی خوبصورت،باوقاراور ایمان افروزشخصیت کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ ایک کامیاب مدرس۔بہترین خطیب، ذہانت و فطانت، حاضر جوابی اور نفاستِ طبع کے حسین مرقع تھے۔
آپ نے کم و بیش چالیس سال جامعہ فارقیہ شیخوپورہ میں درس و تدریس اور خطابت کے فرائض سر انجام دئیے۔ تمام مسالک کے لوگوں کے ہاں انتہائی قابلاحترام تھے۔ جس کی وجہ سے سب مسلمان آپ سے بڑی محبت ودلی عقیدت کے ساتھ آپ کے خطبات جمعۃ المبارک و مجلس ذکر کے اجتماعات میں آتے۔
کسی کو کیامعلوم تھا کہ سرزمین بالاکوٹ کے ایک گاؤں میں 1933ء میں پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہو کر علم و عرفان کا پیکر بنے گا۔ آپ کے والد نے اپنے بیٹے محمد عالم کے خواہش پر ان کو ( قال اللہ و قال الرسول) کی تعلیم کیے لیے وقف کر دیا۔آپ کے والد صاحب نے اپنے لخت جگر محمد عالم کو دین اسلام کی سر بلند ی اور بقاء کے لئے قربان کر دیا۔
آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں کلسی سے کیا اور مزید تعلیم کے لئے بالا کوٹ شہر ابیٹ آباد کا رخ کیا۔ بعد ازاں روالپنڈی رتہّ کے مقام پر فاضل دارالعلوم دیوبند(انڈیا)مولانا عبداللطیف صاحبؒ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کی۔ تکمیل علم کے غرض سے ملک کی معروف و مشہور دینی درسگاہ جا معہ اشرفیہ لا ہور کا رخ کیا۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں سے مولانا مفتی حسن ؒ بانی جامعہ اشرفیہ لاہورؒ، مولانا رسول خان ؒ، مولانا ادریس کاندھلوی ؒ اورمولانا عبید اللہ صاحب تھے۔آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور سے 1957ء میں سند فراغت حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد روحانی تربیت کے لیے شیخ التفسیرمولانا احمد علی لاہوری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور حضرت لاہوریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔آپؒ سے حضرت لاہوری ؒ اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے حکم پر 1958 ء کو شیخوپورہ کے ایک گاؤں واقع ملیاں کلاں میں امامت و خطابت کے لئے تشریف لائے۔چہاراطراف ظلم و جہالت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ لوگوں کے اندر دین نام صرف باقی تھا۔
حضرت جیؒ نے گاؤں ملیاں کلاں کی ایک مسجد سے تعلیم و تربیت کا آغاز کیا۔ حضرت جیؒ کا کہنا تھا کہ لوگوں کو وہاں کلمہ طیبہ کے الفاظ تک نہیں آتے تھے۔میں اذان پڑھتا، اقامت کہتا اور خود ہی نماز پڑھاتا۔ میرا وہاں دل نہیں لگ رہا تھا۔ تو میں حضرت لاہوری ؒ ،کی خدمت میں شیراں والہ گیٹ جا پہنچا، گاؤں کے لوگوں کا حال احوال بتایااور مشورہ طلب کیا۔
حضرت لاہوری ؒ نے دلاسہ دیا اور مجھے یہ کہ کر روانہ کر دیا کہ محمد عالم اللہ تعالیٰ آپ سے نفع لیں گئےحضرت لاہوری ؒ کی بات سن کر میں نے سامان سفر باندھا۔ پھر اسی گاؤں میں آکر ڈیرہ لگا لیا۔
وہاں لوگوں کو روزانہ درس قرآن دیتے۔ بچوں کو قرآن کریم ناظرہ و حفظ پڑھاتے۔ تعلیم و تربیت کا کام خوب دل جمعی سے کیا۔ کہ سب لوگ نمازی بن گے۔ 1958ء میں آپ کی شادی ہوئی۔ 1964ء میں مدرسہ حنفیہ ضیاء السلام کی بنیاد رکھی۔ وہاں عرصہ 25 سال محنت فرمائی۔ مسافر طلباء کے قیام و طعام کا خود بندوبست کرتے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ طالبوں علموں کے لیے کھانا اپنے ہاتھوں سے تیار کرتیں اور اللہ تعالی کےمہمانوں کو کھلا کر خوشی و اطمینان قلب محسوس کرتیں۔
آخر کار دین اسلام کی تعلیم کو مزید آگے بڑھانے کی طلب بڑھی۔ توشیخوپورہ شہر میں 1974ء میں مولانا عبداللہ درخواستیؒ نے جامعہ فاروقیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ موجودہ جامعہ ایک چھوٹے سے کمرے سے ابتداء ہوئی۔ جہاں چند طلباء زیر تعلیم تھے۔بڑھتی ہوئی طلباء کی تعداد کے پیش نظر جامعہ کی توسیع کا سلسلہ جاری ہوا۔آپ شہرت اور سرکاری منصب کو پسند نہیں فرماتے تھے آپ نے مسجد و مدرسہ اور ممبر محراب کوہرچیزپر ترجیح دی۔
لاکھوں لوگ دینی خدامات کی وجہ سے آپ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ آپ میں خدمت خلق کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ غریب و مستحق افراد اور طلبہ کی ہر ممکن مدد کرتے مخلوق خُدا کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے۔ اور اُن کے لئے رو رو کر دُعائیں کرتے۔ آپ ؒ کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی تمام زندگی دعوت دین، درس و تدریس ، قیام امن کے فروغ میں گزری۔
22 جولائی 2014 کو اپنے 3 بیٹوں مولانا محمد طاہر عالم ،قاری محمد زاہد عالم ، مولانا محمد طیب عالم ایک بیٹی زوجہ مولانا عبدالمنان سمیت ہزاروں شاگردوں اور لاکھوں عقیدت مندوں کو روتا ہواچھوڑ کر81 سال دوماہ کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ نماز جنازہ مولانا طاہر عالم نے جامعہ فاروقیہ کی وسیع گراؤنڈ میں پڑھائی۔ ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں جامعہ کے احاطہ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔