محرم الحرام میں نکاح کی شرعی و عقلی حیثیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محرم الحرام میں نکاح کی شرعی و عقلی حیثیت
خواجہ حنظلہ محمود صدیقی
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اہل باطل کے اثرات بد کی وجہ سے مسلمانوں میں اس مہینے میں نکاح جیسے مسنون عمل کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس مہینے میں نکاح نہ کرنا اگر اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی نواسوں ، نواسیوں ، چار بیٹیوں حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن ، تین دامادوں حضرت ابو العاص ، حضرت عثمان غنی ،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ، تین بیٹوں حضرت قاسم ، حضرت عبداللہ ، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہم ، آپ کی تمام ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے مہینوں میں بھی نکاح نہیں کرنا چاہیے اگر ان کی وفات کے مہینوں میں نکاح کرنا معیوب نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر صرف ایک نواسے کی وجہ سے محرم الحرام میں کیسے معیوب ہو سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نواسے عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم ، تین بیٹیوں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم ، دو بیویوں حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تینوں بیٹوں کا انتقال آپ کی دنیاوی حیات مبارکہ میں ہی ہو گیا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سالوں میں ان کی وفات کے مہینوں میں سوگ منانا تو در کنار ان کی وفات کے موقع پر آنسو بہانے کے سوا غم کے اظہار کی کوئی اور صورت اختیار نہیں فرمائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محترم چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے شہادت کے اگلے سال اسی شہادت کے مہینے یعنی شوال المکرم میں ام المومنین ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہیں۔ قرآن کریم کے پارہ نمبر 2 رکوع نمبر 3 کی آیت نمبر 154اور چوتھے پارے کے آٹھویں رکوع کی آیت نمبر 169 تا 171کے مطابق شہید مردہ نہیں بلکہ زندہ ہوتا ہے اور اپنے رب کے عطا کردہ رزق و انعامات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ شہید کو 6 انعام عطا فرماتا ہے :
1: خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔
2: آخری سانس نکلنے سے پہلے اس اپنا ٹھکانہ جنت میں دکھا دیا جاتا ہے۔
3: اسے قبر کی وحشت اور قیامت کی دہشت سے محفوظ و مامون کر دیا جاتا ہے۔
4: اس کے سر پر قیامت کے روز ایسا با وقار تاج ہوگا جس کے ایک چھوٹےسے چھوٹے یاقوت بھی دنیا و ما فیہا سے زیادہ قیمتی ہوگا۔
5: بہتر 72 حوروں کو اس کی زوجیت میں دیا جائے گا۔
6: اس کی شفاعت 70 رشتہ داروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔
)ترمذی ابواب الجہاد باب ما جاء فی ای الناس افضل(
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید ہونے والا قتل ہونے کی صرف اتنی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔
)ایضاً(
کیا ان انعامات کا ذریعہ بننے والی مبارک اور مقدس موت پر ہر سال سوگ منانا اور اس کی وجہ سے نکاح نہ کرنا ایمان و عقل دونوں میں سے کسی لحاظ سے بھی جائز یا مناسب ہو سکتا ہے ؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف شہید بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور نواسے بھی ہیں ان کے درجات کا بلند ہونا یقینی ہے ان کی شہادت جدائی کے احساس کی وجہ سے عارضی صدمے کا سبب ضرور بنی مگر ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کے لیے یہ بات قطعاً مناسب نہیں کہ وہ ان کی شہادت کی یاد میں ہر سال سوگ منائیں یہ سوگ صرف اور صرف وہی لوگ ہی منا سکتے ہیں جن کو اہل بیت سے حسد کی وجہ سے یہ تکلیف ہے کہ حضرت حسین اور ان کے رفقائے کرام کو شہادت کا بلند رتبہ کیوں ملا؟جس کا اندازہ سینہ کوبی کرنے والے اور ماتمی قوم کےالفاظ سے لگایا جا سکتا ہے۔
اگر محرم الحرام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم کی وجہ سے نکاح کرنا جائز نہیں تو پھر صرف اس مہینے نہیں بلکہ پورے سال میں کسی دن بھی نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ پورے سال میں ایک دن بھی ایسا نہ ہوگا جس میں کسی نہ کسی نبی علیہ السلام ، کسی نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی نہ کسی ولی رحمہ اللہ کی وفات یا شہادت نہ ہوئی ہو۔
محرم الحرام میں صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نہیں بلکہ اس مہینے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بہنوئی ، حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے داماد ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہوئی ہے۔
پھر یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس میں نکاح کرنا کیوں معیوب نہیں قرار پایا بلکہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کیوں معیوب ہے ؟
پھر ذرا تاریخ پر نگاہ دوڑائیے !!

ماہ صفر……………میں حضرت عاصم بن ثابت اور ان کے سات ساتھیوں رضی اللہ عنہم کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔

ماہ ربیع الاول ……………میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی جدائی کا دلخراش سانحہ پیش آیا۔

ماہ ربیع الثانی ……………میں ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

ماہ جمادی الاول ……………میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدبن حارث رضی اللہ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

ماہ جمادی الثانی…………… میں اہل اسلام کے خلیفہ بلا فصل خلیفہ راشد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

ماہ رجب المرجب…………… میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن زینب بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور برادر نسبتی کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

ماہ شعبان المعظم ……………میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، دختر رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

ماہ رمضان المبارک…………… میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ازواج مطہرات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

ماہ شوال المکرم ……………میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ، آپ کے برادر نسبتی حضرت عبداللہ بن جحش ، آپ کے ہم زلف حضرت مصعب بن عمیر سمیت 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔

ماہ ذو القعدہ ……………میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

ماہ ذوالحجہ…………… میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں کی نسبت سے داماد اہل اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔
مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر باقی مہینوں میں صحابہ کرام ، اہل بیت عظام ، امہات المومنین ، خلفاء راشدین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں اور خاندان والوں میں سے کسی کا ایسا سوگ نہیں منایا جاتا کہ اس مہینے میں نکاح وغیرہ نہ کیا جائے تو پھر کیا وجہ ہے صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت والے مبارک مہینے میں ایک مسنون عمل کو معیوب سمجھا جائے۔ ؟؟
محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سادہ لوح مسلمان اہل باطل کے منفی پروپیگنڈے اور غلط نظریات سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ ہم نے اس مبارک مہینے میں مسنون عمل کو عملا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے حالات میں یہ بات اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے کہ ہم اس باطل رسم کی عملی تردید کریں اور اہل باطل کی خلاف شریعت روایت کو توڑتے ہوئے اس مبارک مہینے میں نکاح کے مسنون عمل کو زندہ کریں۔