صبر شریعت کی نظر میں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صبر شریعت کی نظر میں
محرم الحرام میں بعض لوگ شہدائے کربلا کی طرف بعض جھوٹے اور من گھڑت قصے سنا کر لوگوں کو رلانے میں مگن ہوتے ہیں اور خاندان نبوت بالخصوص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس انداز میں تذکرہ کرتے ہیں کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پھر رونا دھونا ، چیخ و پکار ، ہائے وائے ، واویلا ، سینہ کوبی ،مرثیہ خوانی ، زنجیر زنی اور ماتم جیسے غیر اسلامی کام کرتے ہیں جبکہ اس بارے میں شریعت صبر کرنے کا حکم دیتی ہے اس حوالے سے مولانا عبدالرحمٰن سندھی کا ماہنامہ بنات اہل السنت کے قارئین کرام کے نام خاص مضمون
صبرنفس انسانی کی سب سے بڑی خوبی ہے ، صبر اطاعت باری تعالیٰ کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صبر بندے کو اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچانے کا باعث ہوتا ہے، صبر کے ذریعے برے انجام اور قابل مذمت کاموں سے رکا جاسکتا ہے ، صبر نفس کی وہ طاقت ہے جس پر اس کے درست اور صحیح ہونے کا دارومدار ہے۔اس لیے میرے دل کے اندر ایک داعیہ پیدا ہوا کہ اس کے متعلق کچھ تحریر کروں، خصوصا ایسے وقت میں جب کہ مشکلات اور پریشانیوں کا ایک سیلاب ہو، فتنوں کی کثرت ہو، اور دین کی حفاظت آگ کی چنگاری کو ہاتھ میں لیے چلنے کے مترادف ہوگئی ہواور آج کھانے پینے کی ضرورت سے زیادہ صبر کی ضرورت ہے۔
اس صبر کے متعلق چند باتیں قرآن ،سنت اور اکابرین امت کے اقوال کی روشنی میں پیش خدمت ہیں۔
صبر کا شرعی مفہوم:
کسی خوشی ، مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا۔
حضرت ذوالنون کہتے ہیں: صبر کا مطلب خلاف شرع چیزوں سے دوری اختیار کرنا، مصیبت وآزمائش سے بھرے لقموں کو نگلنا اور روزی روٹی کے معاملے میں فقروفاقہ میں مبتلا ہونے کے باوجود بے نیازی کا اظہار کرنا ہے۔
صبر کی حقیقت:
حقیقی صبر وہ ہے جو کسی صدمے کی ابتداء میں ہی اختیار کیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےہمیں یہ عظیم حقیقت بھی بتائی کہ:
إِنَّمَا الصَّبر عِندَ الصّدمۃ الأولیٰ
(صحیح بخاری / کتاب الجنائز )
ترجمہ:بے شک صبر (تو وہ ہے جو) کسی صدمے کی ابتداء میں کیا جائے۔
صبر کا حکم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
1۔وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ
(سورۂ نحل:۱۲۷ )
ترجمہ:اور(اے پیغمبر!)تم صبر سے کام لو ،اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔
2۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ۔
(سورۂ طور: ۴۸)
ترجمہ:اور تم اپنے پروردگار کے حکم پر جمے رہو، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو ،اور جب تم اٹھتے ہو،اس وقت اپنے پروردگارکی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیا کرو۔
3۔فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ
(سورۂ احقاف: 35)
ترجمہ:غرض (اےپیغمبر!) تم اسی طرح صبر کیے جاوجیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا،اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔
4۔وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ
(سورۂ بقرہ: 45)
ترجمہ:اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔
صبر کی تلقین کا حکم:
1۔ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
(سورۃ العصر:3)
ترجمہ:ایک دوسرے کوحق بات کی نصیحت کریں ،اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔
صبر اللہ کی توفیق کے بغیر حاصل نہیں ہوتا:
ہر وقت اسی سے مدد طلب کی جائےاور اس بات کا یقین ہو کہ صبر کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوئی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ
(سورۂ نحل:۱۲۷ )
ترجمہ: اور(اے پیغمبر!)تم صبر سے کام لو ،اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔
صبر کی قسمیں:
1۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صبر کا مظاہرہ کرنا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ بننے والی چیزوں پر صبر کرے، (یعنی اپنے نفس کو ان میں ملوث ہونے سے بچائے رکھے) جیسے سستی وکاہلی اور راحت پسندی کے سبب نفس کے لئے نماز کی ادائیگی ناگوار محسوس ہونے لگتی ہے، اسی طرح بخل اور لالچ کے سبب زکوٰۃ کی ادائیگی گراں گذرتی ہے، اسی طرح روزہ رکھنا اس لئے شاق گذرتا ہے کہ نفس انسانی کھانے پینے کاسخت حریص ہوتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔یعنی اطاعت باری تعالیٰ میں حائل رکاوٹوں کو برداشت کرنے کا نام صبر ہے۔
2۔اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی سے بچنے میں صبر کا مظاہرہ کرنا۔
گناہوں کا ارتکاب کرنے سے صبرکرنا، انسان اپنے خیال میں ہر وقت گناہوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان اس کی عادت بن چکی ہوتی ہےاور عادت فطرت کا درجہ پیدا کرلیتی ہے۔ اس کے ساتھ جب خواہش کا اضافہ ہو جاتا ہے تو شیطان کے لشکر بیک وقت حملہ آور ہو جاتے ہیں اور گناہوں میں لذت پیدا ہو جائے تو اور بھی قیامت ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وحفت الناربالشھوات
ترجمہ: اور جہنم کو شہوتوں اورخواہشات سے گھیردیا گیا ہے۔
اس لئے نفس کی رغبت اور آمادگی شہوات کی جانب ہوتی ہے، اور وہ شہوات میں ملوث ہوتے ہیں ، اگر انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور شہوات سے بچنے پر صبر کا مظاہرہ کرے تو یہ اس کے لئے بہت بہتر ثابت ہوتا ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ کی تقدیرمقدرکردہ فیصلوں پر صبر کا مظاہرہ کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
(سورۂ بقرہ: ۱۵۵)
ترجمہ: اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور ،(کبھی)خوف سے،اور(کبھی)بھوک سے،اور(کبھی)مال وجاناور پھلوں میں کمی کرکے۔اور جو لوگ (ایسے حالات میں)صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنادو۔
صبر یہ ہے کہ غیر اللہ کے سامنے شکوے شکایت سے ہم اپنے زبان کو روکے رکھیں، دل کو ناراضگی وناشکری اور بے صبری سے باز رکھیں، اسی طرح اعضاء وجوارح کے ذریعے چہرے نوچنے، کپڑے پھاڑنے اور اس طرح کے دیگراعمال سے بچیں۔
مصیبت کے وقت صبر کرنا بندے کی جانب سے ثواب وبدلے کی امید کا اعتراف ہے ، حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے تو اسے چاہیے کہ وہ یہ دعا پڑھے:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللھم عندک احتسب مصیتی فاجرنی فیھا، ابدل لی بھا خیرا منھا
ترجمہ: کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں،اے اللہ میں اپنی مصیبت کے اجرکی امید آپ کے پاس کرتی ہوں، لہٰذا آپ مجھے اس کا اجر عطا فرمائیےاور اس سے بہتر بدلہ عطا فرمائیے۔
جب ابوسلمہ کی موت کاوقت قریب آیا تو انہوں نے یہ دعاپڑھی
: اللھم اخلفنی فی اھلی خیرا منی
ترجمہ: اے اللہ میرے خاندان میں مجھ سے بہتر کومیرا جانشین بنا۔
جب ان کا انتقال ہوگیا تو ام سلمہ نے یہ جملے کہے:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، عنداللہ احتسب مصیبتی۔
ترجمہ: ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، میں اپنی پریشانی کے اجر کو اللہ پاس پانے کی امید کرتی ہوں۔
صبراور اس کی دعا پڑھنے نیز اتباع رسول اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر رضامندی کا انجام ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ کا اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ نکاح ہوا ، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل اور اشرف ہیں۔
جب تک بندۂ مومن شریعت کا مکلف ہے ، وہ ان تینوں امور سے جدا نہیں رہ سکتا، بلکہ مذکورہ تینوں امور میں اسے صبر کرنا ہوگا ، یہی وہ تین باتیں ہیں جسے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا:
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَ‌ٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ۔
(سورۂ لقمان: ۱۷)
ترجمہ: بیٹا ! نماز کی پابندی رکھنا ( اور لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور تمہیں جو تکلیف پیش آئےاس پر صبر کرنا۔بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
صبر کی ترغیب:
1۔صبر کرنا انبیاء والا کام ہے:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ
(سورۂ احقاف: 35)
ترجمہ: غرض (اےپیغمبر!) تم اسی طرح صبر کیے جاوجیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا،اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔
وَإِسمَاعِیلَ وَإِدرِیسَ وَذَا الکِفلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِین
(سورۃ الانبیاء:85)
ترجمہ: اسماعیل اور اِدریس اور ذاالکِفل کو دیکھو!یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔
صبر کرنے والوں کی تعریف:
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
(سورۂ بقرہ: ۱۷۷)
ترجمہ: تنگی اور تکلیف میں ،نیز جنگ کے وقت ،صبر واستقلال کے خوگر ہوں۔ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق )ہیں،اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔
اللہ کی مدد صبر کرنے سے آتی ہے:
بَلَىٰ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ۔
(سورۂ آل عمران : ۱۲۵)
ترجمہ:ہاں !بلکہ اگرتم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اس ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کوبھیج دےگا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی۔
صبر کرنے پر کامیابی کا وعدہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(سورۂ آل عمران: 200)
ترجمہ: اے اہل ایمان والو! صبر اختیار کرو،مقابلے کے وقت ثابت قدمی دِکھاؤ،اور سرحدوں کی حفاظت کےلیےجمے رہو،اور اللہ سے ڈرتے رہو،تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔
صبر کا انعام:
1۔صبر کا اجروثواب بے شمار ہے:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
(سورۂ زمر:۱۰)
ترجمہ: جولوگ صبر سے کام لیتےہیں، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائےگا۔
2۔اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرمایاہے:
وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ۔
(آل عمران : ۱۴۶)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔
3۔صبر کرنے پر روزِقیامت فرشتوں کا ہر طرف سے سلام کرنا ،اور کامیابی کا پیغام دینا:
وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ۔ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
(سورۂ رعد:23۔24)
فرشتے (بہشت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔ (اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے۔
4۔صابرین کو اللہ تعالیٰ کی معیت ملتی ہے :
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
(سورۂ بقرہ: ۱۵۳)
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ابوعلی الدقانی کہتے ہیں:صبر کرنے والے دونوں گھروں (یعنی دنیا وآخرت ) کی عزت کے نتیجے میں کامیاب ہوگئے، اس لئے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی معیت کو پالیا۔
صبر حدیث کی روشنی میں:
1۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوصبر کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیں، اور کسی کو صبر سے زیادہ وسیع تر اور بہترین بھلائی عطا نہیں کی گئی۔
(بخاری ومسلم)
2۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنے بندے کو اس کو دو محبوب چیزوں کے ذریعے آزماتا ہوں، یعنی اس کی آنکھوں کے ذریعے۔ تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو میں ان دونوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں۔
(بخاری)
حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں:ہم نے صبر کے ذریعے بہترین زندگی پائی۔
نیز آپ کا ارشاد ہے:صبر کے ذریعے ہم نے افضل ترین زندگی دیکھی ہے، اگر صبرمردوں میں ہوتا ، تو وہ باعزت ہوتا۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں: سن لوکہ ایمان میں صبرکا مقام ویساہی ہے جیسا جسم میں سر کا مقام ہے، جب سر کانٹ دیاجاتا ہے تو پورا بدن ہلاکت کا شکار ہوجاتا ہے، پھر آپ نے بلند آواز سے کہا: سن لو! اس کا ایمان نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔
نیز آپ کا ارشاد ہے: صبر ایسی سواری ہےجوٹھوکر کھاکر نہیں گرتی۔
وہ امورجوصبر کے منافی نہیں:
1۔اللہ تعالیٰ کے حضور شکوہ کرنا :
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ.
(سورۂ یوسف: 86)
ترجمہ:میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔
2۔مخلوق کو اپنے حال سے واقف کرانا بھی صبر کے منافی امور میں سے نہیں ہے، جیسے مریض کا ڈاکٹر کو اپنی حالت بتانا،مظلوم کا مدد کرنے والے کو اپنی حالت بتانا،وغیرہ۔
3۔ بغیر آواز کے غم کے مارے رونا:
وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
(سورۂ یوسف: 84)
ترجمہ:اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق دے، اور صبرکرنے والوں میں ہمیں شامل فرمائے۔آمین۔