میڈیا کی دیوی کا نوبل انعام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میڈیا کی دیوی کا نوبل انعام
مولانا محمد اسحاق
جب سے ملالہ کو نوبل انعام کے لیے منتخب ہونے کی خبر آئی ہے اس وقت سے سیکولر میڈیا نے بے پناہ پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ کوشش شروع کردی ہے کہ نوبل انعام انتہائی معزز پرائز ہے اس کا حصول ایک ما فوق الفطرۃ معجزہ ہے جس سے پاکستان کو نوازا جانا؛ ملالہ، پاکستان اور اہلیانِ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اس پر ہم سب بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں بعض حکمرانوں کی طرف سے مبارک بادوں کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔
وہ لوگ جو نوبل انعام کی حقیقت سے واقف تھے انہوں نے اس کے ملنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا ان کے بارے بعض اینکرز اور میڈیائی شعبدہ بازوں نے جو اول فول کہا ہے اس کو ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ایک صاحب نوبل کو تحسین بھری نگاہوں سے نہ دیکھنے والوں کو برا بھلا کہنے میں تمام اخلاقی حدیں کراس کرگئے ،آپ ملاحظہ فرمائیں:
”ڈاکٹر عبدالسلام کو مَرے ہوئے آج 18 برس ہوچکے ہیں یہ آج بھی اس معاشرے سے اپنا جرم پوچھ رہے ہیں ،میں دس اکتوبر تک سمجھتا تھا ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی سزا ملی اور ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ہم قادیانیوں کو پسند نہیں کرتے چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام کا عقیدہ ان کا جرم بن گیا ہے اور یہ ان کی خوبیوں اور کمالات کو بھی نگل گیا ہے۔ لیکن جوں ہی ملالہ یوسف زئی کے لیے نوبل انعام کا اعلان ہوا اور ملک بھر میں ملالہ کے خلاف نفرت کا سیلاب بہنے لگا تو مجھے اس وقت معلوم ہوا ڈاکٹر عبدالسلام کا جرم قادیانی ہونا نہیں تھا ان کا اصلی جرم ٹیلنٹڈ ہونا، کامیاب ہونا اور دنیا سے اپنے آپ کو منوالینا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے ہم نے ان سے اس جرم میں پاکستان کا حق بھی چھین لیا لیکن ملالہ تو مسلمان ہے ہم اس کے خلاف کیوں ہیں؟ وجہ صاف ظاہر ہےہم حاسد قوم ہیں ہم سے دوسروں کی عزت ،شہرت اور کامیابی ہضم نہیں ہوتی ، ہماری نظر میں ہر کامیاب شخص بے ایمان ،کرپٹ اور یہودی ایجنٹ ہے۔ آپ پاکستانی شہریوں سے پاکستان کے کسی ریکارڈ ہولڈر کے بارے میں رائے لے لیں آپ اگر ان کے منہ سے اس کے بارے میں کوئی اچھا لفظ نکال لیں تو میں آپ کو سیلوٹ پیش کروں گا۔ “
)روزنامہ ایکسپریس 17اکتوبر 2014ء(
مذکورہ بالا اقتباس پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ موصوف اس ضمن میں قادیانیت کی وکالت کرنا چاہتے ہیں یا ایمان دار پاکستانیوں کی تذلیل۔
سیکولر لابی اتنا زیادہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ جس سے بہت سارے مسلمان جن کو معلوم نہیں کہ نوبل انعام ہے کیا چیز؟ اور جو نہیں جانتے کہ نوبل کن کن لوگوں کو اور کن کن مقاصد کے تحت دیا جاتا ہے؟ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اس کے پیش نظر ضروری معلوم ہوا کہ نوبل انعام کی حقیقت واضح کی جائے اورقارئین تک یہ بات بہم پہنچائی جائے کہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ کو کن کارہائے نمایاں سر انجام دینے کی وجہ سے یہ انعام دیا گیا ہے؟ اور دین دشمن طبقہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟؟
نوبل انعام کیا چیز ہے؟
الفریڈ نوبل [Alfred Nobel]نامی شخص کی یاد میں یہ انعام دیا جاتا ہے۔ الفریڈ نوبل 1833ء کو سویڈن میں پیدا ہوا اور 1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا۔ نوبل جنگی آلات بارود،تار پیڈ اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا موجد ہے، نوبل نے جنگی ہتھیاروں سے کمائی ہوئی رقم نوے لاکھ ڈالر9000000 کے بارے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ میری اصل رقم بینک میں محفوظ رہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود ی رقم سے پانچ شعبوں طبعیات، کیمیا، طب، ادب، اور امن کے میدانوں میں کوئی خاص کار نامہ سرانجام دینے والوں میں یہ رقم انعام کے طور پر برابر تقسیم کی جائے۔ ہر شعبہ میں اگر ایک ہی آدمی انعام کا مستحق قرار دیا جائے تو اس کے شعبہ کے حصہ کی پوری انعامی رقم اس کو دی جائے۔
اگر کسی شعبہ میں ایک سے زائد )جن کی تعداد تین سے زیادہ نہ ہو (افراد کے نام انعام کے لیے تجویز کیے جائیں تواس شعبہ کے حصہ کی سودی رقم ان افراد میں برابر تقسیم کی جائے اگر کوئی مجوزہ شخص انعامی رقم وصول کرنے سے انکار کردے تو اس کا حصہ اصل زر میں شامل کردیا جائے۔
نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ نوبل کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 ستمبر 1901ء کو منعقد ہوئی۔ تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے، نوبل فنڈ میں ہر سال شرح سود میں اضافہ کے ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے 1948ء میں ہر شعبہ کے حصہ میں سود کی یہ رقم سالانہ 32 ہزار ڈالر تھی جب کہ یہی رقم 1997ء میں بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔
مذکورہ اشارات سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1: یہ انعام اس شخص کی یاد میں دیا جاتا ہے جس نے دنیا کو مہلک ہتھیاروں کا سبق پڑھایا اور جو امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا کرتا دھرتا ہے۔
2: یہ انعام جس رقم سے دیا جاتا ہے وہ خالص سود کی رقم ہے جس کو قران کریم نے خدا اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے:
فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔
)سورۃ البقرة: 279(
جس کے لینے دینے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنتی قرار دیا ہے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربا و موکلہ وکاتبہ و شاہدیہ وقال ہم سواء۔
)صحیح مسلم ج2ص27(
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر اور اس کے دینے والے پر اور اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر کے شریک ہیں۔
3: یہ انعام انسانی تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے مختلف ممالک میں سرکاری اور نجی طور پر مختلف قسم کے انعامات ہر سال تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک انعام یہ نوبل انعام بھی ہے چنانچہ یہ نوبل انعام ہر سال کچھ لوگوں کو ملتا ہے جو تقریباً ایک صدی سے مروج ہے۔
نوبل کیوں دیا جاتا ہے؟
نوبل انعام کی تقسیم میں تقسیم کنندگان کی کچھ سیاسی، مذہبی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں اور جن افراد کو دیا جاتا ہے ان کے انتخابات میں بھی یہی مصلحتیں جھلکتی ہیں۔
چنانچہ یہ انعام اب تک سینکڑوں افراد کو مل چکا ہے ان کے ناموں پر سرسری نظر ڈالیے چند اکا دکا کے علاوہ سب کے سب یہودی ،عیسائی اور دہریے نظر آئیں گے۔ اگر ان میں کوئی نام مسلمان کا ہے بھی تو وہ صرف نام کا مسلمان ہوگا کیونکہ یہ نوبل انعام؛ انعام کم اور لعنت کا طوق زیادہ ہے اس لیے کہ یہ سراسر سود کی رقم ہے، اس کے باوجود سویڈن کے منصفوں کی نگاہ میں پوری دنیا میں ایک مسلمان بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو طب، ادب، طبعیات وغیرہ کے کسی شعبہ میں کوئی اہم کارنامہ انجام دے چکا ہو، ہر شخص منصفان سویڈن کی نگاہ انتخاب کی داد دے گا جب وہ دیکھے گا کہ

رابندر ناتھ ٹیگور ہندو کو بنگالی زبان کی شاعری پر نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا۔

جاپانی ادیب کو اپنی زبان میں ادبی کارنامہ پر نوبل انعام کے لیے چن لیا گیا۔

جنوبی امریکہ کی ریاستوں کے باشندوں کے اپنی زبانوں میں ادبی کارناموں کو مستند سمجھتے ہوئے لائق انعام سمجھا گیا۔
لیکن پاک و ہند کے کسی ادیب ،شاعر اور کسی صاحبِ فن کی طرف ان کی نظر انتخاب نہیں اٹھ سکی۔آخر کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ ”مسلمان“ تھے۔ مثال کے طور پر ہمارے علامہ محمد اقبال کو لیجیے پوری دنیا میں ان کے زبان و ادب کی خدمات کا غلغلہ بلند ہے انگلستان کے نامور پروفیسروں نے ان کے ادبی شہ پاروں کو انگریزی میں منتقل کیا ہے اور مغربی دانشور؛ علامہ کے افکار پر سر دھنتے ہیں لیکن وہ نوبل انعام کے مستحق نہیں کیونکہ جو سیاسی و مذہبی مصالح نوبل انعام کے حصول کے لیے معیار ہیں وہ علامہ میں مفقود ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام کیوں دیا گیا؟
اس کے بارے ہم اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے بجائے وطن عزیز کے نامور سائنسدان محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی منصفانہ رائے پیش کرتے ہیں جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو جو نوبل انعام ملا ہے اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب میں فرمایا کہ” وہ بھی نظریات کی بنیاد پر دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام 1957ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے، آخر کار آئن سٹائن )یہودی (کی صد سالہ یوم وفات پر ان کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا، دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصے سے کام کررہا ہے یہودی چاہتے ہیں کہ آئن سٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے۔ سو ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی انعام سے نوازا گیا۔“
) ہفت روزہ چٹان لاہور 6 فروری 1986ء (
محسن پاکستان نے اپنے حالیہ تازہ انٹرویو میں بتایا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں رکاوٹیں ڈالتے رہے، جس کا ہمیں احساس تھا اور ہم نے ایسے انتظامات کیے ہوئے تھے کہ ان کی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان سازشوں سے محفوظ رہے ڈاکٹر عبدالسلام کچھ بھی کرلیتے لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہیں روک سکتے تھے۔
)روزنامہ امت 15 اکتوبر 2014ء (
عبدالسلام کو پاکستان کے ساتھ کتنی محبت تھی؟اس کے بارے تاریخ کو کھنگالیے اور زمینی حقائق پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہو گا ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کےشدید مخالف اور ارض پاکستان کو حد درجہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے :
”مسٹر بھٹو کے دور میں ایک سائنسی کانفرنس ہورہی تھی ،کانفرنس میں شرکت کے لیے ڈاکٹر عبدالسلام کو دعوت نامہ بھیجا گیا یہ ان دنوں کی بات تھی جب قومی اسمبلی نے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ دعوت کے جواب میں عبدالسلام نے لکھا کہ میں اس لعنتی ملک پر قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا جب تک آئین میں کی گئی یہ ترمیم واپس نہ لی جائے۔“
)ہفت روزہ چٹان 22 جون 1986ء (
ملالہ کو نوبل انعام کیوں دیا گیا؟
یہ سوال محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ
”پاکستان پر کیچڑ اچھالنے اور بدنام کرنے والوں کو ہی ”عالمی اعزازات “سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ملالہ نے بھی دنیا بھر میں یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا غلبہ ہے ،یہاں بچیوں کو تعلیم کے مواقع دستیاب نہیں اس لیے اس کو نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا ہے۔“
)روزنامہ امت 15 اکتوبر 2014ء (
وطن عزیز پاکستان کے عسکری اور دفاعی تجزیہ کار اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیں :
”عسکری تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ امر یکہ اپنے غیر انسانی جرائم پر پر دہ ڈالنے او ر طالبان کیخلاف پر وپیگنڈے کیلئے ملالہ کو استعمال کر رہا ہے‘ ملالہ امر یکیوں کی ریمنڈ ڈیوس سے بھی زیادہ معتبر اور کا میاب ایجنٹ ہے ‘قوم کو بتاتاجائے ملالہ کہاں امن کیلئے کو شش کیں اور اس کی وجہ سے کہاں امن قائم ہواہے ؟ مغر بی ممالک ملالہ کو نوبل انعام دے کر پاکستان کے نظام تعلیم کو بے روح کر نا چاہتے ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں جنرل (ر)شایدعزیز نے کہا کہ ملالہ نے اپنی کتاب میں ہر جگہ امر یکی کارروائیوں کی حمایت کی ہے اس نے کہیں بھی بگرام ایئر بیس ‘ابو غر یب جیل اور گوانتا ناموبے کے امر یکی عقویت خانے کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ جہاد ‘اسلام اور حجاب کیخلاف باتیں کیں اور امن کو نوبل انعام بھی انہی کاموں کا انعام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امر یکہ اپنے غیر انسانی جرائم پر پر دہ ڈالنے او ر طالبان کیخلاف پر وپیگنڈے کیلئے ملالہ کو استعمال کر رہا ہے ‘ ملالہ امر یکیوں کی ریمنڈ ڈیوس سے بھی زیادہ معتبر اور کا میاب ایجنٹ ہے ‘قوم کو بتاتاجائے ملالہ کہاں امن کیلئے کو شش کیں اور اس کی وجہ سے کہاں امن قائم ہواہے۔ ؟
جنرل (ر)حمید گل نے کہا کہ ملالہ کو نوبل انعام سے نوازنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ مغر بی ممالک پاکستان کے نظام تعلیم کو بے روح کر نا چاہتے ہیں۔ “
)روزنامہ پاکستان 13 اکتوبر 2014 ء(
مذکورہ بالا تفصیلات اور تاریخی حقائق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو محض عقیدے کےاختلاف کی بنیاد پر مطعون نہیں کیا جاتا بلکہ پاکستان دشمنی کی بنیاد پر بھی یہ شخص از حد قابل نفرت ہےاور یہی حال میڈیا کی دیوی ملالہ یوسف زئی کا بھی ہے جس کو چند اینکرز بڑھا چڑھا کر” دختر ِ پاکستان“ بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ نوبل پرائز سے پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ میڈیا کے اجارہ دار اپنے کام سے کام رکھیں، پاکستان کے لیے کیا مفید اور کیا نقصان دہ ہے ؟ وطن عزیز کے باسیان اس کو خوب جانتے ہیں۔ نوبل پرائز کا ہوّا کھڑا کر کے اہل اسلام اور اہلیان پاکستان کو یہودیت کی نوازشات سے مرعوب نہ کیا جائے۔