قومی مزاج اور حکمران

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قومی مزاج اور حکمران
بنت مولانا عبدالمجید﷫
بلاشبہ کسی بھی مملکت کے عروج کے لئے دو باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، ایک اس کی حکمران اور دوسرا اس کی قوم کا مزاج اور تربیت، لیکن بد قسمتی سے ہم ان دونوں ہی سے محروم ہو چکے ہیں ذرا ایک لمحے کے لئے اپنے اردگرد کا جائزہ لیجئے۔!!! کوئی دکان بناتا ہے تو اسے اپنی دکان کی جائز حدود پر قناعت نہیں ہوتی، اسی لئے وہ سائن بورڈ اور اشیاءخرید و فروخت اٹھا کر فٹ پاتھ یا سڑک پر دھر دیتا ہے، اسے احساس نہیں ہوتا کہ جس جگہ پر وہ قابض ہوا ہے وہ قوم کی مشترکہ گذرگاہ ہے۔
قومی پارکوں میں ایک مہذب معاشرے کا سلوک تو نظر ہی نہیں آتا،ہم اس کے گملے توڑ دیتے ہیں،اس کی گھاس توڑ دےتے ہیں،اس کے بینچ اکھاڑ دےتے ہیں،اس کے کچرا دان ٹوٹے ہوتے ہیں، اگر اکادکا صحیح سالم ہوتو کچرا باہر اور کچرا دان خالی ہوتا ہے، ایک جوس پینے والا اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس کا خالی ڈبہ کچرادان میں جاکر ڈال دے،، پارک دیواروں اور شفاف فرش پر کہیں پان کے دھبوں کی سرخی ، کہیں نسوار کاسبزہ،کہیں سگریٹ کے خاکستر ہمارے بگڑے ہوئے قومی مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔
کہیں کوئی دیوار صاف و شفاف نظر آجائے تو مختلف اشتہارات کے لئے نظرِ انتخاب اس پر ٹھہر جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد وہاں اشتہارات کے اتوار بازار کا سماں ہوتا ہے اس سے بے نیاز کے مشترکہ قومی ملکیت میں تصرف کرنا جائز نہیں۔
بجلی ، گیس اور پانی میں ہمارا ملک ازحد قلت کاشکار ہے،کئی آسودہ حال علاقے بھی ان سے محروم ہیں،دوسر طرف سرکاری دفتروں میں اس کی بے تحاشا فراوانی ہے، بسا اوقات بلاوجہ خالی کمروں میں بلب اور پنکھے چلتے رہتے ہیں اور یہ سب اس حضور کے نام لیوا کر رہے ہیں جن کا ارشاد ہے کہ پانی کو فضول استعمال کرنے سے بچو خواہ تم کسی بہتے ہوئے دریا کے پاس کھڑے ہو۔
سرکا ری اسکول اور ہسبتال قوم کا مشترکہ سرمایہ ہوتے ہیں ان میں بھی ایسا ہی بدحال مزاج نمایاں ہے ،ان کی ہر چیز سے ویرانی ٹپکتی ہے، سرکاری ہسپتال ناقص انتظام اور غفلت کی وجہ سے موت کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں ،ڈاکٹر اپنے مریض کو گاہگ سمجھتا ہے۔
حالانکہ وہ کون سا شعبہ ہے زندگی کا جس میں ہمارے دین نے ہمیں زریں تعلیمات و ھدایات نہ دی ہوں؟
حدیث پاک میں کامل مسلمان اسی کو قرار دیا گیا ہے جس کی زبان کے خنجر اور ہاتھ کی حرکت کسی کو اذیت دینے کا سبب نہ بنے۔
لیکن اس کے باوجود ہم ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی حیثیت سے ناھموار رویوں کا شکار ہوگئے ہیں، کافی سوچ بچار کے بعد ہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہماری راہ میں صرف وسائل کی کمی اور وسائل کا صحیح استعمال رکاوٹ نہیں بلکہ من حیث القوم درست تربیت کا فقدان بھی ہے، کیونکہ ارشاد پاک ہے کہ الناس علی دین ملوکھم صاحب اقتدار کا انداز لوگوں کی تہذیب بدل دیتا ہے، اس کی زندگی کے ڈھب اور ڈھنگ سے قوموں کی روایات ،ان کے رہن سہن کے طریقوں ، ان کے لباس تک میں انقلاب آجاتا ہے۔
اور یہی حقیقت ہے کہ ایک مسلمان کے لئے اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں،خاروں کی راہگذر ہے،جہاں جا کر بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں،تاریخ میں جھانک کر دیکھئے،!! کہ فاروق اعظم ؓ کا دورِ خلافت ، اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہےاس کے باوجود انہیں اپنے منصب کی نازک ذمہ داریو ں کا اس قدر احساس تھا کہ اس جلیل القدر خلیفہ رسول نے آخر میں آکر دعا فرمائی
”اللھم کبرت سنی، وضعفت قوتی، وانتشرت رعیتی، فاقبضنی الیک غیر مضیع ولا مفطر“
جب خلیفہ رسول کا یہ حال ہے تو پھر عصرِ حاضر میں اقتدار کے ٹھیکیداروں کو کیسا ہونا چاہئے یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے !! کہ اگر کوئی قومی وسائل پر قبضے کی نیت سے سیاست کی دوڑ میں شامل ہونا چاہئے،اس کے دامنِ دل میں شہرت کی آرزوئیں مچلیں، اس کے آنگنِ خیال میں قومی دولت سمیٹنے کے خواب انگڑائیاں لیں تو وہ اپنے آپ کو انگاروں میں جھانک رہا ہے اور سرکش طوفانوں کی نذر کر رہا ہے،اسے یہ حقیقت کون سمجھائے کی بندہ مومن کا زوال زر سے ہے بے زری سے نہیں!!
ہمارے اسلامی سیاست کے علمبرداروں میں کرسیءاقتدار کی وہی روایتی خو بو ہے، اپنی ذمہ داری کا احساس کسی میں بھی نہیں رھا ، لوٹ ،کرپشن،خیانت، غفلت اور کہے کچھ کرے کچھ کے جھاڑ جھنکار سے جن صحن آزردہ رنگ ہوں ، غریب قوم کا خون نچوڑ کر حکمرانوں کے لئے مہیا کئے گئے مراعات کا بے مصرف انبار ان کے پاس لگا ہو تو پھر اے وطن عزیز کے باسیو!! میرا ،آپ کا، اسلامی مملکت اوراس کے مستقبل کا خدا ہی حافظ ہو۔
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا

کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ

تریاقی!