ماں کا بہادر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماں کا بہادر
حافظ سمیع اللہ طاہر
واہ جی واہ کیا خوبصورت مکان ہے!! ارد گرد کیا دل کش سر سبز و شاداب پہاڑ ہیں،پھر کیا ان پہاڑوں میں یہ ایک خوبصورت اور دل ربا مکان ہے جو مکمل لکڑی سے بنا ہوا ہے اور کیسی کیسی مینا کاری کی گئی ہے۔ یہ کون خوش قسمت انسان ہے جس کا اس قدر حسین و جمیل مکان تھا۔
جی ہاں اس مکان کا مالک ایک انتہائی شریف اور شیر دل انسان ہوسکتا ہے جو اس ظلم و ستم کی گھڑی میں یوں زندگی کے ایام مسرت گزار رہا تھا، اس مکان کا مالک احمد دین ہے جو بھارتی فوجی درندوں کے ظلم و ستم برداشت نہ کرتے ہوئے شہداء کی بستی میں جا بسا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ قریب والے کیمپ میں سے بھارتی آرمی کے چند درندہ صفت جوان اسلحہ سے لیس ہو کر آئے اور اس خوبصورت گھر کے مالک احمد دین کو موقع پاکر گھر سے لے اڑے نجانے احمد دین نے ان ظالموں کے کس قدر ظلم برداشت کیے ہوں گے۔
تقریباً 7 ماہ گزر چکے تھے کہ احمدد ین کی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے ہیں؟ گھر والے تو رو رو کر آدھے پاگل ہوچکے تھے۔ تلاش کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی لیکن کوئی پتہ نہ چل سکا آخر کہاں چلے گئے، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔؟
اپنے گھر والوں کا وہ اکیلا ہی کفیل تھا اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد قاسم تھا والد کی گرفتاری کے وقت اس کی عمر کم تھی وہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ محمد قاسم کو باپ کی جدائی نے دیوانہ بنادیا اپنے باپ کی جدائی اسے تعلیم سے بھی محروم کر بیٹھی 7 ماہ بعد پتا چلا کہ ہمارا پیارا باپ احمد دین لقمہ اجل بن گیا۔
قریب والے گاؤں میں بھارتی فوجی اور مجاہدین میں مڈ بھیڑ ہوگی اللہ تعالی کے سپاہی خدا کے فضل سے اپنے ٹھکانوں میں جا پہنچے اور بزدل بھارتی درندہ صفت فو ج کے گیارہ لاشے جہنم واصل ہوئے اس کارروائی میں بھارتی فوج نے چاچا احمد دین کو گولیوں کی بارش کر کے شہید کردیا اور علاقے میں یہ تاثر دیا کہ یہ مجاہدین کے ساتھ تھا دوران کارروائی مارا گیا۔
مگر یہ بھارتی فوج کی بزدلانہ کارروائی تھی کہ انہوں نے اس نہتے احمد دین کو بڑی بے رحمی اور بے دردی سے شہید کیا، احمد دین کو مارنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ایک دن اس نے بھارتی فوج کے منیجر کے آگے زبان چلائی منیجر نے اس چاچا کو کہا کہ آپ مجاہدین کو پناہ دیتے ہو۔
تو احمد دین نے کہا کہ ”اگر میں پناہ دیتا ہوں تو آپ کیمپ میں کیا کرتے ہو؟ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ مجاہدین میرے گھر میں موجود ہیں تو آپ ان کو پکڑ کیوں نہیں لیتے آپ میں اتنی جرات نہیں کہ ان کو پکڑ سکو اور آنکھیں ہمیں نکالتے ہو۔“
احمد دین کی یہ بات سن کر بھارتی منیجر لال پیلا ہوگیا اس کا بدلہ احمد دین کی شہادت تھی۔
محمد قاسم اور ان کے گھر والے انتہائی پریشان اور غم میں ڈوبے ہوئے تھے گھر کا گزر بسر بہت مشکل ہوچکا تھا اللہ تعالی کا ان پر بہت کرم ہوا کہ مجاہدین کا ایک قافلہ ان کے گاؤں سے گزر رہا تھا کھانے کی غرض سے ان کے خوبصورت گھر کے قریب آکر ٹھہر گیا۔
دروازے پر دستک دی اندر سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا مجاہدین مکان کو خالی پاکر چل دیئے۔ ہوسکتا ہے دشمن نے ٹھکانا نہ بنایا ہو۔
گاؤں والوں سے خوراک حاصل کی اور اس کے گھر کے بارے معلوم کیا۔
عرصہ گزر چکا تھا کہ محمد قاسم جہاد کے لیے بے قرار تھا۔ آخر ایک دن اسی قافلے کے مجاہدین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ،مجاہدین سے مل کر محمد قاسم اور ان کے گھر والوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی ایک عجیب سی خوشی ان سب کے چہروں سے جھلک رہی تھی محمد قاسم کی والدہ نے مجاہدین کا ماتھا چوما اور کہا :
میرے بیٹو! آج کے بعد میرا قاسم بھی آپ کا ساتھی ہے میرے قاسم کو اپنے ساتھ لے جاؤ میرے سینے میں ٹھنڈ اس وقت پڑے گی جب خبر ملے گی میرے قاسم نے بھارتی فوج کے پر خچے اڑا دیے ہیں۔
میرے مجاہد بیٹو! مجھے میرے گھر کی فکر نہیں، مجھے میری اولاد کی کوئی فکر نہیں، مجھے فکر ہے تو صرف اور صرف اس کیمپ میں رہنے والے بھارتی فوجی درندوں کی ہے۔ جنہوں نے میرا شوہر مجھ سے چھین لیا جنہوں نے میرا گلشن برباد کردیا میرے بچے یتیم کردیے۔
اس ماں کے جذبات آج بھی میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو مجھے رونا آجاتا ہے اور میں بیٹھ کر سوچتا ہوں کہ کاش آج جس طرح میں آزادی سے رہ رہا ہوں میری وہ ماں بھی اسی طرح آزاد ہوتی بغیر پریشانی کے کھانا کھاتی۔
میری وہ ماں بغیر گولیوں کی آواز سے رات کو سوتی مجھےبہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ کہیں قیامت کے دن وہ میرا گریبان نہ پکڑ لے کہ ہم کمزور تھے آپ ہماری مدد کو کیوں نہیں آئے۔
بہر حال انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں وہ دن آن پہنچا جس کا انتظار تھا محمد قاسم نے ساری صورت حال کا بخوبی جائزہ لیا اس کیمپ کی فوج کی نقل و حرکت کو جانچا اور اس کو اپنے والد، اسلام اور پاکستان کے دشمنوں بھارتی فوجی درندوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا موقع مل گیا۔
جونہی وہ اپنے کیمپ سے باہر نکلتے گئے تو ایک زور دار جھٹکے نے اس بھارتی فوج کے منیجر کو واصل جہنم کردیا قریب کے سبھی گاؤں والے لوگوں نے اس منیجر کا حشر دیکھا تو خوشی کا اظہار کیا۔
محمد قاسم کی والدہ کو منیجر کے واصل جہنم کی خبر ملی تو خوشی کا اظہار کیا اور خداوند کریم کا شکر ادا کیا گاؤں کے لوگوں نے مجاہدین کو مبارک باد دی اور محمد قاسم کے جرات مندانہ کردار کو خراج تحسین پیش کیا۔
اس کے مرنے کے بعد آنے والا منیجر رحم دل تھا اس نے پہلا کام یہ کیا کہ مجاہدین کے نام ایک خط ارسال کیا میری آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہم دونوں پارٹیاں اس علاقہ میں امن سے زندگی بسر کریں گے۔
یہ بات حقیقت پر مبنی تھی کہ جب ہم کسی کام کے لیے باہر جاتے تو ہمارے اوپر کوئی فائر نہیں ہوا کرتا تھا یہ اللہ تعالی کا فضل تھا کہ دشمن کے دلوں میں مجاہدین کا رعب تھا جہاد میں اللہ تعالی نے برکت ہی اتنی رکھی ہے کہ قریب اور دور تک دشمن لزر جاتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور مظلوم کی مدد فرمائے اور ہم سے دین کا زیادہ سے زیادہ کام لے۔
اللہ تعالی ہم پر خوش ہو جائے اور جنت میں اعلی مقام دے۔ آمین یا رب الشہداء والمجاہدین۔ ثم آمین