انوکھا فقیر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انوکھا فقیر
مولانا امان اللہ حنفی
میں جیسے ہی گاڑی پر سوار ہوا مجھے وہی لڑکا نظر آیا اور وہی الفاظ اس کے منہ پر جاری تھے:” مسلمان بھائیو! میری ماں بیمار ہے، ہسپتال میں داخل ہے ،جسے یقین نہ آئے میرے ساتھ آکر دیکھ لے۔ “یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے اور ایسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہے اور اگر اس کی ضرورت پوری نہ کی گئی تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا، وہ باتیں کرتے ہوئے مسلسل رونا شروع ہوگیا اور اس کا رونا کسی ضدی بچے کی طرح تھا، کہ جس طرح کہہ رہا ہو کہ میں کچھ لیے بغیر گاڑی سے نہیں اتروں گا۔
کوئی بھی شخص اس کی بات پر توجہ نہیں دے رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لڑکا گاڑیوں میں یہی اعلان کرتا تھا، لوگ اس سے تنگ آگئے تھے اور اس کو جھوٹ سمجھتے تھے کہ آخر کیا ہوا اس کی ماں کو جو اتنے عرصے سے صحت یاب نہیں ہورہی۔
میں خود بھی یہی سوچ رہا کہ دو اڑھائی سال ہوئے میں کچھ کچھ وقفے سے اس طرف کا سفر کیا اور ہر سفر میں مجھے یہ لڑکا ضرور نظر آتا ہے آخر اس کی ماں کو بیماری کون سی ہے کہ ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی، اگر یہ پیشہ ور بھکاری ہے تو پھر اپنا مانگنے کا بہانا بدل کیوں نہیں لیتا۔ ہر روز ایک ہی جگہ پر ایک ہی بات کہ میری ماں بیمار ہے مجھے پیسے دو اگر کسی کو میری بات پر یقین نہ آئے تو وہ میرے ساتھ ہسپتال چلا آئے اور کوئی اس کے ساتھ ہسپتال جانے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔
اب میں بھی اس کو جھوٹا سمجھ کر اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا اور اس کو غور سے دیکھ اور سن رہا تھا اس کو جھوٹا گمان کرنے کے باوجود میں نے فیصلہ کیا کہ اس آدمی کے تاثرات اور جذبات بتارہے ہیں کہ یہ آدمی جھوٹا نہیں ہوسکتا اس لڑکے کو کوئی دکھ لگا ہوا ہے جس میں ڈوب کر یہ بات کررہا ہے اور لوگ اس دکھ کو سمجھ نہیں رہے۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا کر کہا چلو مجھے اپنے ساتھ ہسپتال لے چلو۔ میں آپ کی ماں کی عیادت کرنا چاہتا ہوں اس لڑکے نے ایک بار سب لوگوں کی طرف دیکھا کہ شاید کوئی اور بھی ہو جو اس کے ساتھ چلے اس کی مدد کرے لیکن کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا لڑکا مایوسی کے انداز میں گاڑی سے نیچے اترا اور میں بھی اس کے ساتھ ہی اتر آیا ، میں نے اترتے ہی کہا آپ کی والدہ کون سے ہسپتال میں ہے ؟لڑکے نے اس بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا آپ واقعی میرے ساتھ چلیں گے؟ کیونکہ اس کو یقین نہ آرہا تھا کہ کوئی میرے ساتھ جاسکتا ہے میں نے کہا جی میں اسی لیے گاڑی سے اترا ہوں میرا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہ تھا۔
میں نے پھر دوبارہ کہا آپ کی والدہ کون سے ہسپتال میں ہے ؟کہنے لگا بس آپ میرے ساتھ آئیں اس بات کا جواب تو ہسپتال میں جاکر ہی دوں گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک طرف کو چل پڑا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ آگے جاکر لڑکے نے پیچھے سے آتے رکشے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور اس میں سوار ہوگیا میں بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا اور ساتھ ساتھ سوچنے لگا شاید یہ کوئی سازش نہ ہو جس میں؛ مَیں پھنس جاؤں، کیونکہ اس نے رکشے والے کو بھی جگہ کا نام نہ بتایا تھا ڈرائیور کے پوچھنے پر کہا کدھر چلے او۔ اب میرے دل میں طرح طرح کے خیالات جنم لینے لگے کہ کہاں میں اس لڑکے کا جھوٹ پکڑنے چلا تھا اب تو مجھے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے بیوی اور بچوں کا بھی خیال آرہا تھا کچھ پتہ نہیں تھا رکشہ کہا جاکر رکے گا اور اس سفر کا اختتام کس سٹاپ پر جاکر ہوگا۔
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کافی بڑی عمارت کے قریب جاکر لڑکے نے کہا یہاں پر اتار دو اور یہ واقعی بڑا ہسپتال تھا لڑکے نے اترتے ہی میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے درد بھری آہ کرتے ہوئے کہا:
”یہ ہے ہسپتال جہاں میری والدہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوئی تھی۔“
میں نے جیسے ہی یہ سنا میں حیرت کے ساتھ لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا محترم پھر آپ والدہ کے نام پر مانگتے کیوں ہو کہ وہ بیمار ہیں وہ تو فوت ہوگئی یہ کہنے ہی لگا تھا کہ لڑکے نے کہا:
جناب ایک وقت تھا جب میں چھوٹا سا تھا میری کھیلنے اور پڑھنے کی عمر تھی اور میں یہ دونوں ہی کام کررہا تھا میرے والد صاحب فوت ہوچکے تھے میری والدہ پڑوسیوں کے گھر کام کاج کر کے مجھے پڑھانا چاہتی تھی اور مجھے بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ والدہ محترمہ بیمار ہوگئی ہسپتال میں داخل کیا جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی ہفتہ بعد ختم ہوگئی اب میرے پاس سوائے مانگنے کے کوئی اور حل مجھے نظر نہ آیا میں سب سے پہلے ان کے گھر گیا جہاں والدہ محترمہ کام کاج کرتی تھی انہوں نے میری اتنی کی کہ ہسپتال کے کمرے کا کرایہ میں ان سے دے سکتا تھا۔ میں نےدوائی اور علاج کو چھوڑ کر صرف کمرے کو کرائے پر لیے رکھا جس میں میری والدہ تھی پھر چند ہی دنوں بعد میری والدہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی اور اس وقت مجھے اپنی ماں کی قدر کا پتہ چلا کیونکہ میرا اس کے علاوہ دنیا میں کوئی نہ تھا اب میں جاؤں تو کہاں جاؤں اور دکھ سناؤں تو کس کوسناؤں۔
پھر میں نے اسی ہسپتال کے ڈاکٹر سے بات کی کہ مجھے کوئی کام چاہیے تو انہوں نے مجھے رات کی سیکورٹی کے لیے اسی ہسپتال میں رکھ لیا میں نے یہاں رہتے ہوئے دیکھا کہ غریب آدمی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اپنا علاج کرواسکے میں دیکھتا تھا کہ غریب مریض ایک یا دو دن ہسپتال میں رہتا تھا ایک دو دن کے بعد وہ اپنے مریض کو ہسپتال سے لے جاتے تھے چاہے مریض ٹھیک ہو یا نہ ہو کیونکہ ان کے پاس علاج کے لیے جو رقم درکار ہوتی تھی وہ نہ ہوتی۔
اور جب کوئی بوڑھی عورت کو اس طرح واپس لے جایا جاتا مجھے لگتا میری ماں علاج کے بغیر گھر جارہی ہے کہ غربت کی وجہ سے علاج نہیں کرواسکتی اور یہ منظر دیکھنا میرے لیے ایسے تھا جیسے میرے دل پر آسمانی بجلی گر رہی ہو۔
یہ مجھ سے برداشت نہ ہورہا تھا پھر کچھ عرصہ بعد میں نے اسی ہسپتال میں ایک پورشن کرایہ پر لیا اور پھر جس بھی غریب عورت کو دیکھتا کہ وہ علاج کے بغیر جارہی ہے میں اس کو اس جگہ رکھتا اور علاج کرواتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی ماں کا علاج کروارہا ہوں کیونکہ وہ بھی کسی نہ کسی غریب کی ماں ہی ہوتی ہیں۔
یہ کہتے ہوئے وہ مجھے ا س جگہ لے گیا جہاں بہت سی غریب عورتیں زیر علاج تھیں اس پورشن میں داخل ہوتے ہی لڑکے نے کہا محترم دیکھو یہ ہیں میری مائیں۔ عورتوں کے اس لڑکے کو دیکھتے ہی خوشی سے جیسے چہرہ چمک سے گئے مجھے ایسے لگا جیسے ان عورتوں کا کوئی بچھڑا ہو بچہ مل گیا ہو۔
لڑکے نے کہا: بس جناب! ان کے علاج کے لیے میں رات کو سیکورٹی کرنے کے باوجود دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتا ہوں۔
یہ سنتے ہی میری آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے لڑکے کے ہاتھ پر بوسہ دیا اس کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے اسے سینے سے لگالیا۔