زمانہ جدید کی جاہلیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
زمانہ جدید کی جاہلیت
……اخت ادریس
جامعہ عثمانیہ تعلیم القرآن سرگودھا
مجموعی طور پر معاشرہ کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے اور زمانہ میں جاہلیت کی یادیں پھر سے تازہ ہونے لگی ہیں۔ کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا کبھی پانی پلانے پر جھگڑا والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ صبر، حوصلہ، درگزر، معافی اور برداشت بے معنی ٰسے الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں لڑائیاں بھڑ کارہی ہیں، معمولی تو تکرار کا نتیجہ قتل و غارت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر قیمتی انسان جانیں ضائع کرنا باعث فخر بن چکا ہے ،طیش میں آکر مارا ہوا ایک تھپڑ دو خاندانوں کی تباہی کا پیغام لارہا ہے۔ لباس شکل و صورت یا خاندان کے متعلق چھوٹا سا طعنہ دینے سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ گلی گلی ،نگر نگر، کوچہ کوچہ، بام بام ایک دوسرے سے بڑھ کر بدلہ لینے کی فضا بنتی چلی جارہی ہے۔
احترام انسانیت میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے انسان؛ انسان کو کچا چبانے پر تلا ہوا ہے۔ کرائے کے قاتلوں میں اضافہ ہورہا ہے اور انسان کا قیمتی خون بہانے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کیا جارہا۔
بے دریغ انسانی قتل کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں قوت برداشت نہیں رہی، زمانہ جاہلیت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ایک قبیلہ کی کسی عورت سے انجانے میں دوسرے قبیلہ کے کسی آدمی کی پالتو چڑیا کے انڈے ٹوٹ گئے تو ان دونوں قبیلہ میں چالیس سال تک خانہ جنگی رہی۔
حجر اسود لگانے کا واقعہ یاد کیجیے سب قبائل نے اعلان جنگ کردیا تھا ہاتھ خون میں ڈبولیے تھے اور تلواریں نیاموں سے باہر نکال لیں تھیں۔
کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا ایک قبیلہ کے شاعر نے دوسرے قبیلہ کے بارے میں مذمت بھرا ایک شعر کہہ دیا تو ان دو قبیلوں سالہا سال خون ریز جنگ رہی نہ یہ قبیلہ ہار مان رہا ہے نہ وہ قبیلہ ہار مان رہا ہے بلکہ ہر ایک خون بہانے میں دوسرے سے سبقت لینا چاہتا تھا۔ تعصب کی آگ ایک دفعہ بھڑک اٹھتی تو بجھنے کا نام نہ لیتی بھری دنیا سے کسی ایک کو نے سے بھی امن و سکون کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی۔
زمانہ جدید کی جاہلیت دیکھیے کہ زمین کے ایک چپے کے لیے بیٹا باپ کو قتل کررہا ہے ،بھائی سگے بھائی کو گولیوں سے بھون رہا ہے، نشے کے لیے پیسے نہ ملنے پر خاوند بیوی کو موت کی گھاٹ اتارہا ہے، معمولی سے جھڑکنے پر فرزند دلبند ماں کو قبر کا راستہ دکھارہا ہے، والدین کا اولاد کو معمولی ڈانٹ پر اولاد زہر کی گولیاں کھارہی ہے اور معمولی سی گھریلو بات پر خود سوزیاں ہورہی ہے اور ہر طرف سے خود کشیوں کا طوفان اٹھ چکا ہے۔
عدالتی کارروائیاں پڑھ کر دیکھیے :کسی مقدمہ میں بھائی مدعی ہے اور بھائی ہی ملزم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بھائی عدالت سے درخواست گزار ہے کہ میرے بھائی کو سزا موت دی جائے۔ کسی مقدمہ میں بیٹا درخواست گزار ہے میرے باپ کو سزائے موت دی جائے۔ حمیت ختم ہوگئی ہے، رشتہ داری بے قدر ہوچکی ہے، خون سفید ہوچکا ہے ،اس گھناؤنی کیفیت میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہی ہورہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیفیت ختم ہوجائے گی؟ کیا انسانی کشتی اس بھنور سے نکل سکتی ہے؟ اور انسانی خون کے پیاسوں کا کوئی علاج ہوسکتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے یہ کیفیت بھی ختم ہوسکتی ہے انسانی کشتی اس بھنور سے نکل بھی سکتی ہے اور انسانی خون کے پیاسوں کا علاج بھی ہوسکتا ہے اس کے لیے کوئی نیا نسخہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی نیا نسخہ کار آمد ہوسکتا ہے بلکہ اس کے لیے وہی نسخہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو مجرب ہے، آزمایا ہوا ہے اور وہ نسخہ اسلام ہے۔
اسلام ہی نے پہلے بھی جاہلیت کا خاتمہ کیا تھا اور آج جدید جاہلیت کا خاتمہ بھی اسلام ہی سے ممکن ہے۔ یہی نسخہ؛ نسخہ شفاء ہے اور یہی نسخہ؛ نسخہ کیمیا ہے۔ جب کبھی اس نسخہ کو اس کی شرائط کے مطابق استعمال کیا گیا اس نے فائدہ ہی دیا اور آئندہ بھی جب اسے اس کی شرائط کے مطابق استعمال کیا جائے گا یہ کائنات انسانی کو فائدہ بخشے کیونکہ یہ ہے ہی اسی لیے۔
جس طرح زمانہ قدیم کی جاہلیت کا علاج اسلام کے پاس موجود تھا اسی طرح زمانہ جدید کی جاہلیت کا علاج بھی اسلام کے پاس موجود ہے، چونکہ ہم یہاں زمانہ جدید کی جاہلیت کی گوناگوں اقسام میں سے صرف قتل و غارت اور خون ریزی کا ذکر کررہے ہیں اس لیے اس کے متعلق جو اسلام نے جو عمدہ نسخہ تجوید کیا ہے اور جو تعلیمات دی ہیں ان خلاصہ یہاں نقل کردینا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ زبان پر کنٹرول کیا جائے۔ بے ہودہ کلام ،فحش گوئی ،گالی ،الزام تراشی، بہتان طرازی اور طعن وتشنیع سے زبان محفوظ کی جائے، اسی طرح کسی کے حسب و نسب خاندان یا شکل و صورت کے متعلق نا زیبا بات کرنے سے بھی زبان کو روک کر رکھا جائے اور زبان کی بے احتیاطی معاشرے میں کیا گل کھلارہی ہے زبان میں اگرچہ ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ ہڈ یاں تڑوادیتی ہے۔ ایک گالی پر قتل ،ایک طعنہ پر قتل، ایک الزام تراشی پر قتل معمولی بات ہے، جب بظاہر ہلکے نظر آنے والے ان گناہوں کے سنگین نتائج ہمارے سامنے ہیں تو پھر شدید ضرورت ہے اس بات کی ہےکہ زبان کو ان سب چیزوں سے پاک رکھا جائے اور یہ کوئی زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہے حدیث شریف کا یہ واقعہ ہر وقت قلب و ذہن میں رہے۔
ایک شخص نے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لیے سب سے خطرناک چیز کون سی ہے؟ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مقدس زبان پکڑ کر فرمایا:” یہ“
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ انسان جب صبح اٹھتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء؛ زبان سے درخواست کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرنا ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی ہوگی ہم بھی سلامت ہوں گے اگر تو بھٹک جائے گی تو ہم سب برباد ہوجائیں گے۔
چونکہ خون ریزی دو طرفہ معاملہ ہے اس لیے یہ تو ایک فریق کے لیے نسخہ تھا اگر کوئی اس نسخہ پر عمل نہیں کرتا۔ فحش گوئی، الزام تراشی یا گالیاں دیتا ہے تو اسلام نے دوسرے فریق کے لیے نسخہ یہ دیا ہے کہ اسے دوسرے کی نازیبا باتوں پر صبر کرنا چاہیے ،قتل انسانی کی مذمت میں قرآن و حدیث کے ارشادات ملحوظ رکھنے چاہییں۔
قران مجید نے ناحق قتل کرنے والے کو پوری انسانیت کا قاتل قرار دیا ہے اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں قاتل تو اس لیے کہ اس نے قتل کیا ہے اور مقتول اس لیے کہ وہ بھی اپنے دوسرے فریق کو قتل کرنا چاہتا تھا اگرچہ اس کا بس نہیں چلا یہ تو اخروی سزا ہے۔ دنیا میں بھی قتل کی سزا قتل ہے پھانسی کے پھندے پر جھولنا آسان کام نہیں، بڑے بڑے بہادر اور خونخوار گھاٹ تک پہنچنے سے پہلے دم توڑدیتے ہیں۔
بعض لوگ قتل کر کے اس سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔ کبھی پیسے کے ذریعے، کبھی سفارش کے ذریعے، کبھی کسی اور حربے کے ذریعے لیکن آخرت کی سزا سے بچنا آسان نہیں۔
قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں روکنے کے لیے جہاں زبان کی حفاظت اور انسانی خون کی حرمت کا خیال کرنا ضروری ہے وہاں معاشرے کے تمام افراد کو چاہیے کہ اپنے اندر برداشت پیدا کریں لمحہ بھر میں شعلے کی طرح بھڑک جانا اچھی بات نہیں اس جلد بازی کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا بلکہ ہمیشہ کا پچھتاوا ملتا ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث مبارک ہمیں سبق دیتی ہے:” جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے، اور بردباری اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے۔“ پس جذبات کو بھڑکانے والے معاملات میں صبر ،سکون ،حوصلہ ،برداشت، رواداری ،معافی، درگزر اور چشم پوشی سے کام لینا چاہیے۔ یہ کام ہوتا تو بہت مشکل ہے مگر ہوتا دوررس نتائج کا حامل ہے۔ بہرحال غصہ کی آگ پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:” زور آور وہ نہیں جو کُشتی میں فریق مخالف کو پچھاڑ ڈالے بلکہ زور آور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو رکھے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص غصہ اتارنے کی طاقت رکھتا ہے پھر بھی ضبط کرتا ہے اللہ تعالی اس کا دل امن وامان سے پر کر دیتا ہے جو شخص باوجود موجود ہونے کے شہرت کے کپڑے کو تواضع کرکے چھوڑ دے اسے اللہ تعالی کرامت اور عزت کا جوڑا قیامت کے دن پہنائے گا اور جو کسی کا سر چھپائے اللہ تعالی اسے قیامت کے دن بادشاہت کا تاج پہنائے گا۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:” جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کر لے اسے اللہ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرلے۔ “
یہ دنیا کے غم بھی عارضی ہیں اور خوشیاں بھی عارضی ہیں۔ یہ نہ غم ہمیشہ رہیں گے اور نہ خوشیاں۔ اس لیے اگر کوئی زیادتی بھی کرے تو معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا آپ کو پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کےوہ کارنامے یاد نہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کے پتھر کھا کر ان کو معاف کردیا اور فرشتے آگئے اگر آپ کہتے ہیں تو ہم ان کو پہاڑوں کے درمیان پیس کر سرمہ بنادیں۔ فرمایا نہیں نہیں مجھے امید ہے کہ انہی کی نسل میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو میرے دین پر چلیں گے۔
آج ہم محبّانِ رسول ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور بات بات پر کہتے ہیں ہم انقلاب لانا چاہتے ہیں انقلاب۔ انقلاب انقلاب کہتے ہیں کہ تمام لوگ ایک بات کو چھوڑ کر سب ایک بات پر ڈٹ جائیں ایک ذرہ سی بات ہم برداشت نہیں کرپاتے تو انقلاب لارہے ہیں انقلاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ہی لگ سکتا ہے اور ہمارے نبی کے نام کے ساتھ ہی سلیکٹ ہوسکتا ہے۔
پیغمبر انقلاب نے دشمنوں کے پتھر کھا کر ان کو معاف کردیا اور پتھر بھی ایسے جوآپ صلی ا للہ علیہ وسلم کے جوتے مبارک خون سے تر کردیں اور ہم مسلمان کو معاف کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ انقلاب تو تبھی آسکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو معاف کریں اور ہر معاملہ درگزر ،حوصلہ ،ہمت و استقلال سے کام لیں اللہ آپ کو اور مجھے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین