بری صحبت سے بچیئے

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بری صحبت سے بچیئے!!
……مولانا محمد اسحاق
ماحول میں اچھی اور بری صحبت کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے انسانی زندگی کو جیسی صحبت میسر ہوگی ویسا ہی اس کی زندگی میں نکھار یا فساد پیدا ہوگا، جو لوگ اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے اخلاق اور مذاق بھی یکساں ہوجایا کرتے ہیں کیونکہ کشش اور محبت، نفرت اور حقارت کی نظر نہ آنے والی لہریں دو ہم نشینوں کے درمیان جاری رہتی ہیں، اور ان کے تعلق کی ٹھیک ٹھیک رپورٹ پیش کرتی ہیں، چنانچہ رب کریم کا فرمان ہے:
یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین
)سورۃ توبہ آیۃ119 (
اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔
علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: سچوں کی صحبت اتنی اختیار کرو کہ ان کی طرح بن جاؤ، کیونکہ ساتھی اپنے ساتھی کی اتباع کرتا ہے۔
جس طرح خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اس طرح آدمی کا رنگ ہم نشین پر چڑھتا ہے۔
جمال ہم نشیں در من اثر کرد
 
وگرنہ من ہما

خاکم کہ ہستم

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل۔
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس سے ملتا ہے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں :امام غزالی فرماتے ہیں کہ حریص بندے کی صحبت اور اس میل ملاپ حرص پیدا کرتا ہے اور زاہد کی صحبت اور اس سے میل جول دنیا سے زہد پیدا کرتا ہے اس لیے کہ طبیعتیں مشابہت کو نقل کرلیتی ہیں، بلکہ ایک طبیعت دوسری طبیعت سے اتنی خاموشی سے اس کی عادت کو چوری کرلیتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا یہی وجہ ہے کہ دریا کے کنارے میں بیٹھنے میں بیٹھنے والے کی طبیعت میں ٹھنڈک آجاتی ہے آگ کے قریب بیٹھنے والے کی طبیعت میں گرمی و حرارت آجاتی ہے، اونٹوں کو چرانے والے کی طبیعت میں ہٹ دھرمی آجاتی ہے، گھوڑوں کی خدمت کرنے والے کی طبیعت میں شجاعت آجاتی ہے،بکریاں چرانے والے کی طبیعت میں عاجزی اور تواضع آجاتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی طبیعت کو بنایا ہی ایسا ہے کہ جس کے ساتھ رہتا ہے ایسی جیسا بننا چاہتا ہے یا اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے۔
بری صحبت کے اثرات بد سے انسان کے اخلاق و اعمال تو متاثر ہوتے ہی ہیں اس کے ساتھ عقائد بھی تباہ ہوجاتے ہیں انسان کی جہاں دنیا برباد ہوتی ہے وہاں پر بری صحبت آخرت میں بھی ذلت کا باعث بن جاتی ہے بری صحبت زہر سے زیادہ مہلک ہوتا ہے جس کا انجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
نیک صحبت تریاق کا کام کرتی ہے ، جو سینکڑوں برائیوں سے حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے عقل مند انسان کو جیسے نیکی کی تلاش ہوتی ہے ویسے ہی نیک لوگوں کی تلاش ہوتی ہے نیک مجالس اور نیک صحبت کو پسند کرتا ہے۔ بری صحبت اور بری ہم نشینی سے بچتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے عام انسان ہی کو نہیں بلکہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ نیک، صالح اور متقی پرہیز گار لوگوں کی صحبت اختیار کریں اور ان لوگوں کی صحبت سے دور رہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں اور ذکر سے غافل ہیں، فرمان باری تعالیٰ ہے:
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عینٰک عنہم۔
)سورۃ کہف آیۃ82 (
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی پابندی کرلیں جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے ہیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
فاعرض عن من تولیٰ عن ذکرنا ولم یرد الا الحیوٰۃ الدنیا۔
)سورۃ النجم آیۃ 29 (
اے میرے محبوب آپ ان سے الگ ہوجائیے جنہوں نے میری یاد سے منہ پھیر لیا ہے اور اس کا مقصود دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اسی وجہ سے اسلام بری صحبت سے روکتا ہے کیونکہ اس سے انسان راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے اور ہمیشہ جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔
رب کریم نے قران کریم میں بری صحبت اختیار کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے، جو قیامت کے دن اپنے برے دوستوں اور ہم نشینوں کو یاد کر کے اللہ رب العزت سے مطالبہ کریں گے، کہ وہ پل بھر کے لیے ان کو وہ لوگ دکھا دے جن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے نے ان کو راہ حق سے بھٹکا دیا تھا تاکہ وہ ان کو اپنے قدموں سے روند ڈالیں جہنمی خودکو کوسیں گے اور کہیں گے کاش ہم فلاں سے دوستی نہ لگاتے اور انبیاء کرام کی اتباع کرتے دنیا کے دوست وہاں پر ایک دوسرے سے دشمنی کرنے لگیں گے۔
فرمان باری تعالی ہے:
وقال الذین کفروا ربنا ارنا الذین اضلٰنا من الجن والانس نجعلہما تحت اقدامنا لیکونا من الاسفلین۔
)سورۃ حم السجدۃ آیۃ29 (
کافر کہیں گے اے ہمارے رب آپ ہمیں جنوں اور انسانوں کے وہ دونوں فریق دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تاکہ ہم انہیں اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالیں تاکہ وہ دوزخ میں سب سے نیچے ہوجائیں۔
اگر وہ نیکوں کی صحبت رکھتا ہے تو س کے نیک ہوجانے کے امکانات ہیں، اور اگر بروں کی مجلس اختیار کی ہے تو اگر چہ خود نیک ہو لیکن بد ہے کیونکہ وہ اپنے ہم نشینوں کے افعال پر راضی ہے اور جب وہ بد کے افعال قبیحہ پر راضی ہوا تو وہ خود بھی بد ہی ہوگا۔
امام الاولیاء حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
ایک آدمی کعبہ کے گرد طواف کرتے ہوئے کہتا تھا اے میرے پروردگار میرے بھائیوں کو نیک کر، اس سے پوچھا گیا کہ ایسے متبرک مقام میں پہنچ کر تو اپنے لیے کیوں نہیں کرتا؟ اس نے کہا جب میں اپنے بھائیوں میں واپس لوٹوں گا تو اگر میں نے ان کو نیک پایا تو میں بھی نیک رہوں گا اور اگر وہ گمراہ اور بد کردار رہے تو میں بھی ان کی وجہ سے بد ہوجاؤں گا اس وجہ سے کہ نفس دوستوں کی عادات سے تسکین پاتا ہے اور انہیں جلدی قبول کرتا ہے، انسان جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اس کے تاثرات پوری قوت سے اس پر غلبہ اثر پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس گروہ کی عادات و خصائل وہ آدمی اختیار کرتا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ کسی کہنے والے شیخ نے کہا کہ کتاب اور دوست روح کی غذا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ بات بالکل صحیح ہے اس سے بھلا کس کو انکار ہوسکتا ہے، لیکن اس غذا کے انتخاب کے سلسلے میں بڑی ہوشیاری اور ذہانت کی ضرورت ہے۔
جس طرح جسمانی صحت کے لیے خراب اور غلط غذا مضر ہے اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اسی طرح روح کی غذا کے منتخب کرنے میں بھی یہ بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ ہم نے جو غذا اپنے لیے منتخب کی ہے اس میں صحت مند اجزاء بھی پائے جاتے ہیں یا وہ اپنے دامن میں خراب اور زہریلے اثرات رکھتی ہے؟
یہ انتخاب کوئی معمولی چیز نہیں ہے روحانی غذا کے صحیح انتخاب پر ہی مستقبل کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہے، روح کی غذا کا غلط انتخاب انسانی ذہن کو بالکل اسی طرح غلط راہ پر ڈال دیتا ہے جس طرح جسم کے لیے غلط اور خراب غذا کا استعمال بیماری اور امراض و دعوت دیتا ہے۔
اس لیے اپنی روح کی صحت مند غذا حاصل کرنے میں بڑی دور اندیشی،سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کی ضرورت ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک کا غلط انتخاب انسان کے جسم کو بیمار بناتا ہے اور دوسرے کا غلط روح وضمیر کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
اس لیے ہمیں اس بارے میں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم اور ہماری اولاد کہیں بری صحبت تو اختیار کیے ہوئے نہیں ہے۔ آج معاشرے میں 99 فیصد بلکہ 100 فیصد بگاڑ ہی بری سوسائٹی اور بری صحبت سے آیا ہوا ہے۔ اس لیے کسی نے کہا ہے :
"صحبت صالح ترا صالح کند
 
صحبت طالع ترا

طالع کند