علم وعمل کاچولی دامن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
علم وعمل کاچولی دامن
……مولانا عبدلسلام گڑنگی
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ بیماری عام ہے کہ ہم دوسروں کو تو اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں لیکن خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو علم رکھتا ہے اس کہ چاہیے کہ اس کے مطابق عمل بھی کرے۔
ایسا نہ ہو کہ کہے کچھ اور کرے کچھ اس لیے کہ اگر عمل علم کے خلاف ہو گا تو اس کے ذریعے ہدایت نہیں ہو گی ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ایسا علم جس پرعمل نہ ہوآپﷺنے پناہ مانگی ہے آپﷺ کا ارشاد ہے۔ اے اللہ میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا:سب سے بدترین شخص مرتبہ کے لحاظ سے اللہ پاک کے نزدیک وہ عالم ہے جس کے علم سے نفع نہ ہو۔
ایک حدیث میں ہے سب سے بد تر علماءبد ہیں اور سب سے بہتر لوگ علماءخیر ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ علم جس سے اللہ کی رضا چاہی جاتی ہے(یعنی دین اور کتاب سنت کا علم)اگر اس کو کوئی شخص دنیا کی دولت کمانے کے لیے حاصل کرے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ایک اور روایت میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا قیا مت کے دن سب سے سخت عذاب اس عالم کو ہو گا جس کو اس کے علم نے نفع نہیں پہنچایا یعنی اس نے اپنی عملی زندگی کو علم کے تابع نہیں بنایا۔
حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں: میں اس خوف سے لرز رہا ہوں کے قیامت کے دن حساب دینے کے لیے کھڑا کیا جاؤں اور پوچھا جائے تو نے علم حاصل کیا تھامگر اس سے کیا کام لیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں باتیں بنانا سب جانتے ہیں لیکن اچھا وہی ہے جس کا قول و فعل یکساں ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:اے اہل علم اپنے علم پر عمل کرو۔کیونکہ عالم وہی ہے جو علم حاصل کر کے عمل کرتا ہے اور جس کے علم وعمل میں اختلاف نہیں ہو تا،عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو علم تو رکھیں گے مگر علم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،ان کا باطن ان کے ظاہر سے مختلف ہو گا،ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہو گا مجلسیں جما کر بیٹھیں گے، آپس میں فخر و مباخت کریں گے اور لوگوں سے اس لیے ناراض ہو جایا کریں گے کہ ان کی مجلسیں چھوڑ کر دوسرے کی مجلس میں کیوں جا بیٹھے؟ایسے لوگوں کے عمل خدا تک نہیں پہنچیں گے۔
حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے لوگوں کو ان کے اعمال سے پرکھو نہ کہ اقوال سے،خدا نے ایسا قول نہیں چھوڑا جس کی تصدیق یا تکذیب کے لیے کوئی نہ کوئی عمل نہ ہو،کسی کی میٹھی میٹھی باتوں سے دھوکا نہ کھاؤ،بلکہ یہ دیکھو کہ اس کا فعل کیسا ہے۔انہی کا قول ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں،ایک وہ جو قلب میں ہے وہ علم نافع ہے اور ایک وہ علم جو صرف زبان پر ہے ،یہ اس پر حجت ہے۔حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں :علم عمل کو پکارتا ہے اگر جواب نہیں پاتا تو رخصت جاتا ہے۔
حضرت مالک بن دینار ؒ کا قول ہے بے عمل عالم کی نصیحت کا اثردل پر ایسا ہوتا ہے جیسے بارش کا سنگلاخ چٹان پر۔
منصوربن معتمرؒ اپنے زمانے کے علماءسے فرمایا کرتے تھے :تم کو علم سے لذت اس لیے حاصل نہیں ہوتی کہ تم علم کی باتیں سننے سنانے اور فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہو،اگر تم اپنے علم پر پوری طرح عمل کرتے تو مزہ اور لذت کبھی نہ پاتے، کیو نکہ علم تو اول سے آخر تک دنیا سے نفرت کرنے کی رغبت دلاتا ہے پھر اس میں لذت کہاں ہو سکتی ہے۔
حضرت ابراہیم ادہمؒ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میرا گزر ایک پتھر پر ہوا جس پر لکھا ہوا تھا کہ ایک مرتبہ مجھ کو پلٹ کر دیکھو عبرت حاصل کرو گے، میں نے اس کو پلٹا تو اس پر لکھا ہوا تھا تم نے معلوم شدہ باتوں پر عمل نہیں کیا، پھر نئی معلومات حاصل کرنے کی کس لیے فکر ہے۔
حضرت ذوالنون مصریؒ فرمایا کرتے تھے : ہم نے پہلے لوگوں کی یہ حالت دیکھی تھی کہ جس قدر جس کسی کا علم بڑھتا تھا، اس قدر دنیا سے بے رغبتی اور ما ل و متاع میں کمی ہوتی جاتی تھی اور آج کل لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جتنی علم میں ترقی ہوتی ہے اس سے زیادہ دنیا میں رغبت اور اہل دنیا کے ساتھ تعلق زیادہ ہوتا ہے۔
فرمایا کرتے تھے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا ارو لذت دنیا کی طرف مائل ہوتے ہوئے عالم کو اپنے علم پر اطمنان کیوں کر رہ سکتا ہے ،کیونکہ علم تو ان باتوں سے منع کرتا ہے اگر وہ اپنے علم کو سچا سمجھتا تو اس کے خلاف کیوں کرتا،معلوم ہوتا ہے وہ اپنے علم کو غلط سمجھتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب تک خود عمل نہ کیا جائے،اس وقت تک دوسروں سے عمل کی امید لگانا مشکل ہے کیونکہ علم و عمل کا آپس میں لازم ملزوم کا تعلق ہے یہ اسی وقت فائدہ مندہو سکتا ہے جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔