وصالِ حقیقی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وصالِ حقیقی
……بنت ِخالد ، سکھر
محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال

ہوگا یہ طے ہوا تھا

بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا

خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا

فرحین کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے بس ابھی اتنا ہی کچھ لکھ پائی تھی ،ابھی تو یادوں کا ایک طوفان اندر ہی اندر مچل رہا تھا۔
فرحین اپنے پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ،اپنے گھر کی چہچہاتی فاختہ، اپنے بابا کی رانی ،بہت نازوں پلی، جب وہ پانچ بیٹوں کے بعد مولانا صفدر صاحب کےآنگن میں رحمت بن کر آئی، اس دن مولانا صاحب کی خوشی کی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، بے حد نازو نعم میں پلی بڑھی ،اگر کبھی رونے لگتی تو امین سے لے کر اسد اللہ بھائی تک سارے ہی اس کی دلجوئی اور خوش کرانے میں لگ جاتے، گھر کاایک ایک فرد اس کے نخرے اٹھاتے نہ تھکتا۔
مولانا صفدرشہر کے وسط میں ایک بہت بڑے مدرسے کےسکہ بند عالم اور مہتمم تھے، ان کی اہلیہ فوزیہ بیگم بھی ماشاء اللہ عالمہ فاضلہ تھیں ، گھر کا ماحول پر سکون تھا اور سب بچوں کی تربیت بھی دینی ماحول ہی میں ہو رہی تھی۔
مولانا صفدر صاحب سےچھوٹے ان کے اکلوتے بھائی اکرم صاحب تھے دونوں کے گھر کے درمیان شرعی پردے کی وجہ سے صرف ایک ہی دیوار کا فاصلہ تھا۔
وقت تیزی سے گزررہا تھا ،سورج شرق و غرب میں طلوع و غروب کی منزلیں طے کر رہا تھا ، چاند کبھی ہلال اور کبھی بدر بن کر اپنی عمر پوری کر رہا تھا ، چاروں موسم اپنے اپنے دن پورے کرنے میں مگن تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے فرحین اب بڑی ہو رہی تھی ، اگرچہ اس کی عمر تو زیادہ نہ تھی لیکن وہ کافی سمجھ دار ہوچکی تھی ، امور خانہ داری میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی ، قرآن کریم حفظ مکمل کر چکی تھی اور آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی، باقی سب بھائی مکتب میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے ، فرحین چونکہ خاطر خواہ عصری تعلیم سے آگاہی حاصل کر چکی تھی اس لیے اس نے اب درس نظامی میں داخلہ لینا تھا اور اسکول کو خیر آباد کہناتھا۔
یہ بات تو چونکہ شروع سے طے تھی کہ فرحین نے اپنے چچازاد ”حماد“ کا ہونا ہے اور حماد کی بہن” شذرہ“ کی نسبت صفدر صاحب کے دوسرے بیٹے ”عمار“ سے طے ہونی تھی۔ چونکہ ابھی چاروں ہی مدرسے میں زیر تعلیم تھے اس لیے فی الحال اس موضوع کو کسی نے بھی نہ چھیڑا۔
وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا تھا ، فرحین اب عالیہ کلاس میں تھی، آج ایک خاموش سی اداس خزاں کی شام تھی ، ہر جگہ عجیب سا سناٹا طاری تھا ، درخت کے پتے بھی اداس اداس مرجھائے ہوئے ، ہر جگہ اداسی ہی اداسی تھی۔فوزیہ بیگم سبزی کاٹ رہی تھیں اور فرحین ان کے ساتھ بیٹھی کچھ باتیں کر رہی تھی کہ اچانک باہر سےکچھ شور کی آوازیں سنائی دیں ،پہلے پہل تو وہ دور سے آ رہی تھی لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ گھر کے قریب آتی ہوئی محسوس ہوئیں، ایمبولینس کا سائرن…. رونے کی آوازیں ….دل پہلے ہی کچھ بجھا بجھا سا تھا ، اب تو اس کی دھڑکن مزید تیز ہو گئی اور…………..
دھک سے دروازہ کھلا………اسد اللہ روتا ہوا ماں کے پاس آیا، اماں اماں! وہ امین بھائی ان کو شہید۔۔اس سے زیادہ اس کی زبان سے کچھ نہ نکل سکا۔ یہ اب روز کا معمول بن چکا تھا دینی مدرسے کے طالب علموں کو بغیر کسی جرم کے شہید کرنا اور علمائے حق کو شہید کرنا۔ شاید نبی کے دین کا وارث ہونا ہی آج ان کا جرم بن چکا تھا۔
آنسوؤں سے بھیگے آنچل سے اپنے چہرے کو پونچھتی ہوئے مسکراتے لبوں سے آواز آئی : میرے بیٹے نے میرا سر فخر سے بلند کردیا،اے اللہ! میرے بچے کو قبول فرما! میں خوش ہوں صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت زندہ ہوئی ،میں شہید کی ماں ہوں، بہن! مجھے واویلااور ہائے ہائے کرنے سے کیا ملے گا؟ میں کیوں اپنے جنت کے محلات اور آخرت کے ابدی اجر کو ضائع کروں ؟ یہ تو فانی دنیاہے ،بچھڑ نا تو دستورِ زندگی ہے، خوشی تو اس بات کی ہے کہ میرے لعل نے اللہ کے دین کے لیے اپنی پیاری جان کی قربانی دی ہے۔ فوزیہ بیگم کے چہرے پراطمینان اور شکر کے آثار دکھائی دے رہے تھے ،پڑوس کی زرینہ من ہی من میں بھن بھنا کر رہ گئی جو انہیں رسمی طور پر رونا رلانا چاہ رہی تھی کہ شاید تماشائیوں کا یہی کام ہوتا ہے۔
فرحین چپ چاپ اپنی ماں کو دیکھتی رہتی جو کبھی امین بھائی کے لیے چھپ چھپ کر روتی رہتی تو کبھی ان کی یادوں میں گم ہوجاتی ، فرحین اپنی ماں کو دیکھ سوچتی رہ جاتی کہ کتنا بڑا جگر اللہ نے انہیں دیا اور ان جیسی اور کتنی عورتیں تھیں جو دین کے لیے قربانی دینا تو درکنار، پانچ منٹ نماز کے لیے بھی نہ دیتی تھیں ہر وقت فیشن میں خود کو مصروف رکھتی تھیں۔
فرحین اب عالمیہ میں تھی اور صفدر صاحب اپنی بیٹی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے لہٰذا سب کے مشورے سے یہ طے ہوا تھا کہ فرحین کے امتحانات کے بعد ان کا نکاح کر دیا جائے جب کہ شذرہ چونکہ پڑھائی سے فارغ ہوچکی تھی تو اس کی رخصتی کر دی جائے گی۔ گھر کے سبھی لوگ تیاریوں میں مصروف ہو گئے ، وقت پھر سے سہانے گیت گانے لگا تھا ہر ہر قدم پر خوشیاں رقص کررہیں تھیں۔
25 اکتوبر کا دن تھا، سب مہمان آچکے تھے،نکاح ہوچکا تھا، ابھی کھانے کے بعد شذرہ کی ڈولی اٹھائی جانا باقی تھی کہ یکایک وہی شور کی آوازیں……… وہی ایمبولینس کا دل چیر دینے والا سائرن ……… سارا سامان وہیں بکھرا کا بکھرا رہ گیا ،سب گھر والوں کے پاؤں سے زمین نے کھسکنا شروع کر دیا ، پھر وہی ہوا کہ دین حق کا ایک اور راہی جام ِ شہادت نوش کر گیا۔
صفدر صاحب کے چوتھے بیٹے یاسر کو نامعلوم افراد نے مسجد سے باہر نکلتے ہوئے گولیاں مار کے شہید کردیا گیا تھا۔ لہو لہان جسم اور تڑپتا لاشہ سب کو تڑپا گیا ، ظالموں نے اتنی گولیاں ماری کہ سینہ چھلنی ہو گیا ……… ہوتا جو اگر کوئی بیوروکریٹ یا حاکم وقت کا بیٹا تو میڈیا چلا چلا کر بلکہ چنگھاڑ چنگھاڑ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ، صبح سے شام تک اس کی مظلومیت کی داستانیں سناتا ، اس کی زندگی کی اہم پہلو کی ڈاکومنٹریاں تیار کرتا ، سپیشل ٹرانسمیشن کا بندوبست ہوتا۔ لیکن یہ توبے چارہ ایک عالمِ دین کا بیٹا تھا، اس کو کوریج دے کر بھلا میڈیا کو کیا ملتا؟؟ اس کی شہادت کی خبر پھیلا کر میڈیا نے اپنی شامت تھوڑی نہ بلوانی تھی۔ انگریز کےزر خرید غلاموں کو اس کے بارے شور مچا کر کون سا نوبل پرائز دلوانا تھا؟ کیونکہ یہ تو آخری نبی الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والا تھا اور یہی اس کا جر م تھا۔
؏ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!!
جہاں ہر روز مدارس کے بے گناہ اساتذہ اور طلباءدن دیہاڑے شہید ہو رہےہوں،جن کا جرم قال اللہ و قال الرسول کے زمزے اور گیت گانا ہو ، جو طالب آخرت اور معرفت و رضا حق کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ان کو بھلا دنیا کی کیا غرض تھی؟ ان کے لیے کون عدالتوں میں کشکول اٹھائے اور امن و انصاف کی بھیک مانگے۔بس معاملہ روز جزا پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا
میرے لیے یہ خدا کا بہت بڑاانعام اور اعزاز ہے میری بہن! یہ صرف دو بیٹے شہید ہوئے یہ دو کیا میری تو ساری اولاد بھی دین کے لیے قربان ہے، دنیا سے بہر حال جانا ہی ہے ، چاہیے امیر چاہے غریب یہ جام شہادت کا مزہ ہی الگ ہے بھلا اور کس کام آنی تھی یہ زندگی۔ فوزیہ بیگم جو ہمت و حوصلے کا پہاڑ بنی آئی ہوئی ایک خاتون کو یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔
شذرہ کی رخصتی ہوچکی تھی ایک سال بعد فرحین کی رخصتی ہونا طے پائی تھی، گھر کے تمام افراد کے دل غمگین صحیح پر اب مضبوط ہوچکے تھے ، کوئی بھی دنیاوی شور……… جنت کے سکون کے طلب گار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا، جو کچھ تھا وہ دین پر لگ چکا تھا اور بھی سب کچھ لگانے کو تن من دھن تیار تھا۔
کس طرح وقت پَر لگا کر عمر کی منزلیں طے کرتا گیا پتہ ہی نہ چلا ایک سال بھی گزر گیا بالآخر فرحین کی بھی آج رخصتی ہوگئی۔
میں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے میدان کا انتخاب کر لیا ہے فرحین! ہمارا مقصد دنیا کمانا نہیں ، دین کو بلند کرنا ہے۔ آج سب اپنی عیش عشرتوں میں مگن ہیں۔ فرحین! دین تو کسی کو یاد ہی نہیں۔ نہ اپنی صوم و صلوٰۃ کی فکر رہی، نہ امت کی ، بس انگریز کے تھوکے ہوئے کلچر کو چاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،فانی دنیا کی عیش و عشرت ہونہ ہو ہم نے جنت میں ایک ساتھ رہنا ہے۔ ہمارا قصور دنیا والے یہ مانتے ہیں کہ ہم انہیں دنیا کی فانی لذتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کی لذتوں کی طرف بلاتے ہیں ہم انہیںExtremest (شدت پسند) لگتے ہیں شدت پسند ہونہہ۔
فرحین تم بتلاؤ! کیا کسی کواللہ کی طرف بلانا ، رسول اللہ کی ختم نبوت کی طرف بلانا ، صوم و صلوٰۃ کی طرف بلانا، قرآن کی طرف بلانا” شدت پسندی“ ہے؟
ہم نے الگ ہونا ہے فرحین !ہم بچھڑنے کے لیے ملے ہیں! ہمارا دائمی ملن تو فقط جنت میں ہوگا ،آج میرے پاس تمہارے لیے یہی” تحفہ“ ہے۔ فرحین جنت میں دائمی ساتھ کا………… امید ہے تم میرا ساتھ دو گی، فرحین! جذبات سے برستی آنکھوں سے ٹپکنے والا ایک ایک آنسو حماد کے صدق دل کی مستقل دلیل بنتا جا رہا تھا۔
لباس عروسی زیب تن کیے فرحین جو کافی دیر سے یہ سب کچھ انہماک سے سن رہی تھی ، حماد کی بات ختم ہونے پر سر اٹھا کر حماد کو ایک نظر دیکھا پھر نظریں جھکا لیں اوردل ہی دل میں خالق کائنات کا شکر بجا لائی کہ مقصد ایک ہی تھا۔
زندگی پہلے یوں خوبصورت نہ تھی، ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی حماد کی قربتوں و صحبتوں میں۔۔ فرحین اگرچہ شروع ہی سے محبتوں اور نازوں میں پلی تھی پر شوہر کی محبت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ عورت خود کو مکمل محسوس کرتی ہے۔ ہر روز نیا سنگھار اپنا آپ سجانا زندگی کچھ نئے طرز پر ہی چل نکلی تھی، جس محبت و سکون سے دن گزررہے تھے شاید ہی کبھی تصور کیا ہو، شادی کو پانچ ماہ گزر چکے تھے۔
فرحین کی طبیعت آج کچھ خراب ہوئی تھی اسد کو بلواکر وہ اس کے ساتھ ہسپتال گئی تھی۔ حماد چونکہ ابھی مدرسہ سے میں تھے اور شام کو پانچ بجے ہی پڑھا کر فارغ ہونے تھے اس لیے اس نے اسد کو بلوایا تھا۔ ڈاکٹر نے پہلے کچھ Tests کیے اور آخر فرحین کو خوشخبری سنائی۔
فرحین بہت خوش تھی ، گھر کے سارے افراد خوشی کی خبر سن کر جمع ہوگئے فوزیہ بیگم؛حماد کے گھر والے فرحین اور حماد سبھی بہت خوش تھے۔ سب کے چلے جانے کے بعد فرحین کچن میں برتن دھورہی تھی، حماد بھی گیٹ بند کر کے کچن میں آیا تھا اور فرحین کا ہاتھ تھا مے اس کو ٹیرس پر لے آیا تھا، جہاں چاندنی پھیلی ہوئی تھی، ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ رقص کرتے درختوں کے پتے اورننھے ننھے پودے بھی فرحین اور حماد کی خوشی کا جشن منارہے تھے حماد نے ایک ٹھنڈی سانس لی پھر فرحین کی طرف متوجہ ہوا۔
فرحین مجھے اسی دن کا انتظار تھا کہ میری نسل آگے بڑھے اور میں خود خدا کے دین کی سربلندی کے لیے میدان کارزار میں چلا جاؤں تاکہ میرے بعد میری کوئی نشانی تمہارے پاس ہو، میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ……فرحین میں چاہتا ہوں جس طرح دنیا میں تم میری ہو…… میرے چلے جانے کے بعد بھی اور آخرت میں بھی تم میری ہی رہو…… یہ میری نشانی ہے جو تمہیں میرا ہی رکھے گی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
فرحین!کبھی بھی اداس نہ ہونا ”کبھی نہیں بچھڑنا“ دنیا کا دستور ہے فرحین ہم نیک کام کے لیے قربانی دے رہے ہیں تم تو خوش ہونا ……تم شہید کی بیوی بنو گی۔
فرحین کا پاؤں بھاری ہو چلا تھا حماد کی امانت اس کے شکم میں پرورش پا رہی تھی حماد کو گئے ہوئے بھی آٹھ ماہ بیت چکے تھے ، پہلےچھ ماہ تک رابطہ رہا تھا لیکن پچھلے دو ماہ سے کوئی خیر خبر نہیں آئی تھی فرحین کی برداشت اب جواب دینے لگی تھی۔
فرحین کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہورہی تھی، آنکھیں تھیں کہ قربت کے لمحے ڈھونڈ رہی تھیں ، دل تھا جو ماضی کے کریچوں میں چھپا ہوا تھا اور دماغ تھا جو مستقبل کے اندیشوں سے سہما ہوا۔
بس حماد بس! اب واپس آجائیں! اب میرا کمزور دل برداشت نہیں کرر ہا ، ابھی ہی تو میرے خوشی کے دن شروع ہوئے ہیں ، حماد ابھی تو میں نے آپ کے محبتوں کے لمحے سمیٹنے تھے، واپس آجائیں حماد! واپس آجائیں! فرحین فرط جذبات میں نیچے بیٹھتی چلی گئی، اس کا دل دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا اور وہ خود بھی بے قابو ہوتی چلی گئی میں نہیں رہ سکتی حماد! میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر۔ کمرے میں فرحین کی آوازیں گونج رہیں تھیں حماد خدا کے لیے واپس آجائیں! حماد مجھے آپ کی ضرورت ہے حماد میں مرجاؤں گی حماد۔
یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ
 
رہی ہیں سفر

کے آغاز ہی میں یارو

کوئی بھی تھک کر نہ

راستے میں نڈھال ہوگا یہ طے ہوا تھا

فرحین کا آپریشن ہوا تھا اللہ نے اسے ایک پیارے بیٹے سے نوازا تھا جو بالکل حماد کا پر تَو تھا، فرحین نے جب آنکھیں کھولیں اس کی ساس نے اس پھول کو اس کی طرف سونپنا چاہا، سب کمرے میں موجود تھے۔ امی، بابا، بھائی، چچا ،چچی سب کی آنکھیں نم تھیں جھکے تھکے چہرے۔
بابا نے امی کو اشارۃً چچی سے مُنَّا لینے کو کہا، پھر امی سے خود اپنی گود میں لے لیا اور فرحین کے سرہانے بیٹھ گئے۔ فرحین نے خوشی سے اٹھنے کی ناکام کوشش کی ……بابا نے اشارے سے لیٹے رہنے کو کہا، اورمُنّے کو ایک طرف لٹایا ،پھر فرحین کے سر پر ہاتھ پھیرا، آج آپ کو دوہری مبارک ہو بیٹا۔ یہ کہہ کر بابا جان کی آنکھیں برسنے لگیں، امی اور چچی جو بہت دیر سے خود پر قابو کئے ہوئے تھیں ان کا بھی ضبط ٹوٹ گیا۔ سب ہی آنکھیں پر نم ہوچلی تھیں۔ بیٹا آپ بخوبی جانتی ہو
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات۔ بل احیاء ولکن لا تشعرون۔
یہ شہادت کا رتبہ ہر کسی کو نہیں ملتا پر حماد کو اللہ نے یہ رتبہ یہ دے دیا بیٹا۔ فرحین بیٹا!اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جامِ شہادت نوش کرنے والے زندہ ہوتے ہیں ، بیٹااور آپ کے لیے یہ ننھا تحفہ جسے آپ نےاس کے باپ کے نقش قدم پر دین میں چلانا ہے۔ فرحین کو لگا جیسے سب اندھیرا ہوگیا ہو۔سب کچھ اندر ٹوٹ گیا ہو شاید سب کچھ۔
وہی ہوا نہ بدلتے موسم میں

تم نے ہم کو بھلادیا نہ

کوئی بھی رت ہو نہ چاہتوں کو

زوال ہوگا یہ طے ہوا تھا

محمد سات سال کا ہوچکا تھا محمد بن حماد۔ بالکل حماد کا پرتَو۔ فرحین بھی فوزیہ بیگم کی بیٹی تھی بہت حوصلے سے قربانی دی، کیونکہ یہ پہلے ہی طے ہوا تھا ملن ابدی ہوگا یہ دنیا فانی ہے۔
فرحین کا رشتہ قلم سے جڑ چکا تھا،ما فی الضمیر کو قلم سے بیان کرنا اور اس کو منظر عام پر لانا لیکن افسوس۔ صد افسوس کے حق کے راہی کی آواز سنتے ہی کتنے ہیں؟ ان کو تو روز ناک پر بیٹھی مکھیوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے۔
آواز تو صرف انگریزوں کی تقلید میں اٹھائی جاتی ہے کہ اس میں عیش و عشرت پیسے ملیں گے جبکہ جن کی زندگی قال اللہ و قال الرسول کے عین مطابق ہو انہیں اس جرم کی پاداش میں زمانے کے نشتر بھی سہنے پڑتے ہیں۔
اور ان کو دہشت گرد، شدت پسند کہہ کر ان کا صفایا کردیا جاتا ہے جس میں فوزیہ بیگم جیسی کتنی ہی ماؤں کی گود اجڑتی ہے۔
فرحین جیسی بہنیں اپنے جوان بھائیوں کو کھودیتی ہیں اور فرحین جیسی ہی جوان بیویاں بیوگی کی چادر لپیٹ کر زمانے سے روپوش رہتی ہیں ، جن کی تو ابھی عمر ہی ہار سنگھار کی ہوتی ہے۔
اے کاش کوئی صاحب نظر دیکھتا!! دہشت گرد کون ہے ؟ کاش کوئی صاحب انصاف دیکھتا کہ شدت پسند کون ہے ؟ قصور وار اور لاچار کون ہے ؟
بچھڑ گئے ہیں تو کیا ہوا کہ یہی تو دستور

زندگی ہے

جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہو گا یہ

طے ہوا تھا

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا یہ

طے ہوا تھا

بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال

ہوگا یہ طے ہوا تھا

چلو کے فیضان کشتیوں کو جلادیں گمنام

ساحلوں پر

کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہوگا

یہ طے ہوا تھا