سَلام اُس پر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سَلام اُس پر
……محمدطارق نعمان گڑنگی
بخاری ومسلم میں سیدناانس ؓ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حسین،بہادراورفیاض تھے۔ نبی کریم کے مزاج میں سب سے زیادہ اعتدال تھا۔امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق وعادات کی تمام خوبیاں،کمالات اور اعلیٰ صفات حضوراقدس کی ذات میں جمع فرمادی تھیں
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم کی ذات بابرکت عالی صفات تمام اخلاق وخصائل ،صفات جمال میں اعلیٰ واشرف وقوی ہیں ان تمام کمالات ومحاسن کا احاطہ کرناانسانی قدرت وطاقت سے باہر ہے۔ آپ کے اخلاق حمیدہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان پہ آج کا مسلمان عمل کرناشروع کردے تودنیاہی جنت بن جائے گی جناب رسالت ماٰب نے نبوت کے بعد تین برس تک پوشیدہ دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔چوتھے سال حکم ہو فاصدع بماتؤمرمحبوب کھل کر رسالت ونبوت کا اعلان کیجئے چنانچہ رسول پاک نے توحیدورسالت کا پرچارشروع کردیاآپبازاروں میں تشریف لے جاتے اورہردوکان پر کھڑے ہوکر فرماتے۔لوگو!ایک اللہ کی عبادت کرواس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔۔
اس اعلان کے ساتھ ہی ظلم وستم ،تشددوبربریت اور خوف وہراس کاایک نیادورشروع ہوگیا۔اپنے بیگانے ہوگئے بیگانے ظالم بن گئے حضوراکرم کا چچاابولہب آپ کے پیچھے پیچھے پھرتالوگوں کوحضوراقدس کی پیاری پیاری باتیں سننے سے منع کرتانبی کریم کے ارشادات کا مذاق اُڑاتا۔یہ وہی ابولہب تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کی خبر سن کر اپنی لونڈی ثوبیہ کو اس خوشی میں آزاد کر دیاتھااوراپنے بھتیجے کی پیدائش کاجشن اس صورت میں منایامگر جب مشن کی بات ہوئی تو آپ کو مارنے کے در پہ آگیا۔نوجوان آپ کا مذاق اڑاتے آوازیں کستے پتھر مارتے لیکن آپ ایسے حلیم الطبع تھے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھتے کہ پتھر مارنے والا کون ہے؟بلکہ ان کی گالیوں، پتھروں اورآوازوں کے بدلے انہیں دعائیں دیتے۔۔
ایک مرتبہ ابوجہل محفل سجائے بیٹھاتھاجناب رسالت مآب ﷺ ادھرآنکلے آپ نے اپناچچاکودعوت اسلام دی۔ لیکن ابوجہل بدتمیزی پر اتر آیااس نے نہ صرف گالیاں دیں بلکہ سرکاردوعالم پرتشددبھی کیاآپ کاسرمبارک زخمی ہوگیااورخون بہنے لگاحضوراکرم ﷺ روتے ہوئے گھرواپس آئے۔ حضرت حمزہ ؓ کی خادمہ نے سارامنظراپنی آنکھوں سے دیکھاتھا۔سواس نے حجرت حمزہ ؓکی اہلیہ کوساراواقعہ سنادیاتھا جب حضرت حمزہ ؓ گھر واپس آئے توحضوراقدس کی چچی نے آپ ؓ کوبتایاکہ آج ابوجہل نے ہمارے یتیم بھتیجے کے ساتھ اتناظلم کیاہے یہ سن کر کلیجہ پھٹنے کوآتاہے حضرت حمزہ ؓ نے کمان اٹھائی اورسیدھے ابوجہل کی خبرلینے کودوڑے حرم پاک میں پہنچ کر حضرت حمزہ ؓ نے ابوجہل کے سر پرکمان اس زورسے ماری کہ اسے لہولہان کردیا۔حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا کہ اے ابوجہل !کیاتونے ہمارے مرحوم بھائی کے فرزندکولاوارث سمجھاہے خبردار!حمزہ اس کاحمائتی ہے۔ابوجہل سے انتقام لینے کے بعد حمزہ ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھاکہ آقائے نامدارﷺ غمگین آنکھوں میں آنسوبھرے بیٹھے ہیں حضرت حمزہ ؓ کودیکھاتواپنے باپ کادست شفقت نظر آیاکہ کاش آج میرے والد عبداللہ زندہ ہوتے تومیرے سر پہ حمزہ کی طرح ہاتھ رکھتے آپ نے فرمایاکہ چچا!میں جب دنیامیں آیاتوباپ کے سایہ سے محروم تھاابھی بچہ تھا کہ ماں کی ممتاساتھ چھوڑ گئی جب سن شعورکوپہنچاتوداداانتقال کرگئے اب اپنی قوم دشمن ہوگئی ہے کل تک پیار کرنے والے آج خون کے پیاسے ہوگئے ہیں حضرت حمزہ ؓ نے عرج کیاکہ بھتیجے غم نہ کریں !جس مردود ابوجہل نے آپ کاسرزخمی کیاتھامیں اس کاسر پھوڑآیاہوں اب توخوش ہوجائیے میں نے بدلہ لے کر حساب برابر کردیاہے۔ سرکاردوعالم نے فرمایاکہ چچا!میں آپ کے اس اقدام پہ خوش نہیں ہوں۔ عرض کی کہ آپ کی خوشی کس بات میں ہے ؟شاہ دوجہاں نے فرمایا!میں دنیامیں سراپارحمت اور کرم بن کر آیاہوں انتقام لینے کے لیے نہیں آیا۔میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام لے آئیں میرے خون کابدلاکسی سے نہ لیتے بلکہ اس کے بدلے کلمہ طیبہ کی دولت سے سرفراز ہوجاتے حضوراکرم کے سچے جذبات دیکھ کرحضرت حمزہ ؓ نے کلمہ پڑھااورمسلمان ہوگئے۔ آپ کیسے اخلاق کے مالک تھے کہ اپنی تکلیف کے بدلے دشمن کی تکلیف کوپسند نہ فرمایااسی وجہ سے آپ کومحسن انسانیت کہاجاتاہے۔ ابوجہل آپ کاچچاتھاذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ آپ کے مشن کا مخالف تھاابوجہل نے نعوذباللہ آپ کوختم کرنے کی ایک تدبیرسوچی۔اس نے ایک گہراکنواں کھودااس کے منہ پرکھجورکی ٹہنیاں رکھیں پھراوپرمٹی ڈال کرزمین کوبرابرکردیا۔خودبیماربن بیٹھاتاکہ جب رسول پاک اس کی عیادت کوآئیں تواس گڑھے میں گرجائیں۔ ابوجہل کوجناب رسول مقبول کے مکارم اخلاق بخوبی علم تھاکہ آپ اس کی عیادت کے لیے ضرورآئیں گے۔
جب آپ اس کی تیمارداری کے لیے اس کنویں کے قریب پہنچے تو جبرائیل ؑتشریف لائے اورسرکاردوعالم کوحقیقت سے آگاہ کیااورآگے جانے سے منع کردیاسرکار دوجہاں واپس ہوئے توابوجہل کوافسوس ہواکہ شکارہاتھ سے نکل گیا چنانچہ وہ گھبراہٹ میں نبی کریم کوبلانے کے لیے دوڑااپنے ہاتھ سے کھودے ہوئے کنویں میں خود ہی گرگیاابوجہل کونکانے کے لیے اس کے حواریوں نے بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ خداکی شان کہ اسے نکالنے کے لیے کنویں میں جو رسی ڈالی جاتی وہ چھوٹی ہوجاتی یا ٹوٹ جاتی۔ ابوجہل مایوس ہو تو اس کے دل نے شہادت دی کہ مجھے اس کنویں سے صرف آمنہ کالال ہی نکال سکتاہے ابوجہل پکا بے ایمان تھا لیکن محسن انسانیت کے اخلاق کریمہ کادلی معترف تھا۔چنانچہ نبی کریم کوپیغام بھیجا آپ فوراً تشریف لے آئے فرمایا چچاتمہاری ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں اگر میں آپ کو اس گڑھے سے باہر نکال دوں کیا آپ مجھ پر ایمان لے آئیں گے ؟ابوجہل نے کہا کہ ضرور آپ کا کلمہ پڑھ لوں گا۔افضل المواعظ ازمولانامحمدابراہیم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ سرکاردوعالم نے دست کرم کنویں میں ڈالاجوابوجہل کے ہاتھوں تک پہنچ گیا۔ ابوجہل حیران رہ گیا۔یہ تومعمولی کنواں تھااگرابوجہل تحت الثراکے پستیوں میں ہوتا ہمارے پیارے آقامحمدمصطفی کا دست نبوت وہاں بھی پہنچ جاتاابوجہل کوآپ نے باہر نکالا فرمایا چچا ! جس طرح میں نے تم کواس گڑھے سے نکالاہے اسی طرح میں آپ کو کفر و شرک فسق وفجوراورجہنم کے گڑھے سے نکال کر ایمان کی دنیامیں لاناچاہتاہوں ایک خداکی ذات پرایمان لاکردوزخ کی آگ سے بچ جااورمیری آغوش رسالت میں آ جالیکن ابوجہل بولابھتیجے!توبہت بڑاجادوگرہے۔
دیکھیے نبی کریم کے اخلاق اورکفار کاظلم وستم آپ کووادی طائف میں اس دین کی خاطر پتھرمارے گئے لیکن آپ نے پھر بھی ان کے لیے بددعاتک نہیں کی۔ ابوجہل، عتبہ،شیبہ حضورکے جانی دشمن بنے ہوئے تھے مگرمصیبت کے وقت ان کی نظریں بھی آپ پہ آکر ٹک جایاکرتی تھیں۔ سرکاردوعالم کے بے مثال کرداراوراعلیٰ اخلاق نے جہالت اورگمراہی میں پڑے انسانوں کومتاثرکیااور آپ کے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے بھی لاتعدالوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے اخلاق کے اوپر نظردوڑائیں کیاہمارے اخلاق محمدی ہیں یااس کے برعکس؟ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔