مسلمانوں کا عروج و زوال

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسلمانوں کا عروج و زوال
……مولانا عبد السلام گڑنگی
موجودہ وقت میں جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے ویسے ہی اخلاقی اقدارکا معیار گرتا جا رہا ہے۔جس طرح آج کا انسان تہذیب و تمدن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اس سے یہ خطرہ موجود ہے کہ معاشرہ تباہی و بربادی کی گہری کھائی میں گر جائے گا۔جس طرف بھی نگاہ دوڑایئے تو شرافت و اخلاق کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔فیشن کے نام پر عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔تعلیم کے حصول کو مشکل سے مشکل بنانے کی سعی کی جا رہی ہے۔عشرت گاہوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ہماری ماؤں اوربہنوں کی عصمت کو تارتار کیا جا رہا ہے۔آخر کیوں؟
کیا مسلمانوں کے اندر طاقت کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔کیا مسلمان صرف نام کا مسلمان رہ گیا۔کیا مسلمان کا ضمیر مردہ ہو گیا،کیا مسلمانوں کے اندر ایمانی طاقت ناپید ہو گئی ہے۔کیا ہم پھر سے جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں؟ یہ بات ہر گز نہیں! البتہ اس کی ایک وجہ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں ہم نے سب کچھ اس دار فانی(دنیا) کوسمجھ لیا ہے۔ امیر ہو یا غریب ،حکمران ہوں یا عوام،مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان سب نے اپنا مقصد دنیا کو سمجھ لیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں میں ایمان کی دولت کم اور مال کی دولت بہت زیادہ ہو گئی ہے اسی طرح آج ہم نے مخلوق کی محبت کو اپنے اوپر لازم کر دیا اور خالق کو یکسر فراموش کر دیا۔جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ ایمانی قوت ہی مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اسی سے ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی ملے گی۔مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کی نگاہ سے باطل تھر تھرا اٹھتا ہے اور مسلمان کے قدم جہاں بھی پڑتے ہیں اخوت و محبت کے دریا رواں ہو جاتے ہیں۔جب کہ حقیقت حال میں مسلمان کا ہر کردار غیروں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اس لیے مسلمانوں ہوش میں آؤ، اپنے آپ کو پہچانواور غیروں کو اپنے اخلاق و کردار سے اپنی طرف راغب کرو۔مسجدوں کو آباد کرو، قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرو،نیک اعمال کرو ،بداعمالیوں سے پرہیز کرو،اللہ تعالیٰ کے پیارے رسولﷺ کی سنتوں پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں کو بھی تلقین کرو۔برائیوں سے بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ،غرباو مساکین کی اعانت کرو،یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرو،اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں سستی سے کام نہ لو۔
امت کی رہنمائی کے لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے حق بات پہنچا دی ہے اور میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ ایک کتاب اللہ دوسری سنت جو ان دو چیزوں کو تھامے رکھے گا وہ کبھی گمراہ نہ ہو گا۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر غیر تو کیا بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے جانی دشمن بن کہ رہ گئے ہیںجس کی وجہ سے مسلمان روز بروز پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔لیکن آج مسلمانوں میں ایک دوسرے سے پیار محبت اور ہمدردی کا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ والدین کی اپنے بچوں کی تربیت سے لاپرواہی ہے۔موجودہ تعلیم یافتہ دور میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ تربیت نہیں دی جا رہی جس تربیت کے ماحول کو وہ اپنا کر معاشرے میں ایک رول ماڈل پیش کر سکے۔
رسول اللہﷺ نے فر مایا: سب سے اچھے انسان وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔آج اس افرا تفری کے دور میں والدین کو بچوں کی طرف توجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں۔اس ذمہ داری کو وہ سکول اور اساتذہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔جو سراسر غلط ہے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے،اس لیے اخلاق وآداب کا درس دینا اس کی ذمہ داری ہے اگر ماں خوش اخلاق ہے تو بچے بھی خود بخود خوش اخلاق ہو جائیں گے۔مسلمان کے لیے خوش اخلاق ہونا ضروری ہے اس لیے کہ خوش اخلاق انسان ہر کسی کا دل جیت لیتا ہے۔اسی طرح رسول اللہﷺ نے تین باتوں کی تاکید کی کہ عمل کرنے میں اخلاص موجود ہو۔ہمیشہ کے لیے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ موجود ہو ،اور سب سے اہم بات یہ ہے کے آپس میں اتحاد ہو کیو نکہ جس قوم میں اتحاد پایا جاتا ہے اس کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا۔
اگر ہم نے مندرجہ بالا باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی تو یہ ہمارے لیے باعث نجات ہے اور ہماری دنیا و آخرت سنورنے کی بشارت ہے۔ورنہ اگر ہم عمل کرنے کے بجائے اسی راہ پر گامزن رہے تو ہماری تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔پھر ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔
اور اسی طرح مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گئے۔مسلمانوں کے خون سے خدا کی زمین کو رنگین کیا جائے گا،مسجدوں کو نذر آتش کیا جائے گا،ماؤں بہنوں کی عصمت کو پامال کیا جائے گا اور ہم مسلمان صرف اور صرف تماشائی بن کے رہ جائیں گے۔
اس کو تباہی کہا جاتا ہے ترقی نہیں۔اس کو مسلمانوں کا زوال کہا جاتا ہے عروج نہیں۔اسی لیے مسلمانوں کی کامیابی کا راز صرف اس بات میں ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ سے سبق سیکھے اور دین کے احکام پر عمل کرے۔