روحانیت کہاں گئی؟؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

                                                   روحانیت کہاں گئی؟؟

 محمد جنید حنفی                                                                                        

دل کی ایک بات اور حالات حاضرہ کے حوالے سے ایکیاد دہانی ہے۔روحانیت شریعت کو سنوارنے کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے انسانی بدن کے لئے روح کا ہونا ضروری ہے اور اسکے لئے موجودہ دور میں خانقاہیں اور تنلیغی اسفار بہت ضرور ی ہیںجو علماءحق  عارفین، متوکلین ،عابدو زاہد صفت اہل اللہ پر مشتمل اشخاص کے زیر نگرانی ہوں۔یہ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اسکی حقیقی شکل و صورت سے بہت سے لوگوں کی طرح ایک عرصہ تک نابلد رہا یا تو اسکی طرف کوئی توجہ ہی نہ کی،ہمارا حال دیکھا جائے تو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم روحانیت کے اعتبار سے غرق ہوگئے نمازی حضرات کے متعلق کہہ رہا ہوں جو فرائض بڑی مشکل سے پڑھتے ہیں تہجد، اوابین، اشراق، چاشت تو ہماری زندگی کا حصہ ہی نہ رہی نماز فجر کے بعد سونا اور نماز عصر کے بعد ذکر الٰہی سے غافل ہونا اگرچہ چلتے پھرتے ہی کیوں نہ ہو بہت بڑا المیہ ہے۔وضو؛غسل خانہ یا بیت الخلاءمیں بنانا،جماعت کی نماز کی پابندی نہ کرنا اور گھر میں ہی پڑھ کر جگہ کی پاکی کا خیال نہ کرنا، تصویروں والے کمرے میں نماز پڑھنا،ذکر کا اہتمام نہ کرنا،قرآن کی تلاوت سے بے رخی کرنا،بد نظری کی عادت بنا لینا،صدقات اور سخاوت کا ختم ہونا وغیرہ اور ان جیسے بہت سے امور ایسے ہیں جو دین اسلام کا حصہ ہیں ان کا خیال نہ کرنا۔عام مسلمانوں کا تو کیا اہل خواص کےلئے بھی بہت نقصان دہ ہیں۔سخاوت کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم بہت پیچھے رہ گئے پرانے زمانے اگرچہ غربت زیادہ تھی رزق محدود تھا کھانا صبح ملتا تو شام کو میسر نہ تھا بریانی، قورمہ،تکہ،اچار،کڑاہی اور ڈبل روٹیاں میسر نہ تھیں

لیکنسخاوت عام تھی کوئی باہر سے آتا تو لوگ ان کو اپنے یہاں ٹھہرانے کےلئے ایک دوسرے پر سبقت لیتے آج حالات بالکل برعکس ہوگئے مالداروں کو کھلایا جاتا ہے غریب بھوکا سوتا ہے،ہماری سخاوت زکوٰةتک محدود ہوگئی کوئی بھوک سے مررہا ہے کسی کو دوائی کی ضرورت کسی کو کپڑے کی ضرورت،مگر صاحب حیثیت لوگ اس کو یوں ٹال دیتے ہیں کہ ”صاحب میں نے تو زکوٰة ادا کردی ہے“ بس اسی پر سخاوت کا اکتفاءکرلیتے  ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگوںکی نمازیں روحانیت سے پر ہوتی تھیں مگر اب نماز تو ہے لیکن نورانی نہیں ۔ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن قائم نہیں کرتے۔ میںیہ درخواست کرتا ہوں کہ خدا را اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کیا جائے اس کے لئے اللہ والوں سے رجوع کیا جائے کیونکہ روحانیت آج بھی ضروری ہے اور قیامت تک اسکی ضرورت رہے گی۔ یہاں ایک شبہ ہوسکتا ہے کہ کیا روحانیت اور جدیدیت میں کوئی تعارض نہیںیہ الگ معاملہ ہے کہ ہم خود اس کو متضاد بنائیں۔ مثلاًوقت بہت اہم ہے اس حوالے سے گھڑی کی ایجاد بہت بہترین قدم ہے کہ اس سے نظام بہت بہتر ہوتا ہے لیکن ہم اسکو خود غلط استعمال کررہے ہیں۔اذان ہوتی ہے ہم بیٹھے رہتے ہیں گھڑی دیکھتے ہیں جیسے ہی ایک منٹ رہ جاتا ہے ہم بھاگ دوڑ شروع کرتے ہیں کہ نماز کی دیر ہوررہی ہے وضوبنانے جاتے ہیں دیکھتے ہیں کہ مسجد میں پانی ختم ہے یوں واپس آنا پڑتا ہے تو جماعت بھی نکل جاتی ہے،اور نماز سے قبل اللہ کو یاد کرنے کا جذبہ بھی گھڑی کو دیکھنے سے ٹھنڈا پڑتا ہے۔اگرگھڑی کا صحیح استعمال کرتے تو اسکی افادیت اپنی جگہ ہوتی لیکن ہم نے خود ہی اس نعمت کا استعمال صحیح نہیں کیا ۔لہٰذا معلوم ہوا کہ روحانیت اور جدیدیت میں کوئی تضاد نہیں۔روحانیت کے ساتھ ساتھ ہم حالات حاضرہ کے ساتھ چل سکتے ہیں اسلئے اس خوف سے روحانیت کو نہیں چھوڑنا چاہئے کہ روحانیت بھی ہمارے لئے ضروری ہے اور جدید حالات سے بھی راہ فرار نہیں۔