دینی مدارس کا معاشرتی کردار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دینی مدارس کا معاشرتی کردار
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ہمارا پورا ملک اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ مذہبی طبقات ، سیاسی طبقات ، سماجی طبقات ، کاروباری طبقات ، علمی طبقات الغرض ہر طبقے کے افراد اس کا شکار ہیں۔ آئے دن اس کی سرگرمیاں اور وارداتیں عام ہو رہی ہیں بلکہ عروج پر ہیں۔
ہم سب کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ؟ ہمارے تعلیمی اداروں پر حملہ ہوتا ہے ، سیاسی و مذہبی اجتماعات میں دھماکے ہوتے ہیں،قائدین پر خود کش بمبار ٹوٹتے ہیں ، کارکن زخموں سے گھائل ہوتے ہیں، کاروباری مراکز دن دیہاڑے لوٹے جاتے ہیں،سرکاری و نیم سرکاری ادارے ڈکیتی کا شکارہوجاتے ہیں، خواص و عوام بے گناہ شہری ظلم کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ننھی کونپلیں وحشت و سربریت کی بے رحم ہتھیلیوں میں مسلی جاتی ہیں۔ بچوں کو بے دریغ ذبح کردیا جاتا ہے ، ماؤں بہنوں کی عزتیں تاراج ہوتی ہیں۔
ظلم کی کوکھ سےٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، رشوت ، حرام خوری و حرام کاری جیسے مہلک جرائم جنم لے رہے ہیں ، امن و انصاف کا فقدان؛ ہماری زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کو گرم جوشی سے تحفظات فراہم کیے جارہے ہیں اور مظلوموں سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھیے کہ ظلم کی چکی میں ہم سب بلا تفریق مسلسل پِس رہے ہیں۔
لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کی شناخت میں ابھی تک ناکام ہیں اور چند غلط فہمیاں ہمارے درمیان مزید دوریاں پیدا کر رہی ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے دانستہ اور نادانستہ طور پر اس کے تانے بانے مدارس دینیہ سے ملائے جا رہے ہیں۔ جو سراسر غلط ہے۔ مدرسے کے ماحول میں پرورش پانے والا طالب علم ہرگز دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔
اس لیے کہ مدرسے کی چار دیواری میں خدائے رحمان و رحیم کا نازل کردہ دستور حیات قرآن حکیم پڑھا ، پڑھایا، سیکھا ، سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔ جس کی تعلیم کا خلاصہ امن عالم اور دنیوی و اخروی فلاح ہے۔
جو جرائم کو مٹاتا ہے اور کرائم کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی کرتا ہے، جس کا اعلان ازل سے یہی ہے
من قتل نفسا فکانما قتل الناس جمیعا۔
جس نے کسی ایک کی )بے گناہ ( جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔
مدرسے میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ راہنما اصول و قوانین پڑھائے جاتےہیں جو علم سماوی اور وحی الٰہی میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ جس میں اپنے ، پرائے ، بچے ،جوان ، بوڑھے ، مرد ، عورت ، گھر والے ، پڑوس والے ، مسلمان ، کافر، ذمی۔ الغرض ہر شخص کے مکمل حقوق کی ادائیگی اور اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا تحفظ موجود ہے۔ انسان تو انسان رہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین کے مطابق تو پرندے اور جانور بھی اپنی زندگی سکھ سے بسر کر سکتے ہیں۔
مدرسے کا پاکیزہ ماحول ہمارے اخلاقی اقدار اور روایات کا علمبردار ہے ، ہماری اچھی معاشرت کا ضامن ہے ، اس کی تعلیمات میں والدین کا مقام اور ان کی قدر ومنزلت ، خوشحال ازدواجی زندگی ، اولاد سے حسن سلوک ،ان کی تعلیم و تربیت ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں سے شفقت ، یتیموں مسکینوں سے ہمدردی ، نادار اور مفلس عوام کی کفالت ، دکھی اور پریشان انسانیت کی دلجوئی ، مصائب اورآفت زدہ لوگوں سے جذبہ خیرخواہی،آپس میں پیار ومحبت ،انس و مودت ، الفت و اخوت ، ایثار وقربانی اور جانثاری کا درس ہے۔
مدرسہ ہمیں خدا کے قریب کرتا ہے ، نبوت پر ایمان ، اطاعت اور محبت ، قرآن سے عقیدت اور اپنے اسلاف کی نقش قدم پر چلنے کا راہ دکھلاتا ہے۔ صحیح عقائد مہیا کرتا ہے اور باطل نظریات اور ضعیف الاعتقادی سے باز رکھتا ہے۔ نیک صالح معاشرے کے خدوخال سے برائیوں کی گرد ہٹاتا ہے۔
صرف جرائم کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ اسباب جرائم کو بھی جڑ سے اکھاڑنے کی بات کرتا ہے۔ غیبت ، چغلی،گالم گلوچ ، تہمت و اتہام ، بہتان بازی اور دشمنان طرازی ، جاسوسی اوربدنظری کو بھی برداشت نہیں کرتا۔
آسمانی حقائق پر ایمان لاتے ہوئے اگر زمینی حقائق کو نظر انداز نہ کیا جائے تو اس بات کا قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدرسہ ہمیں ایسے جلیل القدر شخصیات فراہم کرتا ہے جس کے ہاتھوں پر لاکھوں بندگان خدا اسلام کے دامن سے وابستہ ہوتے ہیں۔ عالم رنگ و بو میں دین اسلام کی تجدید اور اِحیاء مدرسہ کا درویش خدامست کرتا ہے۔ مسلمانوں کے ملی اور اجتماعی تشخص اور آزادی میں مدارس کا کلیدی کردار ہے۔
اسلام کی نظریاتی سرحدات پر مدرسے کے دستر خوانِ علم کے خوشہ چین ہی مورچہ زن ہیں۔ اسلام اور ارکان اسلام کے متعدد شعبہ جات کی تعلیم دینے والے مدرسے سے میسر ہوتے ہیں ، اہل اسلام کو مذہبی اور سیاسی و سماجی قیادت بھی مدرسہ عطا کرتا ہے۔ آپ غور کریں توآپ کے محلے کی مسجد کا خادم ، موذن ، امام ، خطیب، معلم اور مدرس کہاں سے آتے ہیں ؟ قرآن کریم کی تفسیر ، حدیث و فقہ کی تشریح کرنے والے کہاں سے آتے ہیں؟آپ کے نکاح پڑھانے والے ، آپ کے مسائل کا شرعی حل بتانے والے مفتیان کرام،آپ کے کاروباری زندگی میں شرعی بورڈ کے ذمہ داران،آپ اور آپ کے بچوں کو الفاظ قرآن درست کرانے والے،سمجھانے والے،آپ کی اولادوں کے نام رکھنے والے ، ان کے کان میں اذان و اقامت کے الفاظ پڑھنے والے ، ان کی علمی و عملی تربیت کرنے والے ،عبادات و معاملات میں رہنمائی کرنے والے،حلال و حرام کی پہچان کرانے والے،اقتصادی نظام کو سود کی لعنت سے پاک کرنے والے ،ہمارے مردوں کو غسل دینے والے ، ان کی تجہیز و تکفین کرنے والے ، ان کے جنازے پڑھانے والے ، ان کی تدفین کرنے والے ، ان کے لیے ایصال ثواب کرنے والے …………اس سے بڑھ کر آپ کے طعنے سہنے والے ، آپ کی گالیاں سننے والے ، آپ کی ملامت کا نشانہ بننے والے اور ان کے باوجود آپ کے لیے دعائیں کرنے والے کہاں سے آتے ہیں ؟
آپ اس کے جواب میں مدارس کے علاوہ کوئی اور نام لے سکتے ہیں ؟ آپ کی زبان پر بے ساختہ اس کے جواب مدرسہ نہیں آتا ؟ آپ اس حقیقت کا انکار کریں گے کہ انبیاء کے وارثوں کا یہ طبقہ مدارس میں اپنی زندگی کی بہاریں لٹانے والا ، کسی کی دہشت گردی کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کرنے والاٹھنڈے دل سے غور کریں کہ وہ خود کیسے”دہشت گرد“ہو سکتا ہے ؟؟
اس حوالے سے ہماری حکومت وقت سے بھی یہی گزارش ہے کہ مدارس اسلامیہ کے بارے میں ارباب مدارس کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور باہمی مشاورت سے درپیش صورتحال پر قابو پایا جائے۔ تاکہ ہمارا ملک امن کا بھی گہوارا بنا رہے اور اسلام کا بھی۔
آئین پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی ، لہذا اسلام کی تعلیم گاہیں جہاں مذہب کے استحکام اور بقاء کا ذریعہ ہیں وہیں پر پاکستان اور آئین پاکستان کی پاسبان بھی ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ اسلام کا پرچم بھی بلند رہے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ ہم پر لہراتا رہے۔