خواجہ فریدالدین گنج شکر رحمہ اللہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خواجہ فریدالدین گنج شکر رحمہ اللہ
……… مولانامحمدطارق نعمان
اللہ والے وہ ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کہ اللہ یاد آجاتاہے ان کے کام اورمقام کواللہ پاک بلند کردیتاہے وہ دنیامیں ہوتے ہیں توان کے چاہنے والے انہیں بلندیوں میں دیکھتے ہیں اورجب دنیاسے جاتے ہیں تووہ چاہنے والوں کے دلوں میں رَس بس جایاکرتے ہیں ان ہی اللہ والوں میں ایک عظیم ولی ،صوفی باصفا،عظیم شاعر وعظیم روحانی شخصیت جناب حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں ان کی زندگی پہ ہی صرف اگر لکھاجائے توایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے آئیے گلشن گنج شکر کی سیر کرتے ہیں۔
جناب فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بنیاد مانے جاتے ہیں۔ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی دنیا کو پہچان کروائی۔ انہوں نے زندگی بھر قرآن وسنت کے پرچم کوبلند رکھا،اوصاف حمیدہ اوراخلاق کریمہ کاایک سنہری باب آپ کی زندگی کے ساتھ منسلک ہے
بابا فرید29شعبان المعظم 569ھ کو ملتان کے ایک قصبے کھوتوال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ سیرالعارفین کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔ کچھ روایات کے مطابق آپ کا سلسلہ خلیفہ دوم حضرت عمر کے ساتھ جا ملتا ہے۔ آپ کے دو بھائی عزیز الدین اور نجیب الدین تھے۔
شجرہ نسب:
حضرت بابافریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ بن حضرت شیخ جمال الدین سلیمان بن شیخ محمد شعیب بن شیخ محمداحمد بن شیخ محمدیوسف بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کابلی بن شیخ نصیرالدین محمودبن شیخ سلیمانی ثانی بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ واعظ الاصغربن شیخ ابوالفتح واعظ الاکبربن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن ادھم بن شیخ سلیمان اول بن شیخ منصور بن شیخ ناصر بن حضرت شیخ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن امیرالمؤمنین خلیفہ ثانی ،مرادرسول وسسررسولﷺ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔۔
ازدواجی زندگی:
حامد بن فضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ فرید الدین رحمہ اللہ نے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔آپ رحمہ اللہ کے 5صاحبزادے اور3صاحبزادیاں تھیں۔
صاحبزادے :

شیخ شہاب الدین المعروف گنجِ عالم رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ بدرالدین سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ محمدیعقوب رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ نصیرالدین نصراللہ رحمہ اللہ
صاحبزادیاں:

بی بی مستورہ رحمۃ اللہ علیھا

بی بی شریفہ رحمۃ اللہ علیھا

بی بی فاطمہ رحمۃ اللہ علیھا
چشتیہ سنگت:
بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔اپنے پیرومرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔
پیرومرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور قطب الدین بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ اور حضرت محبوبِ الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے مرشد تھے۔
پاکپتن فرید الدین﷫ کامسکن:
کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشیں ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے گئے۔ شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔
پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔
خشیت الٰہی اوربابافرید:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہواتوآپ کے چہرے کارنگ متغیر تھااورسر برہنہ تھا،حجرے میں والہانہ طور پرٹہل رہے تھے اوریہ شعر پڑھ رہے تھے(فوائدالفواد)
خواہم کہ ہمیشہ در وفائے توزیم

خاکے شوم ، و بزیر پائے توزیم

مقصود خستہ ز کونین توئی
 
از بہر تو میرم از بہر

توزیم

ترجمہ: میری آرزو ہے کہ ہمیشہ آپ کی وفادار میں زندہ رہوں اورآپ کی خاک پابن کرآپ کے پاس رہوں ،اس خستہ حال کاکائنات میں مقصودصرف آپ ہیں۔آپ ہی کے لیے مرنااورجیناہے۔
یہ شعر پڑھ کرآ پ اپناسر سجدہ میں رکھ دیتے ،پھراٹھ کرٹہلناشروع کردیتے اوریہ شعر پڑھتے ہوئے پھر سجدہ ریز ہوجاتے۔
فرامینِ خواجہ فریدالدینؒ:
بابافریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے چندفرامین کوقرطاس پہ لایاجاتاہے۔

انسانوں میں رذیل ترین وہ ہے جوکھانے پینے اورپہننے میں مشغول رہے۔

جوسچائی جھوٹ کے مشابہہ ہواسے اختیارمت کرو۔

نفس کواپنے مرتبہ کےلئے خوارنہ کرو۔

اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتے ہوتوبادشاہوں کی اولادسے دوررہو۔

جب کوئی مومن بیمارہوتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ یہ بیماری اس کےلئے رحمت ہے۔جوگناہوں سے اس کوپاک کرتی ہے۔

دوریش فاقے سے مرجاتے ہیں مگرلذت نفس کےلئے قرض نہیں لیتے۔

جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہے وہ دل زندہ ہے اورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔

وہ شے بیچنے کی کوشش نہ کروجسے لوگ خریدنے کی خواہش نہ کریں۔

اچھائی کرنے کےلئے ہمیشہ کسی بہانے کی تلاش میں رہو۔

دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے سوچوکہ تم اپنی ذات سے اچھائی کررہے ہو۔

ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔

وہ لوگ جودوسروں کے سہارے جینے کاارادہ رکھتے ہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتے ہیں۔

اطمینان قلب چاہتے ہوتوحسدسے دوررہو۔
گھرگھر میں آگ :
پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں ایک قاضی موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو اذیت پہنچاتے تھے لیکن فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
ان مشکلات کے باوجود بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔
میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ

سبھائے جگ

اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر

ایہو اگ

ترجمہ: میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔
بابا فرید کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں۔
فریدا خالق خلق میں، خلق

وسے رب مانہہ

مندا کس نوں آکھیے، جاں

تس بن کوئی نانہہ

ترجمہ : فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے۔
فریدا خاک نہ نندئیے خاکو

جیڈ نہ کوئے

جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں

اپر ہوئے

ترجمہ: فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاؤں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے۔
ایک نایاب جملہ :
خواجہ فریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے صحن میں ایک ٹیلہ ہے اس پہ ایک نایاب جملہ لکھاہواہے جس میں سارے حروف تہجی موجود ہیں”ذاراسی ژالہ باری چاندی کے ڈھیروں کی مثل بڑے غضب کانظارہ دیتی ہے “
اپنی ماں کے قدموں میں:
ایک مرتبہ فریدالدین گنج شکر رحمہ اللہ اپنی ماں کے پاس آئے قدموں میں بیٹھ گئے اورپاؤں دبانے لگے اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ اماں جان !اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ یہ کرامات عطا فرمائی ہیں۔ میں دریاپہ جاتاہوں اللہ راستہ بنالیتاہے ،میں ریت اورمٹی پہ اللہ کانام لیتاہوں تواللہ پاک اسے شکر بنادیتاہے ،اللہ کی ساری مخلوق میرااحترام کرتی ہے ،ماں نے کہابیٹے !یہ سب کرامتیں میری ہیں۔
فریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:امی جان وہ کیسے؟
ماں نے کہا:میرے نورِ نظر !میں نے دوسال آپ کودودھ پلایااللہ پاک کے فضل وکرم سے میں نے کبھی بھی آپ کوبے وضودودھ نہیں پلایا:میں ہمیشہ آپ کوباوضودودھ پلاتی اوردودھ پلاتے وقت ساتھ ساتھ قرآں کی تلاوت بھی کرتی رہی۔
بابافریدالدین رحمۃ اللہ علیہ ماں کے قدموں میں گر پڑے اورکہااماں جان میراوجود میرے اعزازات یہ سب آپ ہی کی کرامت ہے ،سچ کہاکچ کہنے والوں نے ”ماں کی دعا،جنت کی ہوا“دنیامیں جتنے بڑے لوگ ہیں بشمول حضرت بابافریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے سب کی عظمت وشان میں ماں کابہت بڑاہاتھ ہے
نمازتوایک بہانہ تھا:
حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ کاوقت آخرآیاتوعلالت شدید ہوگئی حتیٰ کہ عشاءکی نمازکی ادائیگی کے دوران بیہوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیاتوپوچھا:کیامیں نے عشاءکی نماز مکمل کر لی ہے؟عقیدت مندوں نے عرض کیا:بے شک۔آپ نے فرمایا:پتہ نہیں بیہوشی کی وجہ سے کوئی رکن پوراادا نہ ہواہو،دوبارہ پڑھ لوں۔ چنانچہ آپ نے دوبارہ پڑھی۔پھر بیہوش ہوگئے اسی طرح آپ کے ساتھ تین دفعہ ہوا۔دراصل نماز توایک بہانہ تھاوصالِ دوست کے لیے ، محبت کااظہار تھاحاضریِ دربار کے لیے۔
آخری لمحات :
علالت کے دوران آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ جس کی خاطرتمام مخلوقات پیداکی گئی اورجس کی دوستی کی خاطر اللہ پاک نے اپنی سلطنت ظاہر کی اسے اس جہاں سے اٹھالیاگیاہم تم کس گنتی میں ہیں۔ پس ہمیں بھی مردہ ہی شمارکرناچاہیے۔ ہاں البتہ توشئہ آخرت کی فکر کرناضروری ہے اورغفلت میں مشغول نہیں ہوناچاہیے تاکہ قیامت کے دن شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
آپ نے اپنے مریدوں کوکہاکہ مجھے کچھ دیر کے لیے تنہاچھوڑ دو۔چنانچہ سبھی لوگ چلے گئے ،کچھ دیر کے بعد حجرہ سے آواز آئی ”اب دوست ،دوست سے ملے گا“چنانچہ اسی کیفیت بے خودی واشتیاق میں 93سال کی عمر پا کر5محرم الحرام 664ھ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
کوئی بن گیارونق پکھیاں دی،کوئی

چھوڑ کے شیش محل چلیا

کوئی پلیانازتے نخریاں وچ،کوئی

ریت گرم دے تھل چلیا

کوئی بھل مقصدآون دا ، کوئی کر

کے مقصد حل چلیا

اتھے ہر کوئی

”فرید“مسافراے،کوئی اج چلیاکوئی کل چلیا