یتیم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
یتیم
………مولانا امان اللہ حنفی
انکل! آج میں نے اسکول کی فیس لے کر جانی ہے۔
یہ کہنے کی دیر تھی اور اس کے منہ پر طمانچہ لگا۔
اشفاق غصہ کی وجہ سے آپے سے باہر ہو گیا کیونکہ وہ یوسف سے تنگ آچکا تھا، میں نے کتنی بار کہا کہ مجھ سے خرچ نہ مانگا کرو! پھر تم مجھے کیوں تنگ کرتے ہو، اپنی منحوس شکل لے کر دفع ہوجاؤ میرے سامنے سے۔
مگر یوسف اپنی جگہ کھڑا رہااس کے رخساروں ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے اور وہ زار و قطار روئے جا رہا تھا۔
اشفاق ایک بار پھر غصے میں یوسف کو دیکھتے ہوئے۔ کہا ناں چلے جاؤ!میرے سامنے سے۔ یوسف روتے ہوئے بولا :انکل! سر مجھے ہفتے سے روزانہ فیس نہ لے کر آنے کی وجہ سے سزا دیتے ہیں۔
انکل! کیا میرا قصور یہی ہے کہ میرے والدین اللہ کو پیارے ہوگئے۔
انکل !کیا مجھے اس جرم کی سزا مل رہی ہے کہ میں” یتیم“ ہوں۔
انکل! اگر آپ کے پاس مجھے دینے کے لیے 50 روپے فیس نہ تھی تو آپ نے بھری محفل میں یہ نہ کہا ہوتا کہ یوسف آج کے بعد اشفاق کا بیٹا ہے بلکہ مجھے یا تو کسی اور چاچو کے پاس رہنے دیتے یا پھر مجھے اس جرم کی سزا نہ دو (اب یوسف روتے ہوئےاپنی بات انکل سے چاچوتک لے آیا تھا)
چاچو! ایک وقت تھا کہ جب آپ میرے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے، جب آپ کام سے واپس آتے تھے، آپ کو اس وقت تک سکون نہیں آتا تھا جب تک آپ میرے گال پر پیار نہ کرلیتے اور بدلے میں مجھے بھی کہتے تو بھی تو پیار دے۔ آپ رات کو اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک میں آپ کے پیٹ پر بیٹھ کر کھیل نا لیتا تھا۔
اس سارے معاملے کی وجہ یہ ہے کہ آپ مجھے پیار کرتے تھے، جب تک آپ کا بیٹا مشتاق پیدا نہیں ہوا تھا، اس کے پیدا ہوتے ہی آپ نے مجھ سے طوطے کی طرح آنکھیں پھیری۔ جو آپ کے دل میں میری محبت تھی وہ صرف ختم ہی نہیں بلکہ نفرت میں بدل گئی۔
اسی کے ساتھ پٹاخ پٹاخ کی دوتین بار پھر آواز کہ چاچو اشفاق اپنے بھتیجے کی گال پر دو تین طمانچے پھر رسید کر چکے تھے۔
جب تمہیں کہا ہے کہ میرے سامنے سے دور ہوجاؤ زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں تیری زبان کھینچ لوں گا یہ کہتے ہوئے ایک اور زور دار تھپڑ رسید کیا۔ چل اپنے کپڑے اٹھا اور میں تجھے کسی مدرسہ میں داخل کراتا ہوں یہ کہتے ہوئے یوسف کو کمرے کی طرف دھکا دیا۔
یوسف بھی ان کے رویے سے تنگ آچکا تھا،اس نے روتے ہوئے غصے کی حالت میں ضروری چیزیں لیں اور باہر نکل آیا۔ مدرسہ اشفاق کے گھر سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
اشفاق؛ یوسف کو مدرسے چھوڑ آیا۔
وقت گزرتا رہا۔ صبح و شام ڈھلتے رہے۔ نہ کبھی یوسف نے اپنے چچا کے گھر آکر چچا کا دل دکھانے کا سوچا اور نہ چچا نے کبھی یہ سوچا کہ جاکر اپنے منہ بولے بیٹے کو جا کر مل آئے۔
ہاں اتنا ضرور تھا کہ جب بھی چھٹیاں ہوتی تو یوسف ایک خط لکھتا اپنے چچا کے نام اور اس میں لکھتا ابو جی میری چھٹیاں ہوگئی ہیں اگر مناسب سمجھو تو مجھے مدرسہ سے گھر لے جاؤ کیونکہ چھٹیوں میں مدرسہ بند ہوجائے گا، مگر اشفاق نہ جاتا اور نہ جانا تھا۔
یوسف اپنے استاد کے ہاں چھٹیاں گزار لیتا دوسری طرف اشفاق نے اپنے بیٹے مشتاق کو اچھے اسکول میں داخل کروادیا خود صبح اسکول چھوڑنے جاتا اور واپس بھی خود ہی لے کر آتا۔
وقت کا پرندہ اڑتا رہا اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مشتاق بری صحبت کی وجہ سے بگڑتا چلا گیا جس وقت مشتاق نویں کلاس میں پہنچا پھر تو پہلے رات کو دیر سے گھر آنا شروع ہوا ماں باپ کچھ کہتے ہیں تو ان سے لڑنا شروع ہوجاتا تھا۔
پھر راتوں کو بھی غائب رہنا شروع ہوگیا، کبھی گھر آجاتا کبھی نہ آتا ساری ساری رات اپنےبرے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کربے ہودہ ویڈیوز دیکھتا، پڑھائی کی طرف سے بالکل صفر ہوگیا۔ اسکول جانا بھی چھوٹ چکا تھا، اب تو گھر بھی کبھی کبھی آتا اور کھانا کھاتا اور پیسے لیتا اور نکل جاتا پھر مشتاق کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟ کسی کو کچھ علم نہ ہوتا تھا۔ اشفاق کی پریشانی برابر بڑھتی جارہی تھی کہ آخر کرے تو کیا کرے ؟ ہر وقت ذہن پر ایک ہی بات سوار رہتی کہ بڑھاپے میں میرا سہارا کون بنے گا؟ اب تو نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ پولیس بھی مشتاق کی تلاش میں عموماً گھر کا چکر لگاتی کہ فلاں جگہ کی چوری میں فلاں جگہ ڈاکے میں مشتاق بھی ملوث ہے۔ایک مرتبہ اشفاق انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اشفاق بوجھل قدموں کے ساتھ دروازے تک گیا کہ کہیں پولیس نہ ہو مگر آگے کیا دیکھتا ہے باہر دو شخص کھڑے ہیں جن کے سروں پر عمامے تھے اور وہ دونوں سفید لباس زیب تک کیے ہوئے تھے۔ دروازہ کھلتے ہی ایک نوجوان نے سر جھکالیا اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے اورآگے بڑھ کر اشفاق کے گلے لگ گیا اور ساتھ ساتھ کہہ رہا تھا: ابو جی میں آپ کو منانے آیا ہوں !ابو جی اللہ کے لیے مجھے معاف کر دیں۔ ابو جی! اس بھری دنیا میں میرے صرف آپ ہی ہیں۔ یہ الفاظ مشتاق کے نہیں بلکہ اس کے منہ بولے بیٹے یتیم یوسف کے تھے۔ اشفاق کے پاس کہنے اور بولنے کے لیے الفاظ نہیں تھے، وہ صرف یوسف کے جواب میں رو ہی سکتا تھا، بے چارہ حالات کا مارا ہوا اشفاق کہتا بھی تو کیا کہتا؟ جس بیٹے پر ناز کرتا تھا آج اس کا پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟
ابو جی! کل میری اختتام بخاری ہے اورمیں چاہتا ہوں کہ آپ اس تقریب میں ضرور تشریف لائیں ، اور ہاں ابو جی یہ میرے استاد محترم مولانا محمدارشد ہیں ،مولانا محمدارشد صاحب نے بھی کہا :محترم !کل آپ نے ضرور آنا ہے, آپ کے بیٹے کی تقریب دستار بندی ہے۔ اشفاق دس گیارہ سال کے بعد دوبارہ اس مدرسہ میں آیا تھا۔ اب تو مدرسہ بھی کافی ترقی کر چکا تھا ، یہاں پر پڑھنے والے بچوں کا سفید یونیفارم تھا ، نورانیت ان کے چہروں سے ٹپک رہی تھی ، یہ وہ بچے تھے جنہوں نے مدرسے کے ماحول میں رہ کر جہاں دینی تعلیم حاصل کی تھی وہیں پر ان کی اخلاقی تربیت بھی خوب ہوئی تھی۔ بڑوں کا ادب و احترام، چھوٹوں سے شفقت اور اساتذہ کی اطاعت گزاری۔
مدرسہ کا یہ سہانا ماحول اشفاق کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ، وہ سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اس کی سماعتوں سے ”محمد یوسف “کے الفاظ ٹکرائے۔ اسے یوں لگا جیسے وہ سکتے سے باہر آ گیا ہو۔ اشفاق کی خوشی دیدنی تھی، اشفاق خوشی سے آنسو بہارہا تھا اور وہ یوسف سے کس قدر خوش تھا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اختتام تقریب پر سب ایک دوسرے کو مبارک دے رہے تھے، اشفاق کو خود کو سنبھالتے ہوئے آگے بڑھا اور یوسف کی پیشانی پر بوسہ دے کر مبارک باد دینے لگا۔ مبارک ہو بیٹا آپ نے اپنی دنیا بھی بنا لی اور آخرت بھی۔ بیٹا بتاؤ آپ کو چھٹی کب ہوگی؟ میں آپ کو لینے آجاؤں گا۔ جواب میں یوسف جو کافی دیرسے ضبط کیے ہوئے تھا فورا ًاشفاق کے گلے لگ گیا۔