روشنی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">روشنی

………محمد آ صف، سرگودھا
میری والدہ کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ اس واقعے نےان کو عبادت میں اور نیک کاموں میں زیادہ مشغول کردیا اور ایمان و یقین میں بھی اضافہ ہوا۔
میری والدہ ایک نیک عورت اور عبادت گزار خاتون ہیں امی جان کو تمام دعائیں یاد ہیں اور اہتمام سے پڑھتی ہیں اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے99 نام بھی الحمدللہ یاد کر لیے ہیں اور روزانہ ان کی تلاوت بھی فرماتی ہیں، اس واقعہ سے پہلے کے حالات زندگی بتانا مناسب سمجھتا ہوں پھر وہ واقعہ امی جان کی زبانی سنتے ہیں۔
وہ واقعہ پیش آنے سے پہلے گھریلو حالات بھی کمزور تھے اور ہم دین سے بھی بہت دور تھے ،ہمارے گھر صرف ایک چیز تھی وہ بھی امی جان کا صبر وتحمل ،کوئی بھی ایسی کوئی نامناسب بات پیش آتی تو تمام گھر والوں کے صبر کے پیمانے ٹوٹ جاتے اور ہم بدلہ لنے کو تیار ہوجاتے لیکن امی جان بڑے احسن انداز سے ہمیں صبر کی تلقین کرتیں اور سمجھاتی کہ اگر ہم بدلہ لیں گے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہوگا؟ بس صبر کرو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے گا۔
پھر امی جان کے ہاتھ ایک دفعہ ایک ورق آیا جس پہ لکھا ہوا تھا کہ (میں نے ان کی اولاد سے بہت کچھ پایا) حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کے وظائف لکھے ہوئے تھے ہر دن کے اعتبار سے کہ فلاں دن یہ کلمات پڑھنے سے مال میں برکت ہو فلاں دن یہ پڑھنے سے قبر کا عذاب نہ ہوگا فلاں دن یہ کلمات پڑھنے سے روزی غیب سے ملے، تو امی جان نے وہ وظائف بڑی پابندی کے ساتھ پڑھے کہ حق ادا کردیا۔ صبح ہوتے ہی امی جان کی زبان پر دن کے اعتبار سے کلمات جاری ہوجاتے پھر آہستہ آہستہ ہم سب گھر والے نمازی بن گئے اور دین کے کاموں میں حصہ لینے لگے، ایک دفعہ میری نانی جان جو کہ بہت ضعیف ہوچکی تھیں، امی جان کو خدمت کا موقع مل گیا امی جان نے اتنی خدمت کی اللہ کو راضی کرنے کے لیے اور اپنا حق سمجھ کر کہ ایک دفع نانی جان نے امی جان کو کہا کہ بیٹا تو نے تو اسی جہان میں حساب دے دیا میری اتنی خدمت کر کے اور نانی جان ضعیف ہونے کی وجہ سے باتوں کی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی لیکن دعائیں دیتے دیتے اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئی اللہ تعالی میری نانی جان کی قبر کو جنت کا باغ بنادے۔ (آمین)
امی جان کہتی ہیں کہ میں شوال کے چھ روزے میں تقریبا دس سال سے رکھ رہی ہوں اور نماز تہجد 4سال سے پڑھ رہی ہوں۔اس دفعہ بھی شوال کے روزے رکھے اور ہوا یوں کہ چھ شوال اور سات شوال کے درمیان والی رات کو تقریبا ساڑھے تین بجے تہجد کی نماز سے فارغ ہوکر میں برتن دھو رہی تھی اور ساتھ ساتھ کلے کا ورد کررہی تھی کہ اچانک آسمان سے ایک خاص روشنی نمودار ہوئی روشنی کا رنگ نیلا تھا وہ روشنی میرے اوپر تقریبا تین سے چار سیکنڈ تک رہی اس روشنی کے ساتھ آواز بھی سنائی دی جو کہ وہ آواز مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تھی میرے اوپر خوف طاری ہوگیا تو میں کلمے کا ورد اونچی آواز سے کرنے لگی جب روشنی کے آثار ختم ہوگئے تو میں نے آسمان کی طرف بڑے حوصلے کے ساتھ دیکھا کہ یہ روشنی کسی چیز کی تھی؟ جب میں نے آسمان پر مغرب کی جانب دیکھا کہ یہ روشنی ایک قطار کی صورت اختیار کرچکی تھی میں نے کلمہ کا ورد جاری رکھا دوسری اور کوئی نشانی نہ رہی میں نے جلدی جلدی برتن دھوئے اور یہی سوچتے سوچتے روزہ رکھا کہ وہ روشنی کسی چیز کی تھی؟ میں نے سوچا کہ صبح گاؤں میں شور ہوگا کہ رات کو آسمان سے نیلے رنگ کی روشنی ظاہر ہوئی تھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ مسجد سے اذان شروع ہوگئی۔ اذان کے بعد میں نے تمام گھر والوں کو اٹھایا بڑے نماز پڑھنے مسجد چلے گئے چھوٹے بچوں نے میرے ساتھ گھر میں نماز پڑھی جب مسجد سے نماز پڑھ کر گھر آئے تو میں نے دیکھا کہ ایسی کوئی بات نہیں سنا رہے جو رات کو میں نے دیکھا تھا۔
بچے اور بڑے قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے میں نے سوچا کہ اپنے بیٹے آصف کو یہ قصہ سناتی ہوں وہ کسی عالم با عمل سے پوچھے گا کیونکہ آصف کا رابطہ اکثر علماء کرام سے ہوتا رہتا ہے، تو امی جان نے سارا قصہ مجھے سنایا میں رات والا واقعہ سن کر حیران ہوگیا اور میری آنکھیں خوشی سے بھر آئیں کہ یہ کوئی اللہ کا خاص انعام ہوگا، اس کے بعد میں نے کئی علماء کرام سے فون پر رابطہ کیا سارا واقعہ سنایا لیکن مجھے تسلی بخش جواب نہ ملا تو ایک مرتبہ سرگودھا شہر میں ایک رات عشاء کے بعد پروگرام کانفرنس تھی وہاں ایک مفتی صاحب سے پوچھا وہ سارا واقعہ سن کر کہنے لگے کہ کیا آپ کی والدہ حیات ہیں؟ میں نے کہا جی حیات ہیں، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ گاؤں میں نکاح کے عنوان پر ایک پروگرام تھا جس میں ہمارے ملک کے نامور عالم دین کا تھا، حضرت مفتی صاحب پروگرام کے بعد ہمارے گھر تشریف لے آئے کیونکہ رات کا کھانا ہماری طرف سے تھا کھانے کے بعد سونے کی تیاری کرر رہے تھے تو میں نے وہ سارا واقعہ حضرت جی کو سنایا حضرت مولانا مفتی صاحب وہ قصہ سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے اور اس کے بعد مجھے ایک صحابی حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کا قصہ سنایا اور فرمایا وہ روشنی فرشتہ تھا میں جلدی جلدی بیٹھک سے نکلا گھر میں سب اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے بڑے بھائی جان وہ بھی چھٹی آئے ہوئے تھے ابو جان بھی موجود تھے میں سب کو اپنی طرف متوجہ کر کے بتایا وہ روشنی ایک فرشتہ تھا، سب کی زبان سے نکلا سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
اب اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے ایک صبر کی برکت سے۔