متکلم اسلام کے دورہ ہانگ کانگ کی سرگزشت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
متکلم اسلام کے دورہ ہانگ کانگ کی سرگزشت
……شاہد اقبال، ہانگ کانگ
ہانگ کانگ مختصر تعارف:
ہانگ کانگ عوامی جمہوریہ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہے، اس کی موجودہ آبادی تقریباً 72 لاکھ پر مشتمل ہے ،جبکہ 1848 میں اسکی آبادی صرف 24000 نفوس تھی، اور رقبہ 1108 مربع کلو میٹر ہے،یہاں کی سرکاری زبان انگریزی اور کینٹو نیز چینی ہے، اس کے دارالحکومت کا نام وکٹوریہ ہے، جو کہ ملکہ وکٹوریہ سے منسوب ہے،چینی زبان میں ہانگ کے معنی خوشبودار اور کانگ کے معنی بندرگاہ ہے، یعنی خوشبودار بندرگاہ، اس کے نام رکھنے وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ موجودہ ایبرڈین (Aberdeen)جو کہ ایک جگہ کا نام ہے، وہاں خوشبودار لکڑ اور اگر بتی کا بیوپار ہوتا تھا جس سے اس کا نام ہانگ کانگ پڑ گیا۔ ہانگ کانگ 1841 سے لیکر 1997 تک برطانیہ کا حصہ اور اس کی نو آبادی رہا ہے، (1941 سے 1945 تک کی جاپانی حکمرانی کو چھوڑ کر)42-1839 کی افیون جنگ میں چینیوں کی شکست کے باعث برطانیہ نے ہانگ کانگ آئی لینڈ (جزیرہ) کو قبضے میں لے لیا تھا، بعد ازاں1860 کے اندر جزیرہ نما کولون کو بھی قبضے میں لے لیا، اس کے بعد باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت چین نے 1898ء بشمول خطہ نئی آبادی کے برطانیہ کو ننانوے سال کیلئے پٹے(لیز) پر دے دیا تھا۔
دوسری جنگ عظیم (45-1941) میں جاپانیوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا، 18 دن کی شدید جنگ کے بعد ، گورنر مارک ینگ (Mark Young)نے مغلوب ہونے کے بعد 25 دسمبر 1941 کو ہتھیار ڈال دیے، یاد رہے اس دن عیسائیوں کی کرسمس کا دن تھا، یوں یہ دن سیاہ کرسمس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، 1941 میں ہانگ کانگ کی آبادی 16 لاکھ تھی، جنگ کے بعد، حالات دگرگوں ہو گئے ، ضروریات اشیاء کی قلت اور اتحادیوں کے حملے کے پیش نظر ایک خاص پالیسی کے تحت لوگوں کو ملک بدر کر دیا گیا اور یوں لوگ چین جانے پر مجبور ہو گئے، جس کے باعث ہانگ کانگ کی آبادی1945 تک سُکڑ کر صرف چھ لاکھ رہ گئی ، جاپانیوں کا یہ دور ظلم اور بربریت کی داستان ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق 1941 جنگ میں فتح کے بعد دس ہزار سے زائد چینی عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر،ایک طرف سوویت یونین نے مان چوریا "Manchuria" (موجودہ چین کا شمالی علاقہ جس میں لیاؤنِنگ، جی لیِین، ہئی لیونگ جیانگ شامل ہیں) جہاں جاپانیوں کا قبضہ تھا، کی جانب پیش قدمی کی۔
دوسری جانب امریکا نے 8 اگست 1945 کو ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا اور تین دن کے بعد ایک اور ایٹم بم ناگاساکی پر گرایا جس کے نتیجے میں جاپان نے بھی ہتھیار ڈال دیےاور یوں ہانگ کانگ دوبارہ برطانیہ کی حکمرانی میں آ گیا ، جاپانیوں کا قبضہ 3 سال اور 8 مہینے رہا۔
1997 میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کر دیا تھا ، یہاں کا آخری برطانوی گورنر کرس پیٹن (Chris Patten )تھا، اور اب ہانگ کانگ چین کا ایک ”صوبہ“ ہے، اور یہ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ کہلاتا ہے یہ چین کا حصہ تو ہے لیکن یہاں کا نظام چین سے مختلف ہے، دفاع اور خارجہ پالیسی چین کی ہے، جبکہ کرنسی، ویزا، اور دیگر سسٹم الگ ہے، اسے ون کنٹری ٹو سسٹم یعنی ایک ملک دو نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ کو عالمی شہر ، دنیا کا کروڑ پتی یا ارب پتی شہرکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، دس بڑے کروڑ پتی شہروں میں ہانگ کانگ سر فہرست ہے۔
یہاں کے لوگ مچھلی، جھینگا، کیکڑا اور نوڈلز بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ عام طور پر لوگ کھانا باہر ہی کھاتے ہیں، گھر کھانا پکانے کا رواج کم ہی ہے ، چینی کھانے دنیا بھرمیں متوازن غذا کے طور پر بہت مشہور ہیں ، یہ لوگ اپنے کھانوں میں مچھلی اور سبزی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اور تینوں وقت کے کھانے پابندی سے وقت پر کھانے کے عادی ہیں اور اپنی صحت کے بارے میں یہ لوگ بہت سنجیدہ ہیں اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے روزانہ ورزش کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ہانگ کانگ کے لوگ وقت کے بہت پابند ہیں، کام کے وقت کام اور کھیل کے وقت کھیل، خواندگی کی شرح تقریباً صد فیصد ہے، یہاں کی کرنسی ہانگ کانگ ڈالر کہلاتی ہے جس کا ایک ڈالر پاکستانی تیرہ روپے کے برابر ہے، ایک وقت تھا جب پاکستان کی کرنسی ہانگ کانگ سے بھی مضبوط تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب راقم الحروف کے والد 70-60 کی دہائی میں پہلی دفعہ یہاں آئے تھے۔
ہانگ کانگ دنیا کے بینکنگ نظام اور لین دین کا مرکز ہے، دنیا کی تقریباً تمام بڑی کمپنیوں کے دفتر یہاں موجود ہیں،یہ ایک آزاد بندرگاہ کی وجہ سے بھی مشہور ہے
ہانگ کانگ میں اسلام اور اہل اسلام کی مختصر تاریخ:
ہانگ کانگ میں تقریباً چار لاکھ مسلمان آباد ہیں جن میں زیادہ تر تعداد انڈونیشین خدامہ کی ہےجو یہاں گھروں میں کام کرتی ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق انکی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے، دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے، اس کے علاوہ انڈین ، بنگلہ دیشی، افریقن مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے،تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے جو مسلمان یہاں پہنچے ہیں وہ کلکتہ اور ممبئی سے تھے، اور یہ تقریباً1830 کے آس پاس کا وقت تھا جب ایسٹ انڈین کمپنی کے بحری جہاز ہندوستان سے آ کر یہاں لنگر انداز ہوئے۔
یہاں چھ مساجد ہیں اس کے علاوہ چھوٹے بڑے مدرسوں اور مصلّوں کی تعداد 30 ہے۔ ختم نبوت موومنٹ کے سرپرست قاری مولانا محمد طیب قاسمی نے سب سے پہلے یہاں مدارس اور مصلّوں کی بنیاد رکھی، قاری صاحب کی نگرانی میں اس وقت 9 مدرسے ختم نبوت کے نام سے چل رہے ہیں۔
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن کی ہانگ کانگ آمد:
ہانگ کانگ کی اقراء فاؤنڈیشن کی دعوت پر، متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ بانی و امیر عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت 12 فروری کی شب دس بجے ہانگ کانگ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے جہاں ان کا پر تپاک استقبال ہانگ کانگ کی سب سے بڑی کولون مسجد اور اسلامک سنٹر کے چیف امام مفتی محمد ارشد نے کیا۔
استقبالیہ میں دیگر مساجد کے ائمہ میں ،حال ہی میں قائم کی گئی یاؤ ما تی مسجد ابراہیم کے امام حافظ محمد زبیر، تُنگ چھُنگ مدرسہ کے امام مفتی عبدالحفیظ، چھن ون مدرسہ کےمولوی حافظ محمد الیاس شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ کی دیگر معروف شخصیات میں خان جہانزیب. حاجی شبیر آف کشمیر ٹرانسپوٹ، چوہدری افتخار ، چوہدری ریاض گجر ، پروفیسر انوارالحق ، ساجد ریان ، امسوا کمپنی کے جنرل مینیجر محمد اقبال، اقراء فاؤنڈیشن کی جانب سے شہزاد فیصل اور دیگر افراد موجود تھے۔
متکلم اسلام کے ہانگ کانگ میں شب و روز:
12 فروری : جمعرات کی شب ائیر پورٹ سے رات قیام کے لیے اپنے مرید خاص عرفان منہاس جن کا تعلق پاکستان کے شہر چکوال سے ہے، کے گھر تشریف لے گئے جہاں طعام کے بعد حضرت نے آرام فرمایا۔
13 فروری : بروز جمعۃالمبارک ہانگ کانگ کی مرکزی مسجد اور اسلامک سنٹر کولون مسجد میں متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن نے توحید و رسالت کے موضوع پر جامع خطاب فرمایا، اور قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل گفتگو فرمائی جس سے ہانگ کانگ کے مسلمانوں نے خوب استفادہ کیا ، خطابِ جمعہ کے بعد مولانا یاؤما تی کی مسجد ابراہیم میں تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ساتھیوں سے ملاقات کی اور کافی تعداد میں لوگوں نے حضرت الشیخ کے ہاتھ پر بیعت کی، شاید بہت کم لوگ اس سے واقف ہیں کہ مولانا پیر اور شیخ بھی ہیں اور چاروں سلسلہ تصوف، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ سے منسلک ہیں۔یاد رہے کہ متکلم اسلام پیر طریقت مولانا محمد الیاس گھمن کو سلاسل اربعہ میں شیخ العرب والعجم عارف باللہ مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمہ اللہ اور قطب العصر مولانا سید محمد امین شاہ رحمہ اللہ سے خلافت اور اجازت بیعت حاصل ہے، اس کے علاوہ حضرت کوفضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی مدظلہ اور پیر عزیز الرحمٰن ہزاروی مدظلہ سے بھی خلافت اور اجازت بیعت حاصل ہے۔
شام کو جناب چوہدری افتخار جن کا کم تھین میں یارڈ ہے، کی خصوصی دعوت پرپاکستان کلب میں حضرت الاستاد تشریف لے گئے ، جہاں خواص کے ساتھ نشست اور پر تکلف دعوت ہوئی، جس میں پاکستان قونصل جنرل کے نائب ، مختلف مساجد کے ائمہ بالخصوص کولون مسجد کےچیف امام مفتی محمد ارشد، مفتی شعیب ، مفتی زمان ،مفتی عبدالحفیظ ، مولانا صداقت ، مولوی محمد الیاس، قاری محمد اویس، حافظ محمد علی ، حافظ محمد ساجد، حافظ نسیم نقشبندی اور دیگر ائمہ اور حفاظ نے شرکت کی اس کے علاوہ کاروباری حضرات میں امسوا کے عبدالستار ، امسوا کے جنرل مینیجر محمد اقبال،محمد الیاس ایلکس ، شریک ہوئے،حضرت الاستاد دعوت سے فارغ ہونے کے بعد رات گیارہ بجے قیام گاہ پہنچے اور آرام فرمایا۔
14 فروری: بروز ہفتہ صبح ساڑھے پانچ بجے حضرت الاستاد فجر کی نماز کیلئے مسجد ابراہیم تشریف لے گئے، جو کہ قیام گاہ سے تقریباً 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، روزانہ حضرت الاستاد، محترم عرفان منہاس اور راقم الحروف، تُنگ چھُنگ (Tung Chung) سے براستہ چھِنگ ما برِج (Tsing Ma Bridge)جو کہ ایک عجوبہ ہے، سے سفر کر کے مسجد آتے تھے، چھِنگ ما برِج دنیا کا مہنگا ترین اور عجیب و غریب پُل ہے، اس کی تعمیر ایک برطانوی اور جاپانی کمپنی نے مل کر کی ہے ،اس پر تقریباً 90 ارب پاکستانی روپے لاگت آئی ہے، اس کا طول 2160 میٹر ہے، جبکہ چوڑائی 41 میٹر ہے، سطح سمندر سے یہ 206 میٹر کی بلندی پر ہے ، جن تاروں نے اسے لٹکایا ہوا ہے ان کی کل لمبائی ایک لاکھ ساٹھ ہزار کلومیٹر بنتی ہے ، یہ انجنیئرنگ کا حیرت انگیز عجوبہ بھی ہے اور ہانگ کانگ کا شاندار امتیازی نشان بھی، سیاحوں کے دیکھنے کےلیے یہ ایک دلچسپ مقام کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔مسجد پہنچنے کے بعد سنتیں ادا کیں اور 6:20 پر حضرت الاستاد نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد درس قرآن کا آغاز سورہ فاتحہ سے کیا اور بعد ازاں محفل ذکر کا حلقہ لگایا اورمجلس کے آخر میں حاضرین نے شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ )یہ معمول آخری دن تک جاری رہا۔(
ناشتہ کے بعد حضرت نے آرام فرمایا اور اس کے بعد ہانگ کانگ سائے کُنگ (Sai Kung) کے تفریحی مقام پر کھلی فضا میں حفاظ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست ہوئی جس میں حضرت نے طلباء کے ساتھ پُرمغز گفتگو کی، ظہر کی نماز کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا اور ہلکی پھلکی چہل قدمی کے بعد سائے کُنگ سےواپسی ہوئی، راستے میں کولون پہاڑی کی چوٹی سے ہانگ کانگ کا دلفریب نظارہ کیا، یہ چوٹی1975 فُٹ بلندی پر ہےاس کا نام (ٖFei Ngo Shan) ہے، اس کا اردو ترجمہ ہو گا۔ کوہ ہنس۔
اگلا پڑاؤ ہانگ کانگ کی کولون مسجد کے چیف امام کے گھر تھا ، تھوڑی دیر حضرت نے یہاں قیام کیا اور اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے۔ رات عشاء کے بعد مرکزی پروگرام اقراء فاؤنڈیشن چھِن ون مدرسہ میں تھا، جہاں پر حاضرین و سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی، پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا، اس کے بعد نعتیہ کلام پیش کیا گیا، چیف امام مفتی محمد ارشد نے حضرت کا تعارف کروایا، مسجد کے خطیب اور امام مولوی محمد الیاس نے حضرت کو خراج تحسین پیش کیا اور اس کے بعدمتکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نےامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب پر جامع خطاب فرمایا، آخر میں دعا ہوئی اور تمام حاضرین کو کھانا پیش کیا گیا۔
15 فروری: بعد نماز فجر درس قرآن جس میں سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کی گئی اور اس کے بعدمسحور کُن حلقہ ذکر جس میں لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللهُ کی تسبیح اور اللہ اللہ کی تسبیح پڑھی گئی ، اس کے بعد ساتھیوں سے گفتگو کی اور ناشتے کے بعد آرام فرمایا۔ اسی روز مسجد ابراہیم میں بعد نماز ظہر حضرت متکلم اسلام کا خصوصی بیان ہوا، دوران بیان ہانگ کانگ ختم نبوت کےسرپرست مولاناقاری محمد طیب قاسمی کی آمد ہوئی،جبکہ ان کے صاحبزادے مولانا علی طیب پہلے سے ہی موجود تھے۔ بیان کے بعد ساتھیوں سے ملاقاتیں اور علماء کے ساتھ نشست ہوئی۔ شام کو چوہدری افتخار کے یارڈ پر ساتھیوں کے ہمراہ وزٹ کے بعد حضرت کی واپسی تُنگ چھُنگ اپنی قیام گاہ پر ہوئی۔
16 فروری: کی صبح حسب معمول براستہ براستہ چھِنگ ما برِج (Tsing Ma Bridge)مسجد ابراہیم میں پہنچے جہاں درس قرآن میں سورہ فاتحہ کی تفسیر اور محفل ذکر کا حلقہ لگا۔ ناشتہ اور آرام کے بعد حافظ محمد علی کی دعوت پر ختم نبوت کم تھین مدرسہ میں گئے جہاں نماز ظہر کے بعد مختصر مگر پر اثر بیان ہوا۔
بعد ازاں بھائی صفدر کی دعوت پر ان کے یارڈ پر گئے جہاں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس یاؤ ما تی کی مسجد ابراہیم پہنچے جہاں عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جزیرہ ہانگ کانگ کی چھائے وان مسجد روانہ ہو گئے ، جہاں حضرت متکلم اسلام نے نماز مغرب پڑھائی اور دعا کے بعد منسلکہ قبرستان چلے گئے، ہانگ کانگ میں مسلمانوں کے لیے دو قبرستان ہیں، ایک چھائے وان مسجد کے ساتھ منسلک ہے اور دوسرا ہیپی ویلی (Happy Valley) میں، ہانگ کانگ میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے جہاں رہائشی پراپرٹی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، وہیں قبرستان میں ایک قبر کی قیمت ہیپی ویلی میں تقریباً 22 لاکھ پاکستانی روپے ہے ، جس میں تجہیز و تکفین سب شامل ہے، جبکہ چھائے وان قبرستان میں ایک قبر تقریباً 5 لاکھ روپے کی پڑتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک امیروں کا قبرستان ہے اور دوسرا غریبوں کا۔
چینی بدھ مت کو بھی قبر حاصل کرنے کے لیے یا تو پہلے سے بُکنگ کرنی پڑتی ہے یا لاش کو نذر آتش، فینلنگ ڈسٹرکٹ (Fanling) کی پرائیویٹ جگہ پر قبر کے لیے 63 مربع انچ پلاٹ کی قیمت 2کروڑ 30 لاکھ روپے ہے۔
چھائے وان قبرستان دیکھنے کے بعد ایک مختصر نشست مسجد کے امام طفیل، حافظ شکیل اور دیگر حاظرین سے ہوئی جہاں حضرت کو چائے پیش کی گئی اور اس دوران حضرت متکلم اسلام نے وہاں چند سوالوں کے علمی جواب دیے۔ بعد ازاں حافظ رضوان کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے گئے، جہاں بورڈ آف ٹرسٹی کے ممبر حاجی محمد اسحاق، ان کے صاحبزادے اور دیگر افراد موجود تھے ، کھانے کے بعد حضرت متکلم اسلام نے ساتھیوں کے سوالات کے جوابات دیے۔
17 فروری: کو درس قرآن اور محفل ذکر کے بعد ناشتہ اور آرام کیا ، اس کے بعد راقم الحروف کے گھر چیونگ کوان او (Tseung Kwan O) تشریف لے گئے ، یہ میرے لیے سعادت کی بات تھی کہ حضرت نے غریب خانہ کو رونق بخشی۔
بعدازاں ختم نبوت کے سرپرست مولانا قاری محمد طیب کی جانب سے دعوت پر شم سی پو مدرسہ تشریف لے گئے جہاں دیگر اساتذہ اور حفاظ کے علاوہ اور ساتھی انتظار میں تھے، مختصر نشت کے بعد پُر تکلف کھانا کھایا اور بعد ازاں نماز ظہر ادا کرنے کے بعد تُنگ چُھنگ تشریف لے گئے جہاں مستورات کے لیے بیان بھائی شاکر کے گھرطے تھا۔ بیان کے بعد مسجد ابراہیم تشریف لے گئے جہاں نماز عصر اورمغرب ادا کی اور اس کے بعد ہانگ کانگ ہفتہ وار تبلیغی مشورہ میں شرکت کے لیے کولون مسجد تشریف لے گئے جہاں حضرت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے ساتھیوں سے فکری اور تربیتی گفتگو کی۔ الحمد لله دعوت و تبلیغ کا کام پورے ہانگ کانگ میں اور ہر کونے میں ہو رہا ہے ہر مہینے میں سہ روزہ کی جماعتوں کے علاوہ ،چلّے کی جماعتیں بیرون ملک بھی سفر کر رہی ہیں، جن میں ، آسٹریلیا، تھائی وان، ملائیشیا ، تھائی لینڈ ، سنگاپور، انڈونیشیا ، جاپان اور چین شامل ہیں یہاں سے فراغت کے بعد حضرت الاستاد تُنگ چُنگ مدرسہ (Tung Chung) تشریف لے گئے جہاں مختصر بیان اور ملاقات کے بعد بھائی رمضان کے گھر دعوت پر چلے گئے اور اس کے بعد واپس قیام گاہ پہنچے جہاں چند ساتھیوں سے ملاقاتیں کیں اور آرام فرمایا۔
18 فروری: حضرت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ امیر عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت کا ہانگ کانگ میں آخری دن تھا، حسب معمول صبح فجر کی نماز اور درس قرآن کیلئے مسجد ابراہیم پہنچے ، آج کے درس اور محفل ذکر میں ختم نبوت کے سرپرست مولانا قاری محمد طیب قاسمی بھی موجود تھے ، درس اور ناشتہ کے بعد ساتھیوں سے ملاقات اور گفتگو کی اور آرام فرمانے کے بعد عزیزم حافظ زبیر کی دعوت پر چھوئی ہُنگ تشریف لے گئے، جہاں مفتی شعیب اور برادرم سلطان وحید ہمراہ تھے۔
یہاں سے واپسی کے بعد حضرت الاستاد قیام گاہ تشریف لے گئے اور اور گھنٹہ آرام کے بعد ائیر پورٹ تشریف لے گئے۔ جہاں ساتھیوں نے نماز عصر ادا کرنے کے بعد حضرت کو الوداع کیا۔