پدری محبت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پدری محبت
………مولانا امان اللہ حنفی
زید یہ کیا ؟ تم رو کیوں رہے ہو؟ کیا ہوا؟ کیا تمہیں کسی نے مارا ؟ ارے تیرے ہاتھ پر یہ کس چیز کے نشانات ہیں؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ تجھے کسی ٹیچر نے سزا دی ہے ؟کیوں مارا تمہیں…… عمیر یہ سب باتیں ایک ہی سانس میں کہتا چلا گیا۔
اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ صبح صبح جبکہ ابھی صحیح طرح سے کلاسز اسٹارٹ بھی نہیں ہوئی تو زید کو بھلا کس جرم کی سزا ملی ہوگی؟ دوسری طرف بیچارا زید مسلسل روئے جا رہا تھا۔
زید ابھی پانچویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا۔ عمیر نے کہا: زید دیکھو! میں آپ کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں اور اگر آپ مجھ سے بھی کوئی بات چھپاؤگے تو میں سمجھوں گا کہ آپ مجھے بھائی نہیں سمجھتے اس لیے زید مجھے بتاؤ کیا وجہ ہے کیوں رو رہے ہو ؟
زید نے دونوں ہاتھ عمیر کے سامنے کرتے ہوئے ……عمیر مجھے آج پھر سزا ملی ہے۔ آخر کب تک مجھے اس طرح سے سزا ملے گی، میں مجبور ہوں میں کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا۔ دیکھو عمیر میں صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد کچھ تلاوت کی اور اپنی ا سکول کی تیاری شروع کر دی جب میری تیاریاں مکمل ہوئیں تو ناشتہ کا وقت ہو چکا تھا اور ناشتے کی تیاری میں میرےا سکول کے وقت کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔ خیر ! میں نے جلدی سے ناشتہ کیا کہ آج تو وقت پراسکول پہنچ جاؤں گا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں بیگ اٹھایا ہی تھا کہ انکل کی گرج دار آواز مجھے سنائی دی:
اوئےزیدو! برتن کس نے اکھٹے کرنے ہیں؟ میں نے جلدی سے ناشتے کے برتن جمع کر کے رکھے اور پھر ارادہ کیا کہ اب چلا جاتا ہوں میں نے بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا کہ اتنے میں گوالے نے ہارن بجایا اس کے ساتھ ہی پیچھے سے انکل کی آواز آئی : زیدو ! چل کر دودھ لے ……ان ہی کاموں میں دیر ہوگئی۔
اسی بات پر اپنے ماسٹر ریاض صاحب نے مجھے خوب پیٹا ہے۔ عمیر !دیکھو مجھے گھر میں انکل اور آنٹی بھی بات بات پر خوب ڈانٹتے ہیں اور ا سکول میں بھی دیر سے آنے کی وجہ سے مجھے اکثر سزا ملتی ہے مجھے سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں۔ ؟عمیر بس ایک ہی شخصیت ایسی ہے کہ جو مجھ سے پیارسے بات کرتے ہیں اور ان کو دیکھ کر مجھے عجیب سا سکون ملتا ہے۔
اچھا وہ کون ہے؟عمیر جلدی سے
زید وہ ہیں ماسٹر کاشف صاحب۔ پتہ نہیں کیوں ان کےساتھ گفتگو میں مجھے عجیب سی اپنائیت محسوس ہوتی ہے دودن پہلے جب مجھے دیر سے آنے کی وجہ سے سزا دی گئی تھی کاشف صاحب نے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے سب کچھ بتا دیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ماسٹر کاشف صاحب بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔
آج صبح جب میری ماسٹر کاشف پر نظر پڑی تو پتہ نہیں کیوں وہ مجھے دیکھ کر اداس سے ہوگئے اور مجھ سے نظر پھیر لی، شاید میں نے ان کو سب کچھ بتا کر غلطی کی ہے اور وہ مجھےاس کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔
ابھی ہم یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ مین گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی پھر تو میرے اوپر کے سانس اوپر اور نیچے کے سانس نیچے رہ گئے گیٹ سے اندر آنے والے میرے انکل تھے اور انکل اب اسٹاف روم کی طرف جا رہے تھے اور اسٹاف روم میں اس وقت صرف ماسٹر کاشف صاحب تھے زید نے افسوس سے ہاتھوں کو ملتے ہوئے کہا کہ ماسٹر صاحب نے انکل کو کیوں بلایا ؟میرا خیال ہے کہ ماسٹرصاحب ہمدردی کرنا چاہتے ہیں ان کی یہ ہمدردی میرے لیے کوئی نئی مصیبت کھڑی کر دے گی۔ ان کو اس کی ضرورت کیا تھی۔
عمیر نے زید کو تسلی دی مگر زید بہت گھبرایا ہوا تھا اور بار بار اس کی زبان پر بے ساختگی سے یہ کہے جا رہا تھا کہ آخر ماسٹر صاحب کو اس کی کیا ضرورت تھی۔
عمیر نے کہا اچھا چلو ان کی بات سنتے ہیں اسٹاف روم کی کھڑکی کے پاس پہنچے تو اندر سے ماسٹر صاحب کی آواز سنائی دی جو انکل سے کہہ رہے تھے کہ آخر زید ہر وقت روتا کیوں رہتا ہے ؟
جواب میں انکل نے کہا کہ بس جی بیچارے کی قسمت ہی ایسی ہے۔ جب چھوٹا ساتھا تو اپنے والدین کے ہمراہ سفر کے دوران ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس میں قدرت اسے بالکل بھی کچھ نہ ہوا تھا اور اس کے والدین کو سخت چوٹیں آئی تھی ان کو ہسپتال داخل کر دیا گیا تھا پھر مجھے نہیں پتا کہ وہ بچ گئے یا …… بس اس بچے کو اسی وقت میں اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اس وقت چونکہ میرے ہاں کوئی اولاد نہ تھی تو میں نے اس کو اپنی پرورش میں رکھا تھا اب اس کے ان منحوس والدین کا پتہ نہیں کہاں ہیں؟ بس میں نے اس کو یہی بتایا ہے کہ وہ مرکھپ گئے ہیں اب تو نے ہر صورت میں ہمارے ساتھ رہنا ہے۔ ویسے آپ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟ ماسٹر کاشف صاحب کی درد بھری آواز آئی وہ منحوس والدین ہی ہو جو اس منحوس کا باپ ہوں۔ آج سے 5 سال پہلے ہمارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور ہم اپنا بیٹا گنوا بیٹھے تھے اور اس کے بعد ہماری اولاد بھی نہیں ہوئی اس کی ماں اس کے غم میں پاگل ہوچکی ہے اس کو ہر بچہ زید ہی نظر آتا ہے مجھے بہت پہلےسے اس میں بیٹے کا خونی رشتہ نظر آتا تھا مگر میں اپنے غم کے جذبات سمجھ کر جھٹک دیتا تھا۔ زید نے جب یہ باتیں سنیں تو اس سے رہا نہ گیا وہ ایک دم بھاگ کر اسٹاف روم میں داخل ہوگیا، اندر داخل ہوتے ہی ماسٹر کاشف نے کہا آؤ بیٹا اپنے باپ کے سینے سے لگ جاؤ زید اپنے باپ کے سینے لگے گھنٹوں روتا رہا۔