الاشباہ والنظائر

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
………مفتی محمد یوسف ﷾
الاشباہ والنظائر(3)
قارئین کرام !گزشتہ قسط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب کو سات فنون پر تقسیم کیا ہے، پہلا فن قواعد کلیہ کے بیان میں ہے، یہ فن دو انواع پر مشتمل ہے، پہلی نوع میں 6 قواعد اور دوسری نوع میں19 قواعد بیان کیے گئے ہیں۔
ارباب علم و دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ متاخرین فقہاء کرام نے اصول فقہ کے عنوان پر امت مسلمہ کو جو علمی ذخیرہ دیا ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1: ایسا حصہ جن میں الفاظ و معانی کے اعتبار سے عام، خاص، ظاہر، خفی، مشکل، متشَابہ، عبارت النص اور اشارۃ النص، وغیرہ جیسی مباحث پر مشتمل ہے۔
نوٹ : اس قسم کی مباحث عموماً کتابوں میں مذکور ہیں، جو مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہیں۔
2: اصول فقہ کا یہ حصہ پہلے حصے سے بہت منفرد اور جدا ہے، اس حصے میں اصول ،قواعد، علت و حکمت ،داخل عبادتین ،عرف و رواج ،تاویل اور عموم بلویٰ وغیرہ جیسے عنوانات پر بحث کی گئی ہے۔
اصول فقہ کے اس حصے کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم تھی اس لیے علماء کرام نے اس حوالے سے بھی مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں۔
مثلاً:علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ”الاشباہ والنظائر“ میں اصول فقہ کے ان قواعد و ضوابط کو بیان کیا ہے اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں اور علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے الموافقات میں انہی مباحث پر گفتگو کی ہے، علاوہ ازیں زیر تعارف کتاب بھی، اسی فن کی ایک شاہکار لاجواب تصنیف ہے، اس کتاب میں علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے 25 قواعد کلیہ ذکر کیے ہیں، پھر ان قواعد کے تحت سینکڑوں جزئیات پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ قواعد و اصول مسائل فقہ کی اساس و بنیادیں ہیں۔ فقہ حنفی کی یہ بنیاد نہایت مضبوط و مستحکم ہے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ فقہ حنفی کی عمارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اس میں کسی قسم کی لچک اور کمزوری نہیں ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک دور میں جس طرح فقہ کا وجود تھا اسی طرح فقہ کے قواعد و اصول کی نشو و نما کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔
اگر چہ اس دور میں یہ قواعد باضابطہ مدون ہوکر کتابی شکل میں موجود نہیں تھے، مگر فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائل میں غور و فکر کرتے وقت ان اصولوں کو ضرور مد نظر رکھتے اس پر کئی ایک مثالیں عرض کی جاسکتی ہیں ، مگر طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک مثال پیش خدمت ہے۔
مثال:
ایسی خواتین جن کے شوہر وفات پاجائیں ان کی عدت سورۃ البقرہ کی آیت
والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا فإذا بلغن أجلهن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن بالمعروف والله بما تعملون خبير ( 234 )
مذکورہ بالا آیت کےمطابق چار ماہ دس دن ہے اس آیت میں عدت کا حکم عام بیان ہوا ہے، یعنی ایسی تمام عورتیں جن کے خاوند وفات پاجائیں، ان کی عدت چار ماہ دس دن ہے خواہ وہ عورت حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔
جبکہ سورۃ الطلاق کی آیت وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ )4(
میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عورت حمل کے ساتھ ہو اس دوران اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے یعنی جس وقت بچہ پیدا ہوگا اس کی عدت ختم ہوجائےگی۔
اب اس مسئلے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک عورت حاملہ ہے، اس کا خاوند فوت ہوگیا ہے اس کی عدت کتنی ہے؟ چار ماہ دس دن یا وضع حمل؟ آپ نے جواب دیا ایسی عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
اس کے بعد بطور دلیل آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ان سورةَ النساء القصريٰ نزلت بعد التي في البقرة۔چھوٹی سورۃ النساء(سورۃ الطلاق) سورۃ البقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
گویا فقیہ امت حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس جملے میں یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ بعد میں آنے والا حکم پہلے نازل ہونے والے حکم کے لیے یاتو ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے یا اس کی تخصیص کرتا ہے لہذا ہر سابقہ حکم یا فیصلے کو بعد والے حکم یا فیصلے کی روشنی میں پڑھنا اور سمجھنا چاہیے اور اسی لحاظ سے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
………)جاری ہے(