صدیقہ و زہرا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صدیقہ و زہرا
نصر اللہ ، بلوچستانی
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں ،اگرچہ ماں کا رتبہ بیٹی سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں محبت پیار اور دل لگی بھی ہوا کرتی تھی، ہنسی مزاح بھی ہوتا تھا۔
ایک دن یوں ہوا کہ خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر مسکرائیں۔ ماں نے پوچھا بیٹی !کیا بات ہے؟سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے دل میں یہ بات آرہی ہے کہ آپ کی والد تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جبکہ میرے والد خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بیٹی کی اس بات کو سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےنبی علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریفیں شروع کردیں۔
فرمانے لگیں کہ فاطمہ! بیٹی آپ نے سچ کہا ، ہمیں ایمان ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ملا، ان کےطفیل پروردگار کی معرفت ملی، ان کی بدولت اسلام ملا ، ان کے توسل سے ہمیں وجود ملا ، ان کے وسیلے سے ہمیں جنت ملے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تعریفیں کیں کہ بہت زیادہ۔ جب تعریفیں کرچکیں تو کہنے لگیں : بیٹی فاطمہ! میرے ذہن میں بھی ایک بات آرہی ہے۔ بیٹی نےمسکراتے ہوئے پوچھا اماں جی وہ کون سی بات ہے؟ فرمانے لگیں کہ میرے دل میں یہ بات آرہی ہے کہ فاطمہ اگر آپ کے خاوند علی المرتضیٰ ہیں تو پھر میرے خاوند بھی تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ سن کر فاطمہ خاموش ہوگئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر دوسری بات کہی کہ بیٹی !میرے دل میں ایک اور بات بھی آرہی ہے۔ پوچھا کون سی؟ تو فرمانے لگیں کہ آپ خاتون جنت ہیں جنتی عورتوں کی سردار ہیں جنت میں جب آپ تخت پر بیٹھیں گی توآپ کے ساتھ تخت پرسیدناعلی المرتضیٰ ہوں گے۔ اور جب میں جنت میں اپنے تخت پر بیٹھوں گی میرے تخت پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ بیٹھیں گے۔
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ رب العزت نے مجھ چند ایسی باتیں عطا کی ہیں جو کسی اور زوجہ نبی کو نصیب نہیں ہوئیں۔
پہلا اعزاز : میں سب سے پہلی بیوی ہوں جو کنواری نبی علیہ السلام کے نکاح میں آئی اور جتنی بھی آپ علیہ السلام کی ازواج تھیں وہ کنواری نہیں تھیں۔ میں ہی ایک تھی جو کنواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی۔
دوسرا اعزاز: میں ایک مرتبہ نبی علیہ السلام کی خدمت حاضر ہوئی میں نے دیکھا کہ چودھویں کی رات میں نبی علیہ السلام کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے محبوب! کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کوئی کپڑا تلاش کر رہا ہوں تاکہ اسے پرچم اسلام بنا کر لہرا سکوں۔ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میرا ایک دوپٹہ تھا جس کی زمین سفید تھی اور اس کے اوپر کالی کالی دھاریاں تھیں میں نے وہ دوپٹہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کردیا نبی علیہ السلام نے میرے دوپٹے کو اپنے ہاتھوں سے اسلام کا پرچم بناکر لہرایا یہ اعزاز بھی اللہ نے مجھے ہی نصیب فرمایا۔
تیسرا اعزاز : جبرائیل امین نے اللہ رب العزت کے مجھے دنیا میں سلام پہنچائے۔
چوتھا اعزاز: منافقین نے مجھ پر بہتان باندھا۔ تو اس سے پہلے یوسف علیہ السلام پر بھی اس طرح تہمت لگی، حضرت مریم پر بھی تہمت لگی مگر اللہ رب العزت نے ان کی ان تہمتوں کو چھوٹے بچوں سے ختم فریایا جنہوں نے گواہی دی کہ یہ پاک لوگ ہیں اور ان کی طرف نسبت کی جانے والی بات حقیقت نہیں بلکہ تہمت ہے۔ لیکن مجھ پر جب تہمت لگائی گئی تو اللہ رب العزت نے چھوٹے بچوں سے گواہی دلوانے کے بجائے خود اپنے کلام مبارک میں میری پاکدامنی کی گواہی دی سبحانک ھذا بہتان عظیم۔یہ تو بڑا بہتان ہے۔
پانچواں اعزاز: نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری مرتبہ بستر علالت پر تھے آپ کا چہرہ انور اور سر مبارک میری گود میں تھا اور میری نگاہیں آپ کے چہرے پر لگی ہوئی تھی ، آپ اس وقت اللہ کے حضور پیش ہورہے تھے۔ یہ اعزاز بھی مجھے ملا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود کے اندر سر رکھ کر دنیا سے پردہ فرما گئے۔
چھٹا اعزاز :مجھے یہ بھی حاصل ہے کہ میرا ہی حجرہ تھا جہاں نبی علیہ السلام نے آرام فرمایا (جوگنبدخضریٰ بنا) اور قیامت کے دن اس حجرے سے نبی علیہ السلام اٹھیں گے اورامت کی شفاعت فرمائیں گے۔
پانچ سالہ حافظ قرآن
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک پانچ سالہ بچے کو پیش کیا گیا اس کے باپ نے بتایا کہ یہ بچہ الحمد للہ اتنی چھوٹی سی عمر میں مکمل قرآن مجید کا حافظ ہے۔ ہارون الرشید باوجود بادشاہ ہونے کےچونکہ خود بھی قرآن مجید کا حافظ بلکہ بہترین قاری تھا اس نے کہا کہ میں بچے سے قرآن سنوں گا چنانچہ باپ نے بیٹے سے کہا بیٹا قران سناؤ وہ بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ ضد کرنے لگا کہ ابو پہلے مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ مجھے گڑ لے کر دیں گے، بیٹے کے اصرار پر باپ نے وعدہ کیا کہ ہاں میں تجھے گڑ کی ڈلی لے کر دوں گا۔ اس نے کہا اچھا سناتا ہوں ہارون الرشید نے اس بچے سے پانچ جگہوں سے سنا اور اس بچے نے پانچوں جگہ صحیح صحیح قرآن مجید سنادیا۔
مراسلہ : حافظ محمد سمیع اللہ حنفی