قرض کی ادائیگی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قرض کی ادائیگی
……… طارق نعمان گڑنگی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا جس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ گواہ کی حیثیت سے تو بس اللہ تعالی کافی ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن (گارنٹی دینے والا)لے آ۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ ضامن کی حیثیت سے بھی بس اللہ تعالی ہی کافی ہے۔ قرض دینے والے نے کہا تم نے سچی بات کہی اور وہ اللہ تعالی کی گواہی اور ضمانت پر تیار ہوگیا، چنانچہ ایک متعین مدت کے لئے انہیں قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری (کشتی وغیرہ )کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پارکرکے اس متعینہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکیں جو ان سے طے ہوئی تھی، اور ان کا قرض ادا کردیں،لیکن کوئی سواری نہیں ملی، (جب کوئی چارہ نہیں رہا تو )انہوں نے ایک لکڑی لی اور اس میں ایک سوراخ بنایا، پھر ایک ہزار دینار اور ایک خط (اس مضمون کا کہ)ان کی طرف سے قرض دینے والی کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں)رکھ دیا اور اس کا منہ بند کردیا اور اسے دریا پر لے کر آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا تھا کہ ضامن کی حیثیت سے اللہ تعالی کافی ہے، وہ تجھ پر راضی تھا، اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کاجواب بھی میں نے یہی دیا کہ اللہ تعالی گواہ کی حیثیت سے کافی ہے تو وہ تجھ پر راضی ہوگیا تھا اور (تو جانتا ہے کہ)میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری مل جائے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض معین مدت پر پہنچا سکوں لیکن مجھے اس میںکامیابی نہیں ملی۔ اس لئے اب میں اس کو تیرے ہی سپرد کرتا ہوں(کہ تو اس تک پہنچادے)چنانچہ اس نے وہ صندوق کی شکل میں لکڑی جس میں رقم تھی، دریا میں بہادی اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالی اس امانت کو ضائع نہیں
کرے گا۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ شحص واپس ہوچکا تھا۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھی کہ کسی طرح کوئی جہاز ملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر جاسکے۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ)آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو، لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی، وہی جس میں مال تھا جو قرض لینے والے نے ان کے نام بھیجا تھا، انہوں نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کے لئے لے لی، پھر جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی۔ (کچھ دنوں بعد)وہ صاحب جب اپنے وطن پہنچے تو قرض خواہ کے یہاں آئے اور (دوبارہ)ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں پیش کردئے۔ اور کہا کہ بخدا میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں، لیکن مجھے اپنی کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پھر قرض خواہ نے پوچھا، اچھا یہ تو بتا، کوئی چیز بھی میرے نام آپ نے بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ تعالی نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کردیا جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا ، چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوشی خوشی واپس ہوگئے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الکفال۔ باب الکفال فی القرض والدیون بالابدان وغیرہا)
قارئین کرام !قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کرنی چاہئے جو اللہ تعالی نے سور البقرہ کی آیت میں بیان کئے ہیں، یہ آیت قرآن کریم کی سب سے لمبی آیت ہے۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کئے گئے ہیں، ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ ان احکام میں سے ایک اہم حکم قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کرلی جائے ہے۔
قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ جل شانہ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالی اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لئے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ ﷺ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کردیا جائے۔ ان احادیث میں سے بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص کاانتقال ہوا۔ غسل وکفن سے فراغت کے بعد ہم نے رسول اکرم ﷺ سے نماز پڑھانے کو کہا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ ہم نے کہا کہ اس پر دینار کا قرض ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر تم ہی اس کی نماز ِجنازہ پڑھو۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : وہ قرضہ تمہارے اوپر ہوگیا اور میت بری ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺنے اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
(رواہ احمد باسناد حسن والحاکم وقال صحیح الاسناد۔۔۔ الترغیب والترھیب )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے)یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔
(ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیاہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالی کے عذاب کی طرف جانے دو ، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے)عذاب سے بچالو
(رواہ الحاکم ، صحیح علی شرط الشیخین۔۔ الترغیب والترھیب)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ، مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔
(مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ تعالی اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے، اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالی اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔
(بخاری)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقال ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقروض ہے تو اسکی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی (لیکن اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کردے تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا)۔
(ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا تو وہ چور کی حیثیت سے اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
(ابن ماجہ)