حرام چیزوں کے انسانی جسم پر اثرات اور شرعی احکامات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حرام چیزوں کے انسانی جسم پر
اثرات اور شرعی احکامات
امیر افضل اعوان
نیرنگی گردوں کے باعث جہاں معاشرہ میں اخلاقی اقدار بدلتی جارہی ہیں وہیں معاشرتی انداز و اطوار میں بھی تبدیلی رونماہونے لگی ہے، یہاں تک کہ ہمارے رہن سہن کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کے طور طریقے بھی یکسر مختلف شکل میں سامنے آرہے ہیں، کل تک دیسی کھانوں کو مرغوب سمجھا جاتا تھا مگر کچھ عرصہ قبل ملک میں آنے والے برگر کلچر کی بدولت آج حالات مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں، بچوں سے بڑوں تک ہر شخص فاسٹ فوڈ کا دلدادہ نظر آتا ہے، اس تبدیلی کے نتیجے میں پیزا، شوارما اور دیگر اشیائے خورونوش نے ماحول کے بعد ذہنوں میں بھی اس قدر جگہ بنالی ہے کہ آج اگر کسی ناسمجھ بچے سے بھی کھانے کی بابت دریافت کیا جائے تو وہ فاسٹ فوڈ آٹیم کا نام ہی لیتا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان بازاری اشیاءکے مضر اثرات کس حد تک ہیں ہم خود اپنے بچوں کو ان اشیاءکی طرف راغب کرتے ہیں جو کہ ہماری صحت اور ایمان کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امر سے حقیقی آگاہی میسرآنے کی ضرورت آج اور زیادہ بڑھ چکی ہے کیوں کہ اب یہ فاسٹ فوڈ اور ڈبہ بند اشیاءخورونوش میں ان کا ذائقہ بڑھانے کے لئے حرام اجزاءشامل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
وطن عزیز میں چائینز ریسٹورنٹس، فاسٹ فوڈ سنٹرز کے کھانوں اور ڈبہ بند اشیاءچاکلیٹ، کیک، ٹافیاں، جیلی، مصنوعی مکھن سمیت دیگر کئی چیزوں میں جیلاٹن استعمال ہوتا ہے اور یہ جیلاٹن کتوں ، گدھوں اور خنزیر کی کھال کے علاوہ مردہ جانوروں کی ہڈیوں میں موجود نمکیات سے تیار کیا جاتا ہے، جیلاٹن اشیاءخورونوش کو لیس دار بنانے کے لئے بھی مستعمل ہے جب کہ مصنوعی مکھن ٹافیوں اور جیلی سمیت دیگر متعدد اشیاءخورونوش کے تیاری میں اسے بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ ان چیزوں کو مزیدار بنانے کے لئے بھی کئی کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جن میں اجینو موتو سب سے زیادہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، چائنیز نمک کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب یہ کیمیکل دراصل مونو سوڈیم گلوٹامیٹ ہی ہے ، اس کو سب سے پہلے جاپانیوں نے تیار کیا ، تجارتی پیمانے پر اس کی تیاری کے لئے گندم اور دیگر اجناس کو پہلے اس قدر گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں ، پھر ان کیڑوں کی مزید افزائش کے لئے ان میں چینی اور دیگر میٹھی چیزیں شامل کی جاتی ہیں جو ان کیڑوں کی خوراک بن جاتی ہے، مقررہ وقت پر اس منصوبے سے شراب کی طرح رس کشید کرلیا جاتا ہے جس میں25فےصد تک گلوٹامیٹ ہوتا ہے اس کا سفوف بنا کر اسے اجینو موتو کے نام سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اس حوالہ سے اجناس کے علاوہ مردہ جانوروں کا خمیر اٹھائے جانے کی بھی اطلاعات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ یہ خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ان حرام ذائقہ دار چیزوں کو کھانے والا دوبارہ انہی چیزوں کا طلب گار ہوتا ہے کیوں کہ اس کی طلب ازخود انسانی جسم میں پیدا ہوجاتی ہے، آپ نے خود اس چیز کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ فاسٹ فوڈ کا شیدائی دیگر غذائی اشیاءسے مکمل گریز کرتا ہے جب کہ بھوک نہ ہونے پر بھی وہی چیزیں دوبارہ کھائی جاتی ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 1960ءکی دہائی میں جب یورپ اور امریکہ میں ذائقہ بڑھانے والے کیمیکلز کا استعمال شروع ہوا تو قدامت پسند یہودیوں نے اعتراض کیا کہ خنزیر کی چربی یا جسم کے ٹشوز سے کشید کردہ یہ تیزاب انسانی صحت کےلئے سخت نقصان دہ ہے مگر تجارتی بنیادوں پر اس کا استعمال بڑھتا گیا۔
ہمارے معاشرہ میں کھانے کی اشیاءمیں ان حرام اجزاءکی موجودگی کا انکشاف ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، جب کہ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی ہمارے معاشرہ میں موجود 67فیصد درآمدی اشیائے خور ونوش کو حرام قرار دے دیا ہے، کمیٹی نے اس حوالہ سے 23حرام اشیاءکی فہرست بھی پیش کردی گئی ہے، ان اشیاءمیں چپس، دہی، پیزا، چکن، نوڈلز، چکن کیوب، چکن سوپ کی ٹکیاں، فروٹ کاکٹیلز، گمی پیزا، چکن ٹونائیٹ، ٹیولپ چکن، کپ سوپ، پستہ کرئمی چکن، اسٹرابری لیف، سلما سوپ و دیگر اشیاءشامل ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ حلال اتھارٹی کی عدم موجودگی کے باعث عوام حرام اشیاءاستعمال کرنے پر مجبور ہیں ، قائمہ کمیٹی نے گذشتہ دنوں طارق بشیرچیمہ کی زیر صدارت اجلاس میں ان حرام اشیاءکی خرید وفروخت پر مکمل پابندی اور کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم گذشتہ68سال سے حرام چیزیں استعمال کررہے ہیں اور کسی کو پتا بھی نہیں، معلوم ہوا ہے کہ اس صورت حال پر انہوں نے استفسارکیا کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیاکہ تاحال ملک میں کوئی ایسا ادارہ ہی نہیں کہ جو اس حوالہ سے چیک اینڈ بیلنس رکھ سکے یا جس پر اس گھمبیر صورتحال کی ذمہ داری عائد کی جاسکے۔
حرام و حلا ل کی تفریق واضح کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے“ سورہ البقرہ، آیت173،یہی حکم سورہ المائدہ کی آیت3میں بھی موجود ہے، اس آیت سے جن چیزوں کا کھانا حرام ہوا ان میں اول میتہ (مردار جانور) ہے جو واجب الذبح جانور ذبح کئے بغیر خود اپنی موت سے مر جائے اس کا خون اور حرارت غلیظ یہ گوشت ہی میں جذب ہو کر رہ جاتی ہے جس کی گوشت میں موجودگی اور گندگی سے کئی قسم کے بدنی اور دینی مضرات لاحق ہوتے ہیں
(ابن کثیر)
شاید اسی تعلیل پر متنبہ فرمانے کے لئے میتہ (مردہ جانور) کے بعدخون کی حرمت کھل کرسامنے آتی ہے، اس کے بعد حیوانات کی ایک خاص نوع (خنزیر) کی تحریم کا ذکر کیا، جس کی بے انتہا نجاست خوری اور بے حیائی مشہور عام ہے شاید اسی لئے شریعت نے خون کی طرح اس کو نجس العین قرار دیا۔
واضح رہے کہ اس آیت مبارکہ میں سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاءکو حرام قرار دیا گیا ہے، اسلامی لحاظ سے دیکھا جائے تو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ جن اشیاءکو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ان کی مسلمہ وجوہات بھی موجود ہیں، مثلاً خنزیز کا گوشت کھانے والوں میں عزت وغیرت کا تصور تک ختم ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ میں فحاشی و عریانی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کہ انسان کو اخلاقی پستیوں کی طر ف دھکیل دیتاہے۔
موجودہ دور میں مغرب کا مادر پدر آزاد معاشرہ اس کی زندہ مثال ہے اس کے علاوہ دیگر حرام اشیاءکے اثرات بھی کسی طرح خوشگوار نہیں ہوتے۔
حلت و حرمت کے قانون میں شریعت نے صرف اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ حرام چیزوں کے طبی لحاظ سے جسم انسانی پر کیا مفید یا مضر اثرات پڑتے ہیں، اگر ایسی بات ہوتی تو سب سے پہلے سنکھیا اور دوسرے زہروں کا نام لیا جاتا، بلکہ زیادہ تر اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان حرام اشیاءکے انسان کے اخلاق پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طہارت اور پاکیزگی سے ان کا کس قدر تعلق ہے نیز ایسی تمام چیزیں بھی حرام قرار دی گئیں جنہیں نیت کی گندگی اور عقیدہ کی خباثت حلال سے حرام بنا دیتی ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اللہ نے حرام کی ہے اس کی حکمت انسان کی سمجھ میں آ جائے، انسان کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے خالق و مالک نے اس پر جو چیز حرام کردی اس کے استعمال سے کلی طور پر باز رہے کیوں کہ اسی میں ہی رحمت، برکت اور حقیقی بہتری پنہاں ہے۔
”حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺسے فتح مکہ والے سال مکہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ اور اس کے رسول ﷺنے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام کیا ہے آپ ﷺ کو کہا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ! مردار کی چربی کے بارے میں آپ ﷺکا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اس سے کشتیوں کو (پیندے میں) ملا جاتا ہے اور چمڑوں کو اس سے رنگا جاتا ہے اور لوگ اس سے روشنی کرتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا نہیں وہ حرام ہے پھر اسی وقت رسول اللہ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے کہ اللہ نے جب ان پر اس مردار کی چربی کو حرام کیا تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر اسے فروخت کردیا اور اس کی قیمت کھائی“
صحیح مسلم، جلد دوم، حدیث1555
توجہ فرمائیے کہ آپ ﷺ نے خنزیر کی چربی کو کشتیوں کے پیندے پر لگانے سے بھی منع فرمایا ، چمڑے کو رنگنے سے بھی اور اس کی چربی سے چراغ جلانا بھی پسند نہیں فرمایا بلکہ سختی سے باز رہنے کا حکم دیا گیا۔
بحیثیت مسلمان جن چیزوں کو خالق کائنات نے حرام قرار دیا ان کی ہمارے لئے مکمل ممانعت ہے جب کہ موجودہ دور میں ہم نہ صرف خود ان حرام چیزوں کو بڑے شوق سے کھاتے ہیں بلکہ آج کل تو مہمان نوازی کے لئے بھی ان اشیاءکا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلامی احکامات کے مطابق اگر کسی حلال چیز میں رائی کے دانے کے برابر بھی حرام اجزاءشامل کردیے جائیں تو وہ چیز کلی طور پر حرام ہوجاتی ہے اور اگر ہم یہی حرام چیزیں استعمال کرتے ہیں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پھر کسی بھی بہتری کی توقع عبث ہے۔
اس کے علاوہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حرام اشیاءکے حوالہ سے چیئر مین موصوف کی لاعلمی کی صورت حال بحیثیت قوم ہم سب کے لئے باعث غور و فکر ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نظریاتی ریاست میں حرام حلال کی تمیز کرنے والا کوئی ادارہ ہی موجود نہیں جب کہ اس خوفناک امر سے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی قطعی لاعلم ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ اس گھمبیر صورت حال کے حوالہ سے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات فروغ دیتے ہوئے سخت تادیبی کاررورائی عمل میں لائے ورنہ اس مجرمانہ غفلت کا خمیازہ دونوں جہانوں میں بھگتنا پڑ جائے گا۔
درج ذیل اشیاء خریدنے میں احتیاط کریں
چپس، دہی، پیزا، چکن، نوڈلز، چکن کیوب، چکن سوپ کی ٹکیاں، فروٹ کاکٹیلز، گمی پیزا، چکن ٹونائیٹ، ٹیولپ چکن، کپ سوپ، پستہ کرئمی چکن، اسٹرابری لیف، سلما سوپ وغیرہ۔