فکری یلغار

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری یلغار
شمس تبریز قاسمی
جنگ و جدال اور قتل وقتال کی تاریخ کا سلسلہ روزاول سے جاری ہے۔ دنیا کی پہلی جنگ دنیاکے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی دو اولاد ہابیل اور قابیل کے درمیان واقع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک میدان کارزار مسلسل سر گرم ہے۔دنیاکی مختلف قومیں ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکارہیں۔ اپنی مملکت کے رقبہ کو سعت دینے، دوسروں کی دیناتنگ کرنے ، مذہبی بنیاد پر انسانیت کی ناکہ بندی کرنے کا یہ کھیل آئے دن بڑھتا جارہا ہے۔
دنیا کی ترقی کے ساتھ حقوق انسانی کوپامال کرنے والی یہ جنگیں بھی ہرروز ایک نئی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ عصر حاضر کی سب سے بڑی جنگ اب فکری یلغاربن چکی ہے۔ جسمانی طاقت وقوت ، ہتھیارو کی افزودگی اور ایٹمی توانائی کے فروغ کے ساتھ فکری جنگ بھی اپنے عروج پرہے اور آج کی دنیا میں فکری جنگ لڑنے والے ہی فاتح ہیں۔ جسمانی طاقت و قوت کے سہارے میدان کارزار سجانے والے اوراپنی تلواروں کا جوہر دکھانے والے آج اپنی بے بسی کا رونا رورہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک دور وہ تھا جب مسلم ممالک کی سرحدیں کئی ممالک پر محیط تھیں۔ یہاں ہرطرح کی آسانیاں تھیں۔رعایاپوری طرح خوشحال تھی۔سہولیات اور تعیش کے تمام وسائل مہیا تھے۔ دولت وثروت کی مکمل فراوانی تھی۔ اناج اورفصلیں وافر مقدار میں دستیاب تھے، علاج ومعالجہ ،نقل وحمل ،تعلیم وتعلم ، صنعت وحرفت کے اعتبارسے مسلم ریاستیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔
مسلمان تاجروں کے قافلے دور درازکے علاقوں تک مسلم مصنوعات کو پہنچاتے تھے۔مسلم دنیا میں بڑے بڑے علمی مراکز قائم تھے۔ کوفہ بصرہ اوربغدادمیں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی علمی آماجگاہیں تھیں۔ یہاں کی لائبریروں کی شہرت پوری دنیا میں گونجتی تھی۔مسلمان محققین ، دانشواران ، فلاسفر ، اطبا ، سائنسداں ، ریاضی داں ، تاریخ نویس ، شعراء ، اہل قلم اور صاحب صنعت وحرفت کی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔ دنیا پر اسلامی ریاستوں کا سطوت و دبدبہ قائم تھا۔
جبکہ دوسری طرف یورپ کو غربت وافلاس نے اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ عیسائی ممالک اس وقت تہذیب و تمدنی کی پستی میں گرے ہوئے تھے۔ تہذیب ، شائستگی ، اخلاق ، اورتعلیم کاان میں نام و نشان بھی ناپید تھا۔ بدن پر کپڑ اپہننے کے بجائے وہ جانوروں کی کھالیں اپنے بدن پر استعمال کرتے تھے۔ یورپ اور عیسائی حکمراں اسلامی ممالک کی اس ترقی پر حسد کی آگ میں جلتے تھے۔ مسلمانوں کی خوشحالی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔
صلیبی مہم کی آڑ میں حکمراں عیسائی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے تھے۔ مسلمانوں کی مالی خوشحالی کے خلاف عیسائیوں میں حاسدانہ جذبات پیدا کئے جاتے تھے۔جس کی ایک واضح مثال پوپ اربن کے یہ الفاظ ہیں ’’فرانس عیسائی آبادی سے تنگ پڑگیا ہے اور ارض کنعان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتیں ہیں‘‘۔ یہ الفاظ نہایت واضح طور پر مسلم دشمنی کی غمازی کررہے ہیں۔
صلیبی جنگوں میں ملنی والی مسلسل ناکامیوں کے بعد اہل یورپ کو یہ یقین ہوگیاکہ مسلم دنیا کو شکت دینے کا راستہ انتہائی کٹھن اور دشوار کن ہے۔ ان کی طاقت کو کمزور کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس راستے پر چل کر یورپ کی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا نا ممکن ہے اس لئے یورپ نے اس جنگ کے دوسر ے پہلو پر توجہ دی اورجسمانی جنگ لڑنے کے بجائے فکری اور نظریاتی جنگ کی شروعات کردی۔ جسے عربی میں ’’الغزو الفکری‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس فکری جنگ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندیا ں کی گئیں۔ مختلف ٹیکنک اور حربے وجود میں لائے گئے۔ دھیرے دھیرے اس کی گہرائی ا ور گیرائی میں اضافہ ہوتا گیا بالآخر اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا کے بیشتر حصے پر حکومت کرنے والی امت مسلمہ اس فکری اور نظریاتی جنگ کا سب سے زیادہ شکار ہوئی۔
دنیا کی فاتح قوم پر مفتوح کا لیبل لگ گیا۔ شاندار فتوحات ، بہتر انتظامات ، اسباب وسائل ، ماضی کاافسانہ بن کر رہ گئے۔ مسلم دینا کی شان و شوکت خاک میں ملیا میٹ ہوگئی۔ پوری دنیا پرطاری رعب ودبدبہ کا یکسر خاتمہ ہوگیا۔ خوشحالی اور فارغ البالی قصہ پارینہ بن گئی۔ تعلیم و تعلم کا خاتمہ ہوگیا۔ تہذیب و ثقافت معدوم ہوگئی۔ پوری دنیاکوزیرنگیں رکھنے والی قوم خود غلامی کے چنگل میں گرفتار ہوگئی۔ صورت حال یہاں تک پہچ گئی ہے کہ عالم اسلام پر آج خودان کی اپنی زمین تنگ ہوچکی ہے۔ وہ اپنے مملکت کے حدود میں رہ کر بھی از خود فیصلہ کرنے کے اہل نہیں رہے۔ اسی صورت حال کی منظرکشی قرآن کریم نے یوں کی ہے۔
وضاقت علیہم الارض بمارحبت
( کشادگی کے باوجود زمین ان پر تنگ کردی گئی (
اس غیر عسکری طریقہ کار کو فروغ دینے اور فکری جنگ کے ذریعے مسلمانوں کے عروج و زوال میں تبدیل کرنے کے لئے یورپ نے تاریخ معاشیات ، ذرائع ابلاع ، عقائد ، مذہبی تعلیم ،جغرافیہ جیسے تمام فنون پر خاص توجہ دی۔ اس فکری یلغار کو مسلط کرنے کے لئے یورپ نے تین چیزوں کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ ذرائع ابلاغ ، رفاہی کام ،اور تعلیم وتعلم۔ آج ذرائع ابلاغ کے 96 فی صد حصہ پر یورپ کا قبضہ ہے۔ رفاہی کاموں کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت یورپ کی ہے۔ تعلیم و تعلم کو دنیا ان ہی کی ایجادکردہ نعمت سمجھتی ہے۔ دنیا کے ہرخطے میں ان کی فکرکام کرہی ہے۔ کس قوم کی ذہنیت کیاہے؟ کس کے عقائد کیا ہیں؟ کس کی مذہبی تعلیمات کیا ہے اس کا فیصلہ یورپ اور امریکہ کررہا ہے اور پوری دنیا اسی کو حقیقت تسلیم کررہی ہے۔
نائن الیون کے بعد اسی فکری یلغار کے تحت امریکہ نے افغانستان ، لیبیا ، عراق ، شام سمیت پورے مشرق وسطی کو خاک و خون میں تبدیل کردیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے اپنے قاتل اور مسیحاکی شناخت کرنی مشکل ہوگئی ہے۔ دوست اور دشمن کے درمیان امتیاز کرنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ آج تمام امور میں یورپ ترقی یافتہ ہے اور عالم اسلام زوال پذیر اس ترقی اور کامیابی کا سبب وہ فکری یلغار ہے جس کا سلسلہ گیارہویں صدی کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا اور عالم اسلام اس کا ادراک کرنے میں ناکام رہا-
بد نظری کی نحوست
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا ایک مرید تھا، اس نے ایک خوبصورت لڑکے کو دیکھا وہ کہنے لگا حضرت یہ لڑکا غیر مسلم ہے کیا یہ بھی جہنم میں جائےگا؟ انہوں نے کہا لگتا ہے کہ تو نے بھی اسے بری نظروں سے دیکھا ہے اب اس کا وبال تجھ پر ضرور پڑے گا وہ حافظ قرآن تھا اس ایک نظر کی وجہ سے ان کا وہ مرید قرآن مجید بھول گیا۔
اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ اب تک جو گناہ ہوچکے وہ معاف فرمادیں اور آئندہ گناہوں سے محفوظ فرمادیں۔ اے مالک ہم کمزور ہیں، ہمیں اپنی مدد عطاء فرمادیجیے اور ہمیں نفس اور شیطان کے مقابلے میں کامیاب فرمادیجیے۔
مراسلہ :حافظ محمد سمیع اللہ حنفی