اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
…… محمد مبشر بدر
سوال اٹھتا ہے کہ ہماری نسلیں اسلامی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر انگریزی کلچر کیوں اپنا رہی ہیں ، آخر ایسا کیا ہے جو اسلام نے نہیں دیا؟اخلاق دیئے ، کردار دیا ، امانت و صداقت ، غیرت و شجاعت ، ایمان و یقین ، عدل و انصاف ، نیکی پر اجر ، گناہوں پر عتاب ، اطاعت و عبادت ، اخوت و رواداری ، حقوق اللہ و حقوق العباد ، مساوات و میراث ایسے اوصاف حمیدہ ، احکام جلیلہ عطا فرمائے، اس کے علاوہ ہم ایک ایسی قوم تھے جن کے در پر کل تک کفار رحم و کرم کی بھیک مانگا کرتے تھے پھرآج ہم اپنے اقدار چھوڑ کر ایسوں کے پیچھے چل پڑے ہیں جن میں دنیا کی ساری خرافات موجود ہیں، جن کے معاشروں سے فحاشی اور عریانی کا گند ابل ابل کر ہماری حیا اور پاکدامنی والی تہذیب کو مٹائے جارہا ہے۔ ایسی قوم کے پیچھے کیوں چل پڑے ہیں جن پر خود اللہ نے دنیا و آخرت میں پھٹکار کی ہے، جن کے ہاں نہ حقوق اللہ کا خیال کیا جاتا ہے نہ حقوق العباد کا پاس۔ جن کا خدا معدہ اور مادہ ہے، جو منہ سے لے کر شرم گاہ تک کی سوچتے ہیں، جن کے سامنے آخرت نہیں؟
جواب آسان سا ہے کہ دنیا کی قدرو قیمت مال و اسباب سے ہے جسے مادہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مغرب نے مادہ پر محنت کی ، گارے مٹی پر خود کو کھپایا ، دوسرے مالدار ممالک پر ناجائز قبضہ کیا ، ان کی دولت کو لوٹا پھر اسی دولت سے کمپنیاں بنائیں ، ان کمپنیوں میں قیدیوں سے بلا اجرت مشقت کا کام لیا جس کے بل بوتے پر آج وہ مال و اسباب میں سب سے آگے ہیں۔ ان کے پاس دنیا کی بادشاہت ہے اس لیے ان کے تمام عیوب کو بھی اہل دنیا کے ہاں فیشن اور ہنر سمجھا جاتا ہے ، جس سے ہمارے بھولے مسلمان مرعوب ہو کر خود کو کوستے اور حلال و حرام کی تمییز کیے بغیر اہل مغرب کی نقالی کرتے ہیں۔ ؎
جن کے آنگن میں امیری کا

شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب ،زمانے کو ہنر

لگتا ہے

حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا تھا:
’’اگر اس دنیا کی حیثیت اللہ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کافروں کو ایک گھونٹ بھی پانی نصیب نہ ہونے دیتا۔‘‘ایک اور جگہ آقا علیہ السلام نے فرمایا جس کا مفہوم ہے: ’’اگر اہل ایمان کے ایمان کمزور ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ کافروں کے گھروں کے زینے بھی سونے کے بنا دیتا‘‘ ( چونکہ یہ سب دیکھ کر ایمان والے لالچ میں پڑ سکتے تھے اس لیے اللہ نے ایسا نہیں کیا)
اہلِ ایمان کو دنیا کی دوڑ میں کفار کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا مقصود نظر آخرت کی لامحدود زندگی کو سنوارنا اوراپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہیے، جو اللہ نے ان کے مقاصدِ حیات میں اہم طور پر بیان کیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان دنیا کو بالکل ہی چھوڑ دے ، شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے ، بلکہ دنیا کے حصول کے ساتھ اول ترجیح اللہ تعالی کے احکامات کو دے جنہیں سامنے رکھ کر وہ اپنے معمولاتِ زندگی احسن طریقے سے سرانجام دے ، اسی میں اس کی فلاح و کامیابی ہے۔مذمت اس بات کی ہورہی ہے کہ انسان دنیا اکٹھی کرنے میں ہی غرق ہوکر اُخروی حیات کو سنوارنے کے تمام تقاضے بھلا بیٹھے اور اپنی مرضیات پر چل کر اپنے خالق و مالک کے احکامات کو پسِ پشت گرا دے۔
ہم اپنے محبوب آقا ﷺ کی طرز زندگی کی طرف نظر کریں ،جو ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں ، اللہ کی طرف سے سب آسائشوں کے اختیار دیئے جانے کے باوجود انہوں نے سادگی اور مسکینی کی زندگی کو آسائش و آرائش کی زندگی پر ترجیح دی۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں یہ مشہور واقعہ درج ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:’’میرے رب نے مجھ پر یہ پیش فرمایا کہ میرے لیےمکہ کے پہاڑوں کو سونے کا بنا دیا جائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ! مجھے تو یہ پسند ہے کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھاؤں تو دوسرے دن بھوکا رہوں تاکہ جب بھوکا ہوں تو تیری طرف زاری کروں اور تجھے یاد کروں اور جب پیٹ بھروں تو تیرا شکر کروں ، تیری تعریف کروں۔‘‘
اسی طرح ایک اور واقعہ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجرۂ نبوی میں تشریف لے گئے وہاں جا کر دیکھا تو حضورِ اقدس بوریئے پر لیٹے ہوئے ہیں، بوریئے کے نشانات جسم ِاقدس پر نمایاں ہیں ، سرہانے کھجور کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے ،مزید اِدھراُدھر نظر دوڑائی تو تین چمڑے بغیر دباغت دیئے ہوئے اور ایک مٹھی جَو ایک کونے میں پڑے ہوئے ملے یہ گھر کا کل سامان تھا۔ سیدنا عمر کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔ حضورِ انور ﷺ نے دریافت فرمایا: عمر ! کیوں رورہے ہو؟عرض کیا یارسول اللہ! کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریئے کے نشانات آپ کے بدن مبارک پر پڑ رہے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ!دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے،ان پر تو یہ وسعت ، یہ قیصر و کسریٰ تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور خاص بندے ہوکر یہ حالت۔ نبی اکرم ﷺ تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے،حضرت عمر کی یہ بات سن کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو ؟ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہت بہتر ہے۔ ان کفار کو طیبات ( آسائش و آرائش) اور اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فورا عرض کی یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
پیارے رسول ﷺ کی کا طرز زندگی اور یہ تعلیمات دیکھ کر بھی کیا ہم اللہ و رسول کے دشمن کفارکی نقالی سے باز نہیں آئیں گے؟مومن کا اصل ٹھکانا آخرت ہے، ہم دنیا کی دوڑ لگانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ آخرت کی دوڑ کے لیے پیدا ہوئے ہیں ممکن ہے کچھ دوست میری بات کو دقیانوسی قرار دیں لیکن جو حق ہے وہ بیان کرنا پڑے گا جس کا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ آقا علیہ السلام نے علاماتِ قیامت میں ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی کہ لوگ فخر اور ریا کے طور پر اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔آج کے اس مادی دور میں دیکھ لیا جائے دنیا داری اور مالداری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے مقابلہ بازی ہو رہی ہے ، لمبی لمبی عمارتیں بنا کر ایک دوسرے سے بڑہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غیر مسلموں کو چھوڑ کر آپ مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھیے ، دبئی میں برج خلیفہ کی تعمیر پر پوری دنیا سے دادِ تحسین سمیٹی جارہی ہے،یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے 2722 فٹ لمبی اس عمارت کے163فلور ہیں۔ دنیا کی ہر آسائش اس عمارت میں دستیاب ہے۔دنیا کی بلند ترین کلاک ٹاور مکہ میں بیت اللہ کے سامنے ابراج البیت ٹاور نامی کمپلیکس میں ( جو دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے) سات بڑے بلندمیناروں میں سے چھ 42 سے 48 منزلہ کے درمیان یہ کلاک ٹاور موجود ہے، جو دوسرے میناروں سے تقریباً دوگنا اونچا ہے۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنا حقیقی مقصد بھول کر عارضی اور ختم ہوجانے والی دنیا میں اپنی جان ، وقت اور مال کھپا رہے ہیں جو یقینا ًیہیں رہ جائے گا، اور یہ سب ہم غیروں کی نقالی میں کرہے ہیں تاکہ ان سے اونچے اور بلند معلوم ہوں جس کی آقا علیہ السلام نے مذمت فرمائی ہے۔ہم بلاشبہ دنیا میں آگے بڑھیں ، اپنا دفاعی اور معاشی نظام بہتر سے بہتر بنائیں لیکن اپنے مقصدِ حقیقی سے بالکل غافل نہ ہوں۔ خود اسلام دنیا و آخرت کی بھلائی اور آسودگی حاصل کرنے کی دعائیں اور تدبیریں سکھاتا ہے ، اس کے ساتھ ہمارے اعمال کا ہمارے احوال پر اثر انداز ہونے کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اسلام روحانیت اور مادیت کو ساتھ لے کر چلتا ہے، جب کہ ہم روحانی اقدار کو پامال کر کے صرف مادیت کے پیچھے بھاگتے چلے جارہے ہیں جو آخرت کے طالب کے لیے حیران کن بات ہے۔اس لیے ہمیں اغیار کی عیش و عشرت کی طرف دیکھ کر مرعوب نہیں ہونا چاہیے، ان کی نقالی میں اسلامی تعلیمات کو نہیں بھول جانا چاہیے۔چنانچہ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں؎
اپنی ملت کو قیاس اقوامِ

مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ

رسولِ ہاشمیﷺ

امام مسلم ﷫
ایک مرتبہ رات کے وقت درس حدیث کی مجلس لگی تھی کسی نے کوئی حدیث دریافت کی لیکن عجیب اتفاق کہ وہ حدیث امام صاحب کو اس وقت مستحضر نہیں تھی ، حدیث کی تلاش کے لئے گھر تشریف لے گئے چراغ جلایا اور کنج تنہائی میں اس حدیث کی تلاش شروع کی کہ حدیث کا علم ان کا شوقِ طلب بھی تھا ! گھر والوں نے کھجوریں پیش کیں انہماک کے عالم میں حدیث کی جستجو کے ساتھ ساتھ کھجوریں بھی کھاتے رہے۔ محویت و استغراق نے یہ اندازہ نہ ہونے دیا کہ کتنا کھایا رات مکمل ہونے کو آگئی ادھر وہ کھجوریں ختم ہوئیں ادھر وہ حدیث مل گئی ، ظاہر ہے اتنی کھجوریں کہاں موافق آ سکتی تھیں بیمارہوئے اور انتقال فرما گئے۔
مراسلہ :حافط محمد احمد