توہین رسالت اور عقیدہ ختم نبوت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
توہین رسالت اور عقیدہ ختم نبوت
مفتی امداداللہ محمود
سابق خطیب جامع مسجدثنیان الغانم (کویت)
پوری امت کے مسلمان اورعلماء میں یہ اجماعاًطے پایاکہ آپﷺ کے بعد اب نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیاہے اور اب آپﷺخاتم النبیین ہیں ، آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور نہ بنایاجائے گا۔
حضورﷺکی ذات اقدس پرایمان عقیدہ توحید کی طرح ہے۔ جس طرح عقیدہ توحید پر سب کے لئے ایمان لانا ضروری ہے بعینہ اسی طرح حضورﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔گویا عقیدہ توحیداور عقیدہ ختم نبوت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔
مذکورہ عقائد کی پاسداری اور حفاظت کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کوٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ عقیدہ ختم نبوت ایک ایسااجماعی عقیدہ ہے کہ جس کے تحت آپﷺ بلا کسی تخصیص وتحقیق اوردلیل وتاویل کے آخری پیغمبرِ حق اور خاتم النبیین ہیں۔حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ "الاقتصا دفی الاعتقاد" میں فرماتے ہیں:
یعنی امت نے بالاجماع اس لفظ خاتم النبیین کا مفہوم یہ سمجھاکہ آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گااورنہ رسول،اور اس پراجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل وتخصیص نہیں اور اس کا منکر اجماع کا منکر ہے۔
چونکہ عقیدہ ختم نبوت قرآن کی ایک سوآیات اور حضورﷺکی متواترہ دوسودس احادیث مبارکہ سے ثابت اور موثق فیصلہ ہے۔عقیدہ ختم نبوت کے دفاع اور تحفظ کی خاطر آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات میں 259صحابہ کرام کی ایک قیمتی جماعت نے جام شہادت نوش فرمایا۔
(ملخص از رحمۃ للعلمین 2/213)
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور بقاء کی خاطر سب سے پہلے آنحضرتﷺ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پرجنگ لڑی ،جس میں صحابہ کرام کی ایک ضخیم تعداد تقریباً1200کے لگ بھگ نفوس قدسیہ صحابہ اور تابعین کی جماعت شہید ہوئی۔اسی جنگ میں آپ کے وفادار ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا،جو توہین رسالت کے ضمن میں ایک مثالی اور قابل تقلید واقعہ ہے جس کوپڑھ کر ایک ادنیٰ امتی بھی اسے اپنا کر اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے کو اپنی زندگی کی بقاء سمجھتاہے۔
’’اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ‘‘ میں دی گئی عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
حضرت حبیب بن زید انصاری کو آنحضرت ﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنوحنیفہ کے مسیلہ کذاب کی طرف بھیجا۔مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہوکہ محمداللہ کے رسول ہیں؟حضرت حبیب نے فرمایا: ہاں!مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہوکہ میں(مسیلمہ) بھی اللہ کانبی ہوں؟حضرت حبیب نے جواب میں فرمایاکہ میں بہرہ ہوں، مجھے آپ کی بات سنائی نہیں دیتی۔مسیلمہ باربارسوال کرتارہا ،وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتارہا ،حتی کہ جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا۔
معلوم ہواکہ صحابہ رضی اللہ عنہم عقیدہ ختم نبوت کی عظمت اور اس کے دفاع کی خاطر ذرابھر بھی حضورﷺ کی توہین سنناہی گوارانہ کرتے تھےاور اس کی خاطر اپنی جان کو حضور ﷺ کی عظمت وعزت کے تحفظ اور ختم نبوت کے دفاع کی خاطر ڈھال بنا کر ٹکڑے ٹکڑے کروادینے کو ترجیح دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کا سب سے پہلااجماع بھی یہی ہواکہ ختم نبوت اور آپ کی توہین کامرتکب واجب القتل قراردیاگیا۔
اسی طرح کا واقعہ حضرت ابومسلم خولانیؒ جن کا نام عبداللہ بن ثوب ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدربزرگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالی نے آگ کو اسی طرح بے اثرکردیاجیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیاتھا۔یہ یمن میں پیداہوئے تھے اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے۔لیکن سرکار دوعالم ﷺکے دربارمیں حاضری کا موقع نہیں ملاتھا۔
آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دورمیں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسودعنسی پیداہوا۔جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پرایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتاتھا۔اسی دوران اس نے حضرت ابومسلم خولانی کے نام پیغام بھیج کر اپنے پاس بلوایااور اپنی نبوت پرایمان لانے کی دعوت دی۔ حضرت ابومسلم نے انکار کر دیا۔ پھر اس نے پوچھاکہ کیا تم محمدﷺ کی رسالت پرایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابومسلم خولانیؒ نے فرمایا: ہاں!اس پر اسود عنسی نے آگ دہکائی اور ابومسلم ؒ کواس میں ڈال دیا۔ لیکن اللہ نے اس آگ کو بے اثرکردیااور حضرت ابومسلم صحیح سلامت اس آگ سے باہر تشریف لے آئے۔واقعہ اتنا عجیب تھاکہ اسوداور اس کےساتھیوں پر ہیبت طاری ہو گئی۔ اسودعنسی کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے جلا وطن کردو ورنہ خطرہ ہے کہ اس کی وجہ سے تمہارے پیرؤوں کے ایمان میں تزلزل آجائے۔چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیاگیا۔یمن سے نکل کرایک ہی جائے پناہ تھی یعنی مدینہ منورہ!حضرت ابومسلم خولانی یمن سے نکل کرمدینہ منورہ بارگاہ نبوت میں حاضری کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔حضرت ابومسلم خولانیؒ جب مدینہ منورہ پہنچے تومعلوم ہواکہ حضرت محمدﷺدنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔انہوں نے اپنی اونٹنی مسجدنبویﷺ کے سامنے بٹھائی اور اندرآکرایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کردی۔
وہاں حضرت عمررضی اللہ عنہ موجود تھے،ایک اجنبی مسافر کودیکھ کران کے پاس تشریف لائے او ر پوچھاکہاں سے آئے ہو؟ابومسلمؒ نے جواب دیاکہ یمن سے آیاہوں۔عمررضی اللہ عنہ نے فوراًپوچھاکہ اللہ کے دشمن اسود عنسی نے ہمارے ایک ساتھی کو آگ میں ڈال دیاتھااور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا،توبعدمیں ان کے ساتھ اسودعنسی نے کیا معاملہ کیاتھا؟ابومسلم خولانی ؒ نے جواب دیاکہ ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے،اتنی دیرمیں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی فراست پہچان چکی تھی کہ یہ وہی شخص ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قسم دے کر پوچھا کہ کیاآپ ہی وہ صاحب ہیں؟اس پر ابومسلم ؒ نے کہا:جی ہاں!میں ہی وہ شخص ہوں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں لاکر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور اپنے دونوں کےدرمیان میں بٹھایا۔ پھر اللہ کا شکر اداکیا کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ (ﷺ)کے اس شخص کی زیارت کروادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام جیسامعاملہ فرمایاہے۔
(حلیۃ الاولیاء ص:129)
آپ ﷺکے بعد کسی ولی، پیر، امام، غوث،قطب یا کسی بھی شخص کو آپ علیہ السلام کا ظل یا بروز کہنااور تناسخ یا حلول کا عقیدہ رکھنا کفرہے۔
ظل سایہ کو کہتے ہیں،جیسے کوئی کہے کہ مرزاقادیانی شیطان کی تصویر(ظل) تھا،بروز کا معنی ہے کسی شخصیت کی جگہ کوئی دوسراظاہر ہوجائے،جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی نے شیطان کی شکل اختیارکرلی تھی اور اس کی جگہ ظاہر ہواتھا۔حلول کا مطلب ہے کسی کی روح کسی دوسرےمیں داخل ہوجائے،جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی میں شیطان کی روح سرایت کرگئی ہے۔ تناسخ کامعنی ہے ایک شخص مر جائے اوراس کی شخصیت دوسرے جنم میں کسی دوسرےکی ہوبہوشکل اختیار کر جائے،جیسے کوئی کہے کہ مرزاقادیانی اس زمانہ میں شیطان مجسم تھا۔
قادیانیوں کایہ عقیدہ ہے:مرزاقادیانی ظلی نبی تھا،یعنی آنحضرت ﷺ کی اتباع کی وجہ سے وہ آنحضرت ﷺ کا ظل ہوگیاتھا۔اس اعتبارسے اس کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اتحادہوگیااور آپ کا وجود مرزاقادیانی کا وجود ہے، جیساکہ مرزاقادیانی نے لکھاہے:
’’صاروجودی وجودہ‘‘
(خزائن،16/258)
خلاصہ یہ نکلا کہ آپﷺ کے بعد کوئی شخص خواہ کتنا ہی پارساکیوں نہ ہو، کتنے ہی مراقبے کیوں نہ کرچکاہو،چلہ کشی اورمجاہدات سے کتنی ہی منزلیں کیوں نہ طے کرچکا ہو،وہ ہرگزہرگز حضور اکرمﷺ کی صفات حقہ میں قطعاً شریک ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔جیسے اللہ رب العزت کی ذات وصفات اور عبادت وبندگی میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا،بعینہ آنحضرتﷺکے کمالات اور آپ کی ذاتی زندگی کے رموزواسرارمیں کوئی بھی شریک نہیں ہوسکتا۔چہ جائیکہ کوئی یہ دعوی کرے کہ میں حضورﷺ کاظل ہوں یا پرتوہوں!ایساشخص سراسردجل،فریب اور کذب بیانی کا مرتکب ہے۔ایسے شخص کے بارے میں علمائے امت کا اجماعی عقیدہ ہے آنحضرت ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعوی کرے وہ بالاجماع کافرہے۔
اس کوجو لوگ اپناامام،مجدد،مامورمن اللہ،مہدی،مسیح یا ظلی نبی تسلیم کریں وہ بھی کافرہیں،حتی کہ جولوگ اس مدعی نبوت کو مسلمان سمجھیں ،بلکہ جو لوگ اسے کافرنہ سمجھیں وہ بھی کافر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ علماء نے اپنے فتاویٰ میں، عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں اور اسمبلی نے اپنے قانون میں قادیانیوں کو کافر قراردیابلکہ قادیانیوں کی طرح لاہوری گروپ کوبھی کافر قراردیاہے۔