بھڑاس کا شکار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بھڑاس کا شکار
مسعود اختر
ایک صاحب کا کالم بعنوان ’’ گھریلو تشدد کرنے والوں کا تاریک مستقبل‘‘ مقامی اخبار میں شائع ہوا۔ پس منظر یوں تھا کہ لندن کی ایک مسجد میں ڈومیسٹک وائلنس کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں چیف انسپکٹر پولیس نے جنوبی ایشیا کی خواتین سے خطاب کر کے انہیں اپنے حقوق سے آگاہ کیا۔ اس پروگرام میں کسی عالم دین کی شرکت تک کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ملا البتہ صاحب نے کچھ مصلحتوں کے پیش نظرموصوفہ چیف انسپکٹر صاحبہ کو تو معاف کردیاالبتہ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے دل کی ساری بھڑاس بلا وجہ مولوی صاحبان اور مساجد پر نکال دی
چند اقتباسات یہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ مساجد انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں اور دوسری طرف ایشین اور مسلم کمیونٹی اپنے ہر مسئلے کے حل کیلئے مساجد سے رجوع کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ملا حضرات کی اہمیت بلا ضرورت بڑھائی جارہی ہے‘‘ وہ لکھتے ہیں: ’’اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو مولوی کسی خاتون کی مدد کر رہا ہے وہ حلالہ نکالنے کے بارے میں تو نہیں سوچ رہا‘‘ آگے چل کے اس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں:’’پچھلے بیس تیس برسوں میں مسلم کمیونٹی مین سٹریم سے ہٹتے ہٹتے مساجد تک محدود ہوتی رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مولوی حضرات ہمارے ہر معاملے میں دخل اندازی کرنے لگے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ اقبالؒ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’علامہ اقبال نے ملا ازم کے خلاف جدو جہد کی تھی۔ شاعری میں کسی مذہبی لیڈر کو مولانا بہت کم لکھا ہے وہ مولوی کو ملا ہی لکھتے رہے ہیں‘‘۔
درج ذیل سطور میں ہر طرح کے تعصب اور خود غرضی سے بالاتر ہو کر اس مضمون سے پیدا شدہ چند ایک تحفظات اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہم نے ضروری سمجھا۔
مسجد ہر دور میں اسلامی معاشرے کا ایک اہم ستون رہا ہے۔نبی کریمﷺ کے دور مبارک میں ہمیں علیحدہ سے کسی پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو کی عمارت کا وجود نہیں ملتا۔ یہ تمام معاملات مسجد کے پلیٹ فارم سے ہی سرانجام دیے جاتے تھے۔ مسجد عبادت کی جگہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا شعار اور معاشرے میں مسلمانوں کے وجود کی علامت بھی ہے۔ اگر برطانوی خاتون پولیس افسر ہماری مساجد میں آکر قانونی حوالے سے ہماری خواتین کی راہنمائی کرتی ہیں تو ہمارے لئے باعث فخر ہو نا چاہئے نہ کہ وجہ اعتراض۔
مساجد انتہا پسندی کو فروغ نہیں دے رہیں۔ اس طرح کے الزامات سے مساجد کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسی جگہ کالم نگار صاحب کے علم میں ہے جو مسجد کے نام پر انتہا پسندی پھیلا رہی ہے تو اس کی نشاندہی کریں یا سیکیورٹی اداروں کو مطلع کریں تا کہ ان کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔ بلا تخصیص سب مساجد پر انتہا پسندی کا مبہم سا الزام باعث تشویش ہے۔ مساجد کی اہمیت اور وقار کو بحال رکھنا ہم سب کی منصبی ذمہ داری ہے۔ اگر کہیں خامیاں ہیں تو اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مسلمان کمیونٹی مذہبی حوالے سے پیش آمدہ مسائل کے حل کیلئے مساجد سے رجوع کرتی ہے تو اس میں بھی کوئی ذرا بھر قباحت نہیں بلکہ مسائل کے حل کی صحیح سمت یہی ہے۔ سیاستدان، صحافی، علماء و مشائخ، تکنیکی شعبوں کے ماہرین اور معاشرے کے دیگر طبقات میں سے ہر ایک کو اپنی حیثیت اور مقام کے مطابق احترام ملنا چاہیے۔ لیکن علماء کے احترام پربے جا اعتراض سے بھی خدا واسطے کے بیر کی بو آتی ہے۔ موصوف کو خدشہ ہے کہ عورت دینی مسائل کیلئے اگر علماء سے رجوع کرے تو حلالہ کی شکل میں جنسی ہوس کا شکار نہ ہو جائے۔ اسی بنا پر تمام علماء کو شک کی نگاہ سے دیکھنا بھی سوئے ظن کے سوا کیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ علماء کا روپ دھار کے لادینیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں’’ علماء سو‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی کالی بھیڑیں کس طبقہ میں موجود نہیں؟وکلاء، صحافی، ڈاکٹر، جج یا سیاستدان سبھی میں اکا دکا ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اس وجہ سے بلا امتیاز سب برادری کو ہی مورد الزام ٹھہرا نا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بقول کالم نگار صاحب بیس تیس سالوں سے لوگوں کا رجحان مساجد کی طرف زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ تو خوشی کا مقام ہے نہ کہ سوگ اور پریشانی کا یہ بھی خلاف حقیقت بات ہے کہ ہماری کمیونٹی کچھ سالوں سے مین سٹریم سے کٹ کے صرف مساجد تک محدود ہو ر رہ گئی ہے۔ لارڈز، ممبرز پارلیمنٹ ، کونسلرز، علماء، ڈاکٹرز، انجینئرز اور تکنیکی امور کے ماہرین برطانوی معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسجدیں اپنے ہاں آنے والوں کو وہ جذبہ عطا کرتی ہیں کہ جس سے خدا خوفی اور دیانتداری کے ساتھ معاشرے میں اپنے فرائض منصبی ادا کر سکیں۔ جہاں تک اقبال ؒ کی شاعری کاتعلق ہے۔وہ ایک مرد درویش اور مصلح تھے۔ انہوں نے کرپٹ حکمرانوں، جاہل صوفیا، علماء سواورمعاشرے کے ہر بے اعتدال طبقے کی خوب خبر لی۔ وہ خود علماء حق اور صوفیا کی مجالس میں بیٹھتے اور اکتساب فیض کرتے تھے بلکہ مولانا روم کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔ اور علمائے دیوبند سے ان کے نیاز مندانہ تعلقات اور عقیدت و احترام کا جذبہ ناقابل فراموش ہے۔ مولوی کے بارے میں اقبال کا تصور یہ تھا کہ وہ صرف ظاہری کتب کا عالم ہی نہ ہو بلکہ کسی شیخ کی بارگاہ کا فیض یافتہ بھی ہو۔ فرماتے ہیں :مولوی ہر گز نہ شد۔۔۔۔۔ مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نہ شد
چونکہ مولانا جلال الدین رومیؒ کی علمی فقاہت اور روحانی بصیرت میں نکھار حضرت شمس تبریزؒ کی بارگاہ سے حصول فیض کے بعد آیا لہٰذا اقبالؒ بھی بیک وقت شریعت اور طریقت کے علمبردارعلماء کے قدر دان تھے۔