بیچارے مرد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بیچارے مرد
واجد نواز
وجود زن سے ہے تصویر کائنات

میں رنگ اُس کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

شرف میں بڑھ کر ثریا سے

مشت خا ک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا

درمکنوں! مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!

 

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار

افلاطوں

عورت تصویر کائنات کا رنگ ہے ، عورت دنیا کی خوبصورتی ہے ، عورت زمین کا دل ہے ، عورت مرکز ثقل ہے ، عورت محبت ہے ، عورت ماں ہے ، عورت بیوی ہے ، عورت ایک رات ، عورت ایک مصور ہے ، عورت جب سامنے آتی ہے تو دنیا کی ساری خوبصورتیاں پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہیں حتی کہ نگا ہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور نظروں کے سامنے صرف عورت ہی عورت باقی رہ جاتی ہے۔
عورت جب سامنے آ جاتی ہے تو ارد گرد کی ساری خوبصورتیاں اس کے جسم میں سمٹ آتی ہیں اور اپنے آپ کو اس جسم میں کھو دیتی ہیں اور ختم کر دیتی ہیں ، ایسا تب ہوتا ہے جب ایک عورت ، عورت بن کر معاشرہ میں اپنی زندگی بسر کرے، عورت جب حکم چلانے لگے، مردوں کی تذلیل کرے، کوٹھوں پر ناچ گانے کرے، محلات میں گھنگھرو پہن کر شراب نوشی کرے، والدین کی عزت کا جنازہ نکالے۔۔۔ تو اُسے عورت کہلوانے کا حق نہیں بنتا۔
سابق فوجی صدر کے دور میں عورتوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا گیا، اسی دور میں'' حقوق نسواں بل'' بھی پاس ہوا جسے پاکستان سمیت پوری دنیا میں خواتین، سول سوسائٹی ہر طبقہ کے افراد کی طرف سے سراہا گیا، جو لوگ آج اس بل کی مخالفت میں بات کرتے ہیں کل تک اس کے حامی تھے۔ہمارے کچھ سیاستدان تو بیویوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کی حمایت کرتے رہے ، اندرون خانہ سب اس بل کے خلاف تھے، مگر کیا کریں '' ہوم منسٹری '' کی بات تو ماننا پڑتی ہے۔ چلو رات گئی بات گئی۔
بات چل نکلی عورتوں کے حقوق کی تو کیا مرد بیچاروں کی معاشرہ میں کوئی عزت و ناموس ہی نہیں ہے ؟ اُف کتنی زیادتی ہے۔
گزشتہ دن ایک دوست نے موبائل میسج بھیجا جو بڑا دلچسپ تھا کہ ایک گھر میں روزانہ شام کے بعد کبھی شوہر تو کبھی بیوی کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، ایک دن محلہ کے کسی شریف نے شوہر نایاب سے آخر پوچھ ہی لیا ہے کہ میاں ! کیا ماجرا ہے ، تمہارے گھر میں روزانہ ہنسی کا مقابلہ کیونکر ہوتا ہے ؟ خوش اخلاق شوہر نے جواب دیا کہ جب بھی وہ رات کو دیر سے واپس آتا ہے بیوی اپنا جوتا اُس پر اچھالتی ہے ، اگر درست نشانے پر لگے تو وہ ہنستی ہے اور اگر نشانہ اٹک جائے تو ظاہر ہے میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک شوہر کی فریادی پڑھنے کو ملی، سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جس کا نام DOSAN تھا ، نے دعویٰ کیا کہ وہ دنیا کا واحد انسان ہے جسے بیوی صبح صبح '' بلے '' سے پٹائی کرکے اُس کا سواگت کرتی ہے۔ سربیا، بلقان ریاستوں میں مردوں کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ گھر پر رہ کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں اور ان کی بیویاں ملازمت کر کے گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ سارا دن گھر پر رہنے اور اپنی بیوی کے پیسوں پر گزارا کرنے والے مردوں کو بلقان اور سربیا میں '' ماچو '' جبکہ پاکستان میں '' ٹکریل '' کہا جاتا ہے۔
صرف یہی نہیں اگر بیوی کو اپنا شوہر پسند نہ ہو، اچھا نہ لگے، یا پھر خاندانی تناؤ پیدا ہوجائے ، بیوی کی ماں کو اپنا داماد کھٹکنے لگے تو پھر عدالت میں تنسیخ نکاح اورخلع جیسے کیسز دائر کردیے جاتے ہیں، اور وکیل صاحب عورت کے کیس کو مزید مضبوط بنانے کے لیے شوہر نامدار کو کم عقل، پاگل، اپاہج، کند ذہن، شرابی، نشئی، آوارہ ، جھگڑالو ، بدصورت ، مارپیٹ کرنے والاجیسے القابات سے نواز دیتا ہے ، کئی بار لو میرج کرنے والی مستورات اپنے بیانات کی ہیر پھیر میں مردوں کو تگنی کی ناچ نچاتی ہیں۔
اگر کوئی شوہر بدقسمتی سے اپنی بیوی کے خلاف عدالت سے رجوع کربیٹھے تو معاشرہ میں اُسے ذلیل و خوار کردیا جاتا ہے ، الٹا بیوی جوابی دعویٰ دائر کردیتی ہے، چاہے شوہر سچ اور حق پر ہی کیوں نہ ہو حقوق نسواں کی '' زد '' میں آکر مار کھاجاتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک بیوی نے اپنے آشنا سے ملکر اپنے شوہر کو خودکش حملہ اور بنا ڈالا۔ مسقط سے آنے والے اس شخص سے جان چھڑانے کیلئے اس کی بیوی نے اپنی تئیں فول پروف منصوبہ بنایا تھا ، لیکن ایسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کا بچا را شوہر تین سال دیار غیر میں اپنی بیوی و گھر والوں کے سنہرے مستقبل کیلئے دن رات محنت و مشقت میں مصروف تھالیکن ایسے نا پسند کرنے والی بیوی نے ، قانونی راستے سے علیحدگی کے بجائے انتہائی افسوس ناک رویہ اختیار کرکے پوری دنیامیں پاکستانی معاشرے کو جگ ہنسائی کا سبب بنادیا اور باوفا عورت کے مشرقی تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
زمبابوے سے تعلق رکھنے والی ایک شخص نے اپنی سابقہ محبوبہ کے 62سالہ محبوب کا دل نکالنے کے بعد کانٹے اور چھری سے کھالیا۔جنوبی افریقہ میں پیش آنے والے اس واقعے میں اس شخص کو کیپ ٹان سے گرفتار کیا گیا۔خبر کے مطابق حاسد عاشق نے اپنے انتقام کی آگ میں اپنے رقیب کو مارنے کے باوجود اس کا دل نکال کر چبا ڈالا۔اسی طرح کی ایک خبر اور بھی نظروں سے گزری کہ سوئس خاتون معذور شوہر کو سیر و تفریح کے بہانے بھارت چھوڑ آئی جہاں ناکافی سہولیات کی بنا پر شوہر کی مو ت ہوگئی۔ عدالت نے خاتون کو بیگم گردی دکھانے پر چار سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔
کہاوت ہے کہ ایک شخص پادری کے پاس گیا اور اعتراف گناہ والے ڈبے کے پاس بیٹھ کر بولا ، پادری صاحب! میری بیوی مجھے زہر دینا چاہتی ہے بتائیں کیاکروں؟ وہ بولے میں آپ کی بیوی سے بات کرتا ہوں کل آنا۔اگلے دن وہ گئے اور بولے کیا حکم ہے پادری صاحب ؟۔ پادری صاحب نے فرمایا کہ کل میں نے دو گھنٹے آپ کی بیوی سے بات کی ہے ، بہتر ہے کہ آپ زہر ہی کھالیں۔
بچپن سے ایک کہانی سننے آرہے ہیں جس میں ماں اور بیٹے کے ساتھ اس کی محبوبہ کا تذکرہ تھا کہ محبوبہ نے اپنے عاشق کو کہا کہ اگر تم مجھ سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتے ہو تو جا اپنا ماں کا دل نکال کر لے آ۔ وہ یہ سن کر اپنی ماں کے پاس آتا ہے، اسے قتل کرتا ہے اور اس کا دل چیر کر اپنی محبوبہ کے پاس لے جاتا ہے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے وہ گر جاتا ہے ، ماں کا دل اس کے گرنے پر تڑپ اٹھتا ہے کہ '' بیٹا تمہیں چوٹ تو نہیں آئی '' بیٹا اسے سنی ان سنی کرکے اپنی محبوبہ کے پاس لے جاتا ہے ، محبوبہ یہ دیکھ کر بولتی ہے کہ جو اپنی ماں کا نہ ہوا، وہ میرا کیا ہوگا ؟؟؟؟
جب خواتین پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے رپورٹس دیکھتے ہیں تو مرد '' ظالم سماج '' کے طور پر سامنے آتا ہے ، جو اپنی جسمانی برتری کی وجہ سے خواتین پر جبر کا مرتکب ٹھہرتا ہے ، لیکن کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو خواتین کی جانب سے مرد حضرات کی زندگیاں '' اجیرن '' کرنے کی مرتکب قرار پائی ہیں۔
خاص کر جن حضرات سے دو یا دو سے زائد شادیاں رچائی ہوئی ہیں ان کے بارے میں مشہور مقولہ ہے:
کامیاب شخص کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، اور بربادی کے پیچھے دو دو عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
پاکستان میں آبادی سے متعلق قومی ادارے انسٹی ٹیویٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز کے ایک سرکاری سروے کے مطابق پاکستان میں 43 فی صد خواتین اور ایک تہائی مرد یہ سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی کرسکتے ہیں جبکہ 50 فی صد شہری خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ شوہر کی پٹائی کرنا جائز ہے۔
اگر جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ دماغی تشدد شامل کیا جائے تو مرد عورتوں سے زیادہ '' مظلوم '' ٹھہریں گے ، بیوی کی لڑائی، ساس سے جھگڑا، پڑوسن کو گالیاں، نندوں سے جھگڑا، جہاں کہیں بیوی '' پنگا '' لیتی ہے ، قربانی کا بکرا بیچارے '' شوہر '' بن جاتے ہیں، اور اگر کوئی لڑکی '' حقوق نسواں '' کے نام پر گھر سے بھاگ کر شادی کرلے تو معاشرے کے طعنے اور رشتہ داروں کے طنز بھی مردوں کو ہی سہنے پڑتے ہیں۔
اپنی زندگی کی خوشیاں بیٹی کی جھولی میں ڈالنے والے باپ پر کیا گزرتی ہوگی جب اُس کی لاڈلی بھاگ کر '' کورٹ میرج '' کا ڈھونگ رچاتی ہے، زندگی میں پیار محبت جائز ہے ، کرنا چاہیے ، لو میرج بھی ہو مگر '' لو میرج '' کو اگر '' ارینج '' کردیا جائے ، والدین سے بات کرلی جائے تو ایسے رشتوں کے بننے پر خوشیاں بڑھ جاتی ہیں۔
البتہ ہمارے معاشرہ میں والدین بھی روایتی رسم رواج کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی اولاد کی خواہشات کو دفن کرتے ہوئے اپنی پسند اور زمانے کی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں، اور پھر جب نالائق اولاد کوئی قدم اٹھائے تو '' دوشی ''
بہتر ہے مرض کے پھیلنے سے پہلے ہی اُس کا علاج کردیا جائے تاکہ بعد میں ''کینسر جیسی لاعلاج مرض '' نہ بن جائے۔
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔