ہمیں بھی عطاء ہووہ جذبۂِ بلالی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ہمیں بھی عطاء ہووہ جذبۂِ بلالی
اہلیہ سید اسحاق علی شاہ ، اٹک
مدینے کی افق سے بہت دور سورج چلتے چلتے رک گیا، سپیدہ سحر کے انتظار میں اہل مدینہ کی آنکھیں پتھراگئیں لوگ حیران و پریشان بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے۔
آج کی رات کتنی طویل ہوگئی ہے؟ تہجد کی نماز ادا کرنے والے اپنے دیگر معمولات سے بھی فارغ ہوگئے بچے کئی بار سو کر جاگے لیکن رات ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔
لوگ عرض مدعا کر ہی رہے تھے کہ آسمان کا دروازہ کھلا پروں کی آواز فضا میں گونجی پلک جھپکنے پر جبرائیل امین سامنے کھڑے تھے۔
اے اللہ کے رسول! عرش کے سب سے اونچے کنگرے پر ایک فرشتہ مقرر ہے جس کے قبضہ میں سورج کی باگ ڈور ہے، آپ کے غلام حضرت بلال کی آواز سن کر وہ مدینہ کے افق پر سورج کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتا ہے آج وہ فرشتہ اب تک انتظار میں ہے لیکن اب تک مسجد نبوی سے اذان کی آواز عرش تک نہیں پہنچی۔
ارشاد فرمایا: اذان تو ہوگئی البتہ بلال نے اذان نہیں دی ،کچھ لوگوں کی فرمائش پر آج سے ایک خوش الحان مؤذن مقرر کیا گیا ہے۔ جبرائیل امین نے عرض کی عشق و اخلاص کی جس گہرائی میں اتر کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے یہ انہی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرش تک پہنچے کی پرواز سوائے ان کی آواز کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے جب تک وہ اذان نہیں دیں گے مدینہ کے افق پر سحر کا اجالا نہ ہوگا۔
حضرت روح الامین کی درخواست پر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا گیا جونہی اذان کے کلمات فضا میں گونجے رات کی سیاہی چھٹنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف صبح کا اجالا پھیل گیا، اس دن ہر ایک پر حقیقت واضح ہوگئی کہ عشق رسالت نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مقام کتنا اعلیٰ و ارفع کردیا، اور نظر نبوت نے ایک نحیف و و کمزور غلام کی آواز میں کس قیامت کی توانائی پیدا کردی ہے۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے دل میں عشق رسالت کے سوز و گداز کا وہ درد ناک منظر تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی، کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے شوق کی دنیا اجڑ گئی، ہمیشہ کے لیے زندگی کی تمناؤں کا خاتمہ ہوگیا ، دیوانہ وار مدینہ کی گلیوں میں رستہ چلنے والوں سے اپنے محبوب کا پتہ پوچھتے پھرتے، عہدِ رسالت کے بِیتے ہوئے دن یاد آجاتے تو آنکھوں سے خونِ حسرت ٹپکنے لگتا، کبھی ان کی فرقت آمیز آہ و فغاں سے اہل مدینہ کے دل ہل جاتے۔
بالآخر ہجر و فراق کا صدمہ؛ تابِ ضبط سے باہر ہوگیا، بوجھل بدن اور اداسی کے عالم میں اٹھے اور ملک شام چل دیے اور حلب میں سکونت اختیار کرلی۔
ایک دن ذراسی آنکھ لگی تھی کہ قسمت بیدار ہوگئی ، ہاتف غیبی کی آواز پر پلٹ کر دیکھا تو طلعتِ زیبائے رسول سے سارا گھر جگمگا اٹھا تھا اور چہرۂ انور سے تجلیات کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔
ارشاد فرمایا: بلال! بڑی بے وفائی کی ہمارے ساتھ ،ہمیں چھوڑ کر چلے گئے؟ کیا تمہارے دل میں ہماری ملاقات کا شوق پیدا نہیں ہوتا؟ خواب سے اٹھے تو ان پر ایک عجیب رقت انگیز کیفیت طار ی تھی، آنکھیں اشکبار تھیں ،دل کے سمندر میں حب نبی کا جذبہ موجزن تھا۔ اسی وقت رخت سفر باندھا اور مدینے کی طرف چل دیے جذبۂ عشق میں مضطرب روز و شب سفر کرتے رہے، مدینہ جب قریب آگیا تو دل کی حالت قابو سے باہر ہوگئی۔
پہاڑوں صحراؤں اور وادیوں سے پچھلے دور کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں وہ سب ایک ایک کر کے حافظہ میں تازہ ہونے لگیں چند قدم اور کچھ آگے بڑھے تو مدینہ چمک رہا تھا اچانک سیلاب کا بند ٹوٹ گیا، شدت غم سے کلیجہ پھٹنے لگا بے ساختہ ایک چیخ نکلی اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔
کچھ دیر بعد سکون ہوا تو اٹھے دیوانہ وار زارو قطار روتے ہوئے مدینہ میں داخل ہوئے انہیں دیکھتے ہی مدینہ میں ایک شور بلند ہوا، چاروں طرف سے جانثاروں کی بھیڑ لگ گئی پھر وہ عالم احاطہ تحریر سے باہر ہے جب حضرت بلال اپنے محبوب کے روضے پر حاضر ہوئے روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں غم سے سینہ دہکنے لگا چیخ مار کر زمین پر گرے اور بے ہوش ہوگئے کافی دیر بعد ہوش آیا جب تک مدینہ میں رہے عشق و محبت کی دنیا اتھل پتھل ہوتی رہی۔
ایک دن لوگوں نے اذان کے لیے اصرار کیا تو آنکھیں ڈبڈبا گئیں فرمایا: وہ زمانہ پلٹ لاؤ جب میرے محبوب مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور میں شہادت کی انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرتا تھا، جواب سن کر سب لوگ مایوس ہوگئے تو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں کو یقین تھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ؛ نواسۂ رسول کی بات کبھی نہیں ٹالیں گے بالآخر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اصرار پر حضرت بلال اذان دینے کے لیے تیار ہوگئے۔
جس وقت انہوں نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو سارے مدینے میں کُہرام مچ گیا، لوگوں کے دل ہل گئے آہ و فغاں سے ہر گھر میں قیامت کا منظر برپا ہوگیا، کمسن بچے اپنے والدین سے پوچھنے لگے کہ مؤذن حضرت بلال تو آگئے ہمارے امام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کب تشریف لائیں گے، اذان دیتے ہوئے جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کلمہ شہادت پر پہنچے تو حالت غیر ہوگئی۔
حضرت بلال کی یہ پہلی اذان تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سامنے نہیں تھا، ایک عاشق دل گیر اس درد ناک حالت کی تاب نہ لاسکا فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی اور حضرت بلال بے ہوش ہوکر گر پڑے، پھر مدینہ میں ایک شور برپا ہوا، پھر عشق کی دبی ہوئی چنگاری جاگ اٹھی پھر ہجر رسول کا غم دلوں میں تازہ ہوگیا۔
اس واقعہ کے بعد بہت دنوں تک اہل مدینہ کی آنکھیں نم رہیں، حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب تک مدینہ میں رہے زخم رستا رہا غم ِفراق ضبط نہ ہوسکا پھر کچھ دنوں کے بعد ملک شام تشریف لائے۔
آہ !کتنی رقت آمیز داستان ہے ایک حبشی غلام کی جس کی تن کی سیاہی غلاف کعبہ میں جذب ہوگئی اور جس کے دل کا نور عرش کے قندیل نے مستعار لیا جو اپنے نسب کے اعتبار سے تو غلام تھا مگر حسب میں ملت اسلامیہ کا آقا کہلایا۔
اے خوش نصیب:
کہ عشق رسالت کے فیضان نے ایک غبار مشت کو کائنات کے دل کی دھڑکن بنادیا۔
چمکتا رہے تیرے روضے کا منظر

سلامت رہے تیرے روضے کی جالی

ہمیں بھی عطاء ہو وہ شوق ابوذر
 
ہمیں بھی عطاء ہو وہ

جذبۂ بلالی