مصائب و آلام

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مصائب و آلام
مولانا محمد رمضان
لا تعداد مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں، حوادث کا بحر بیکراں ہے، ہر طرف غم و اندوہ کے جھکڑ چل رہے ہیں، واقعات و کیفیات انتہائی خوف ناک بھیانک اور لرزہ خیز صورت اختیار کر چکے ہیں، حالات ایک اندو ہناک ،تکلیف دہ اور دل دوز دھارے پر جا نکلے ہیں۔
آنکھیں خون افشاں اور قلوب شدت غم سے نرخروں کو پہنچ چکے ہیں، دلوں میں عجیب و غریب حالات و وساوس طوفان بے امان کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں نظر دوڑاؤ، مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں، آلام ہی آلام ہیں، ہر کوئی حیران و پریشان ہے۔ دنیا کے تغیرات و حادثات نے مسلمان کو شل کردیا ہے عالم اسلام پر خطرناک حد تک سکوت و جمود طاری ہے ،امت مسلمہ انتہائی کڑے امتحان کٹھن مراحل اور پر آشوب دور سے گزررہی ہے اور گردش ایام کے بھنور میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، امت مسلمہ کوجہات ستہ سے اغیار و اعداء نے گھیرا ہوا ہے، یہ جنگ کے سرد و گرم پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے، اس کے افراد، مقدس مقامات اور دینی شعائر ہر جگہ ظلم و ستم استہزاء اور بے حرمتی کا شکار ہیں، مسلم قوم کا کھلے بندوں قتل عام ہورہا ہے۔ اور اسے سیاسی دھوکوں اور مکرو فریب کا سامنا ہے، وہ چاہے اکثریت میں ہو یا اقلیت میں ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
عرب و عجم میں مسلمان مادی و اقتصادی، فکری اور عسکری پستی اور انحطاط کا شکار ہیں، اور اس کے اہل علم، مذہبی طبقہ اور عوام، بلا تفریق پِٹ رہے ہیں، اور قریب ہے کہ یہ گنہگار امت زندہ در گور کردی جائے اور اس کی تہذیب و تمدن کے نشان تک کو مٹادیا جائے۔
اس وقت کرۂ ارض پر عالم اسلام کی مثال اس قریب المرگ بیمار کی سی ہے جو اپنی زندگی کی آخری سانس گن رہا ہو، یا پھر اس کی مثال ایسی زبوں حال عمارت سے دی جاسکتی ہے، جو مسلسل روبہ زوال ہو اور اغیار اس پراس طرح ٹوٹ پڑے ہوں جیسے بھوکے شیر بھیڑ بکریوں پر۔
اس وقت زمین کو پلٹا دینے والے زلزلوں کا آنا،ایسے طوفان جن سے انسانوں کا خوفزدہ ہونا عالم اسلام کا پچھڑا ہوا جسم میری آنکھوں کے سامنے ہے، اور جب اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہوں اور غور کرتا ہوں تو خدا کی قسم اس کا کوئی عضو بھی صحیح سالم نہیں پاتا، اس وقت مسلمان زخموں سے چور چور ہے، اور سر سے لے کر پاؤں تک خون میں لت پت ہے ہر طرف خون ہی خون ہے، آنسو ہی آنسو ہیں اور گوشت کے لوتھڑے بکھرے ہوئے ہیں۔
جب یہ منظر دیکھتا ہوں تو وحشت سے آنکھیں بہنے اور دل بیٹھنے لگتا ہے، یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟ ایک وقت تھا کہ جب زمین پر زلزلہ آتا تو مسلمان کا کوڑا اسے سکون کی گود میں سلاتا ، طوفان آتے تو ایک خط ہی سے اس کی لہریں بیٹھ جاتیں۔ جنگل میں خونخوار درندوں پر حکم چلاتے۔
اور آج پانی کی وجہ سے انسان یا تو پیاسا سسکیاں لے لے کر جاں بلب ہو رہا ہے یا پانی میں ڈوب کر سسکیاں لے رہا ہے، یہ اس لیے کہ آج امت مسلمہ اتباعِ سنت سے کوسوں دور ہے، حالانکہ ہر شخص کے لیے اقوال و اعمال اور حقائق و احوال میں ظاہری اور باطنی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی لازمی ہے۔
اللہ کا ولی اور محبوب وہی ہوسکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہو جن غیبی امور کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی ہے ان کو سچا سمجھے، مخلوق پر جو باتیں فرض ہیں، ان کی پابندی کرے اور جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان سے احتراز کرے۔
لیکن جس کا عمل اس کے بر عکس ہو، ظاہری اعمال جو اعضاء انسانی سے سرزد ہوتے ہیں یا باطنی اعمال جو دل و ضمیر سے تعلق رکھتے ہیں ان سب میں اگر وہ اسوۂ رسول کا مخالف ہو تو وہ مومن نہیں ہوسکتا کجا کہ اسے بزرگ اور ولی اللہ سمجھا جائے اگرچہ اس سے کیسے ہی خلاف عادت امور ظاہر ہوں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کے احکام میں سے کسی حکم کا چھوڑنے والا ہے یا ان باتوں پر عمل پیرا ہے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے یا وہ نمازیں نہیں پڑھتا طہارت اور پاگیزگی اختیار نہیں کرتا تو ایسے شخص سے اگر خلاف عادت باتیں ظاہر بھی ہوں تو ان کو کرامت نہیں سمجھا جائے گا بلکہ انہیں شریعت میں استدراج کہا جاتا ہے۔ جن کی وجہ سے انسان اللہ کی بارگاہ سے دور ہوجاتا ہے اور اس کی ناراضگی اور عذاب سے قریب ہوجاتا ہے۔
فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگو کہ حق تعالیٰ اس کو پسند فرماتا ہے اور افضل عبادت(بعد فرائض کے) یہ ہے کہ آدمی (مصیبت کے وقت) زوال مصیبت و فراخی عیش کا منتظر رہے۔
اور باعتبار آثار کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حوادثات کی وہاں تک رسائی نہیں کیونکہ آفات و حوادث بجائے پریشان کرنے کے اس کے سکون و جمعیت خاطر میں اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں۔ آج کل ہر جگہ کے مسلمان ایسے حوادث و آفات کے دَور سے گذر رہے ہیں کہ خدا کی پناہ جس کو دیکھو پریشان مصیبت زدہ پھر رہا ہے، ہر شخص اپنے اپنے خیال کے مطابق اس کے علاج و تدبیر میں مشغول ہے۔ مگر نتیجہ بے سود۔
سورۃ اخلاص کا مجرب عمل:
باوضو قبلہ رخ بیٹھ کر ایک ہزار ایک مرتبہ سورۃِ اخلاص پڑھیں پہلی مرتبہ پڑھنے سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ لیں پھر باقی بغیر بسم اللہ کے پڑھیں۔
عمل کے اول و آخر میں سات سات مرتبہ درود شریف پڑھ لیں آخر میں اپنے کے لیے دعا کریں بہت عمدہ عمل ہے اور بعض اہل علم نے اسے اسم اعظم قرار دیا ہے۔
سورہ فاتحہ کا مجرب عمل:
اچھی طرح وضو کر کے خلوت میں دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ پڑھیں پھر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اکتالیس بار سورہ فاتحہ (الحمد شریف) اس ترتیب سے پڑھیں کہ پہلے ہر مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھیں پھر دوبارہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس طریقے سے پڑھیں کہ الرحیم کی میم کو الحمد کے لام سے ملادیں (رحیمِ الْحمد للہ) اس طریقے سے اکتالیس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر سجدہ میں چلے جائیں اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کریں۔
ان شاء اللہ ضرور قبول ہوگی، اس عمل میں بیاسی بار بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی جائے گی اور اکتالیس بار سورۃ فاتحہ نیز فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان اکتالیس بار سورہ فاتحہ پڑنا بھی بے حد مفید ہے۔
غم اور پریشانی دور کرنے کا عمل:
تین ہزار مرتبہ استغفراللہ ربی واتوب الیہ، پڑھیں اگر ایک ہی دن یا دن رات میں پڑھ لیں تو عجیب و غریب تاثیر دیکھیں گے، اور پریشانی دور ہوجائے گی۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔