خوشی وغمی ……مزاجِ شریعت کیا ہے

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
خوشی وغمی ……مزاجِ شریعت کیا ہے ؟
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
انسان کی زندگی دکھ سکھ ، غمی و خوشی ، بیماری و صحت ، نفع و نقصان اور آزادی و پابندی سے مرکب ہے۔ اس لیے شریعت نے صبر اور شکر دونوں کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ بندہ ہر حال میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔
دکھ ، غمی ، بیماری ، نقصان اور محکومیت پر صبر کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کو دور کرنے کے اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم ہے جبکہ سکھ ، خوشی ، صحت ، نفع اور آزادی پر شکر کرنے کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کی قدردانی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اگر دونوں طرح کے حالات کو شریعت کے مزاج اور منشاء کے مطابق گزارا جائے تو باعث اجر وثواب ورنہ وبال جان۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دونوں حالتوں میں خدائی احکام کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مشکل حالات پر صبر کے بجائے ہائے ہائے، مایوسی و ناامیدی اور واویلا کرتے ہیں جبکہ خوشی کے لمحات میں حدود شریعت کو یکسر پامال کردیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کسی گھر میں کوئی فوتگی ہو جاتی ہے تو لوگوں کی زبانیں تقدیر خداوندی پر چل پڑتی ہیں اور مرنے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ " ابھی تو تیرا وقت بھی نہیں آیا تھا " وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف خوشی کے لمحات میں ہم کسی طرح بھی مسلمان نہیں دکھتے، اگر شادی بیاہ کا موقع ہو تو اس سے پہلے اتنی رسوم ادا کی جاتی ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ،اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے کہ آدمی کنگال ہو جاتا ہے۔ ہماری اکثر شادیاں ہندوں کے کلچر میں ڈھل چکی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کا مرحلہ آئے تو ہمارے گھروں میں دور جاہلیت کی یاد پھر سے تازہ ہو جاتی ہے۔ بچہ کی عمر میں اگرسال کا اضافہ ہو تو غیر مسلم اقوام والی رسم سالگرہ ہمارےسادگی والے اسلامی خرمن کو جلا دیتی ہے۔
اگر آزادی والی نعمت ملی ہے تو ہم اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے جنونی و جذباتی بن کر اپنی ناجائز جنسی خواہشات کو تسکین دینے میں جُت جاتے ہیں۔ اسی 14 اگست 2015 ء کو کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ منچلے نوجوانوں نے جشن آزادی کی آڑ میں جنسی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتنی عفت مآب بہنوں کی آنچل کشی ہے۔ ہمارے وطن کا عیاش طبقے اس موقع پر واقعی آزاد ہوتا ہے۔ آزادی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ہی وطن کے قوانین کو روندتے رہیں۔ سال بعد محض ایک دن میں صرف جھنڈے ،جھنڈیاں لگا کر ملی نغموں اور ترانوں کی گونج میں مخلوط بے ہودہ ماحول کو فروغ دے کر ہم اسلامی نظریاتی فلاحی و جمہوری سلطنت کے یوم تاسیس کی روح کو مجروح نہ کریں بلکہ آزادی کا شکرانہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور اس کے استحکام ، سالمیت اور بقاء کے لیے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیں۔
چاند رات ہو ، عید کا دن ہو ، یوم آزادی ہو یا غیر مسلم اقوام کے تہوارمثلاً اپریل فول ویلنٹائن ڈے یا کوئی بھی خوشی کی تقریب۔ اس دوران ہم اپنے جان و مال کو ضائع کرتے ہیں۔کتنے ٹریفک حادثات ہماری خوشیوں کی جان لے لیتے ہیں اور کتنے جنسی جرائم ہمارے اسلامی معاشرے کے معطر ماحول کو متعفن کر دیتے ہیں۔
آئیے ! سب مل کر عزم کریں کہ ہم شریعت کی رہنمائی میں اپنی زندگی بسر کریں گے خوشی کے مواقع پر شکر اور آزمائش کی گھڑیوں میں صبر کریں گے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔