جہالت ……شرمندگی کا سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جہالت ……شرمندگی کا سبب
مفتی محمد معاویہ اسماعیل
شوںںںشوںںںں کی تیزآوازکے ساتھ ہی گاڑی دائیں بائیں جھولتے ہوئے لڑکھڑانے لگی،ایسے لگتاتھا اب گری کہ تب گری،گاڑی رفتارکی زیادتی کی وجہ سے ڈرائیورسے سنبھالی نہیں جارہی تھی،وہ اپنے طورپرجان توڑکوشش کررہاتھا،کچھ بھی ہوسکتاتھاگاڑی الٹ بھی سکتی تھی یاپھرسامنے سے آنے والی کسی بھی چیزسے ٹکراسکتی تھی،ان دونوں صورتوں میں کسی کابچنامعجزے سے کم نہ تھا،گاڑی میں موجودتمام سواریوں کے چہروں پرخوف طاری ہوگیابچے اورخواتین توباقاعدہ چیخنے لگے تھے،نوجوان بھی ایک دم پیش آنے والی اس صورتحال سے کافی گھبراگئے تھے،کئی توکلمہ بھی پڑھنے لگے تھے،کہ اتنے میں کنڈیکٹرکی آوازگونجی،بھئی صبرسے کام لیں،گاڑی کے ایک طرف کے پچھلے دونوں ٹائرپنکچرہوگئے ہیں،کوئی بھی اپنی سیٹ سے اٹھنے کی کوشش نہ کرے ،اپنی اپنی سیٹوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں،سیٹ سے اٹھنے کی صورت میں گرنے کابھی خطرہ ہے، ابھی اس نے اتناہی کہاتھاکہ گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی،اورسب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے دوبارہ اپنی اپنی جگہوں پرواپس جاپڑے،اللہ کاشکرتھاکہ گاڑی بغیرکسی حادثے کے سنبھل گئی تھی،گاڑی کے رکتے ہی سب سواریاں جلدی جلدی نیچے اترنے لگیں کہ کہیں پھرسے یہ دوڑنانہ شروع کردے اوروہ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھیں۔
یاراس مرتبہ توچھٹیوں میں کاغان جاناچاہیےنہیں بھئی میں نے توکراچی جانے کاسوچاہے میں نے کبھی سمندرنہیں دیکھااس بارتومیراپکاارادہ ہے کہ سمندرضروردیکھناہے،عرفان کی بات مکمل ہونے سے پہلے وقاص نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اپنی رائے ظاہرکی،یارتم ہربارمیری مخالفت کرتے ہوجورائے میں دیتاہوں سب سے پہلے تم ہی میری رائے کے خلاف رائے دیتے ہومیں نے تمہاراکیابگاڑاہے؟
پچھلے سال بھی میں نے کہاتھاکہ کاغان جاناچاہیے مگرتم نے میری رائے کی مخالفت کی،اب بھی تم ہی میری رائے کی مخالفت کررہے ہوبس کرویارتم نے توآپس میں ہی لڑناشروع کردیا،اسامہ نے ان کی بات کوختم کرتے ہوئے کہا،بہرحال میری رائے یہ ہے کہ اس مرتبہ چھٹیاں گھرپرگزارنی چاہییں،ماں باپ کابھی کچھ حق ہوتاہے،ان کی خدمت کرنی چاہیے،اسامہ نے ان کے بیچ ہونے والی بحث کوختم کراتے ہوئے اپنی رائے دی،بس تمہیں توہروقت گھرکی فکرلگی رہتی ہے چندمنٹ کی بھی چھٹی ملے توتم توگھرکی راہ لوگے،وقاص نے حسب عادت اسامہ کی رائے پرتنقیدکرتے ہوئے کہا،یارتم بھی توکچھ بولوسداکے خاموش حسن کوکہہ کرہی بلواناپڑتاتھاورنہ عام طورپروہ کوئی رائے دینے کی بجائے ساتھیوں کی رائے سے ہی اتفاق کرتاتھا۔
 
حسن،وقاص،اسامہ اورعرفان ان چاروں کا ایک گروپ تھا،ان کاآپس میں بے حداتفاق تھا،ان کاآناجاناپڑھناسب کچھ اکٹھاہوتاتھا،ان میں سے ہرایک دوسرے کابھرپورخیال کرتاتھا،دوسرے کے دکھ پرتڑپ جاناتوکوئی ان سے سیکھے اورسب کے سب شریعت کے امورکی پابندی کی بھی حتی الوسع کوشش کیا کرتے تھے،اسی وجہ سے ان کاکافی وقت علماءکرام کی صحبت میں گزرتاتھاجس کے نتیجے میں وہ شریعت کے کافی سارے مسائل سے بھی واقف تھے،ان میں سے حسن سادہ طبیعت کاخاموش نوجوان تھا،جبکہ اس کے برعکس باقی تینوں کچھ باتونی واقع ہوئے تھے۔
آج بھی وہ اس بات پرمشاورت کررہے تھے کہ آنے والے امتحان کی پندرہ چھٹیاں کہاں گزاری جائیں،ہرایک اپنی رائے دے چکاتھااب حسن کی باری تھی اوروہ سب اس کی طرف متوجہ تھے،جی بھئی حسن اب کچھ بولوبھی سہی تم نے توچپ سادھ لی ہے،ایساکروآپ مشورہ کرلوجوآپ کی رائے ہوگی وہی میری رائے ہوگی،وقاص کے پوچھنے پرحسن نے کہاتوسب نے کہانہیں تم اپنی رائے دو،یہ کہہ کرسب پھرایک دفعہ اس کی طرف متوجہ ہوگئے،تھوڑی دیرکے بعدحسن گویاہوامیری رائے یہ ہے کہ ہمیں دس دن تبلیغی جماعت کے ساتھ لگانے چاہییں،اس میں سیرکے ساتھ ساتھ ہمیں دینی کافی فائدہ ہوگا،کمال ہے یارحسن! جب بھی توبولتاہے توکوئی نہ کوئی کام کی بات ہی کرتاتھا،بس ٹھیک ہے،ہم آج ہی تیاری کرتے ہیں،کل منگل ہے کل سے ہمیں چھٹی ہورہی ہے ہم کل سے ہی روانہ ہوجاتے ہیں۔سب نے متفقہ طورپرکہااور تیارہوگئے۔
بس انتہائی تیزرفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی،سفرکافی لمباتھا کوئی سورہاتھاتوکئی جاگ رہاتھا،کوئی گپ شپ کررہاتھاتوکوئی مطالعہ کررہاتھا،کہ اچانک ان کے کانوں میں شوں ںںںںشوںںں کی تیز آوازگونجی، اور پھربس ہچکولے کھانے لگی سب پرخوف طاری ہوگیاجونیندمیں تھے اس یکدم افتادپرپاگلوں کی طرح ادھرادھردیکھنے لگے،اللہ کاکرم ہواکہ بس تیزرفتاری کے باوجودسنبھل گئی،ورنہ ایک توراستہ بہت خراب تھا،ادھربس کی رفتاربہت زیادہ تھی،بس کے رکتے ہی سب سواریاں بس سے نیچے اترگئیں،اورحسن، وقاص، اسامہ اورعرفان بھی نیچے اترآئے،نیچے آکرپتہ چلاکہ یہ ایک توایک ویران سی جگہ ہے جہاں دوردورتک کوئی آبادی نظرنہیں آتی،مزیدیہ کہ بس کے دونوں ٹائرپھٹ چکے تھے،بس والوں کے پاس اضافی ٹائرایک ہی تھاجوکہ ناکافی تھا،بس والے کسی اورسواری کاانتظارکرنے لگے،کہ اس کے ذریعے سے ٹائرکسی آبادی میں لے جاکرٹھیک کروائے جاسکیں،اورابھی دوردورتک کسی سواری کے کوئی آثارنہ تھے،ویسے بھی ا س بایان راستے پربڑی گاڑی ہی آتی تھی چھوٹی گاڑیوں والے خوف کے مارے اس راستے سے نہیں گزرتے تھے،اگرابھی سے کوئی رسدمل جاتی تب بھی یہ یقین تھاکہ چارسے پانچ گھنٹے یہاں لگ جائیں گے،اتنے میں اندھیراپھیلناشروع ہوگیا،یارکیاخیال ہے عصرکی نمازپڑھ لیں،وقت تولگتاہے گزرتاجارہاہے،حسن نے رائے دی توباقی اس بات پرتیارہوگئے لیکن وضوکیلئے پانی کہاں سے لیں،پانی تھاتووہ بھی بقدرضرورت تھا،جوکہ پینے کیلئے کفایت کرسکتاتھا،قریب میں بھی پانی ملنے کے کوئی امکانات نہ تھے،اوریہ بھی پتہ نہیں کہ کتناوقت اورلگناتھا،ایساکرتے ہیں کہ تیمم کرلیتے ہیں،اورنمازپڑھ لیتے ہیں ٹھیک ہے سب تیمم کرنے کی تیاری کرنے لگےارے ادھر دیکھو!اس کوکیاہوا؟یہ اپنے منہ پرمٹی کیوں مل رہاہے،حسن نے ایک طرف اشارہ کیاتووہ سب اس طرف متوجہ ہوگئے اورپھرتویہ ہواکہ جس نے بھی اس طرف دیکھااس کی ہنسی کے فوارے چھوٹ گئے،کہیں یہ پاگل تونہیں ہوگیا،ہواکچھ یوں کہ جیسے ہی انہوں نے تیمم کرنے کاارادہ کیاتوکیادیکھاکہ ایک آدمی ہے جواپنے منہ پرمٹی مل رہا،جس کی وجہ سے اس کاسارامنہ مٹی مٹی ہوچکاتھا،پھراس نے جلدی سے قمیص اتاری اورزمین پرلیٹ کرقلابازیاں کھانے لگا،کبھی دائیں بائیں کروٹ بدلتااورکبھی الٹی سیدھی قلابازیاں کھاتا،اس کی اس طرح کی حرکات سے کچھ وقت کیلئے لوگوں کی پریشانی کافی کم ہوگئی تھی،اب تواس کوجوبھی دیکھتاوہی کہتااس کوجِن ہوگئے ہیں،کوئی کہتانہیں پاگل ہوگیاہے،اتنے وہ آدمی اٹھ کھڑاہواجلدی سے اپنے بدن سے مٹی جھاڑی اورقمیص پہن لی مجال ہے جواس تمام عرصے میں اس کے لبوں پرمسکراہٹ ہی آئی ہو،وہ سب لوگوں کوایسے دیکھ رہاتھاجیسے وہ ان سب کوپاگل سمجھتاہو،اس کے قریب جانے کوکوئی تیارنہ تھاآخرحسن نے ہمت کی اوراس کے قریب چلاگیابھئی خیریت توہے؟آپ کی طبیعت توٹھیک ہے؟ہاں ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں البتہ مجھے لگتاہے کہ تمہارادماغ اپنی جگہ سے کھسک گیاہے،اتنے میں باقی لوگ بھی ان کے قریب آگئے،نہیں بھئی میں آپ سے اس طرح قمیص اتارکرلیٹنے کی وجہ پوچھ رہاہوں کہیں آپ کوکوئی دورہ وغیرہ یاجنات وغیرہ کااثرجن ہوں گے تجھے دورہ پڑے گاتجھے مجھے کیوں پڑنے لگا،میں توبالکل ٹھیک ہوں،توپھرآپ یہ اس طرح زمین پرلیٹ کیوں رہے تھے،ارے تواتناجاہل ہے شکل سے توتومجھے کوئی مولوی لگ رہاہے،واقعتاکسی نے ٹھیک ہی کہاتھالگنااورہوتاہے اورہونااور!کیاتجھے اتنابھی پتہ نہیں؟ارے پانی نہیں ہے نمازکاوقت ہوگیاتھامیں نے کہانمازقضاءنہ ہوجائے ارے بے وقوف اسی لیے میں تیمم کررہاتھااس کوتیمم کہتے ہیںیہ سنتے ہی وہاں پرموجودسب لوگوں کی ایسی ہنسی چھوٹی کہ رکنے کانام ہی نہ لے رہی تھی،ان کوہنستادیکھ کروہ سب کوایسی نظروں سے گھورنے لگاجیسے وہ سب کے سب پاگل ہوگئے ہوں،آخرحسن نے ہی ہمت کرکے پوچھاکہ آپ کوتیمم کایہ طریقہ کس نے بتایا؟بھئی ایک جگہ مولوی صاحب سے میں نے سناتھاکہ تیمم مٹی سے کیاجاتاکیاآپ نے ان سے تیمم کرنے کاطریقہ بھی پوچھاتھاکہ مٹی سے کرناکیسے ہے؟نہیں یہ تونہیں پوچھاتھا،اس آدمی نے معصومیت سے جواب دیابس پھراسی کی سزاہے جوآپ کے ساتھ ہوا،تیمم ایسے طریقے سے تونہیں کیاجاتا،پھرحسن نے اس کوتیمم کرنے طریقہ بتلایاتووہ کافی شرمندہ ہوا،اوردل ہی دل میں اس کواس بات کااحساس ہونے لگاکہ اگر وہ تکبرکرنے کی بجائے تیمم کرنے کاطریقہ پوچھ لیتاتوآج اس کواس طرح سب کے سامنے یہ ذلت نہ اٹھانی پڑتی،آج اس کویہ ذلت صرف اس وجہ سے اٹھانی پڑرہی تھی کہ اس نے سوال کرنے کواپنی ہتک سمجھاتھا۔