بے لباسی کی ذلت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بے لباسی کی ذلت
ابو یحییٰ
اسماعیل صاحب کو گھر آئے ہوئے ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ ان کی طبیعت اب مکمل ٹھیک ہوچکی تھی۔ کچھ احتیاط تھی جو وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر کررہے تھے۔ عبداللہ بھی کئی دفعہ ان کی طبیعت معلوم کرنے آیا تھا۔ ان دونوں کا ذوق مشترکہ تھا یعنی مذہب۔ اس لیے زیادہ تر گفتگو بھی اسی حوالے سے ہوتی۔ وہ اکثر قرآن مجید لے کر ان کے پاس بیٹھ جاتا اور مختلف اہل علم کی آراء کی روشنی میں قرآن مجید کی شرح و وضاحت کرتا۔ رفتہ رفتہ اسماعیل صاحب اس کی سیرت کی ساتھ اس کے علم سے بھی متاثر ہوتے جارہے تھے۔
انہیں عبداللہ کے ساتھ رہ کر اندازہ ہورہا تھا کہ یہ لڑکا غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت ہے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ ذوق اور مطالعے کی عادت کی بنا پر اس کا علم اورسمجھ غیر معمولی ہے۔ جو بات ایک پڑھے لکھے مذہبی آدمی کو معلوم نہیں ہوتی تھی وہ عبداللہ بہت آسانی سے بیان کردیتا تھا۔ اسماعیل صاحب اکثر اس سے کہتے تھے کہ وہ بظاہر ایک عام سا غیر مذہبی شخص لگتا ہے، لیکن وہ کسی عالم سے زیادہ صاحب علم ہے۔ جواب میں عبداللہ ہنس کر خاموش ہوجاتا۔
عبداللہ انہیں کیا بتاتا کہ دینی علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا عبد اللہ کا خواب تھا۔ مگر دوسری طرف دنیوی تعلیم کے بعد ملنے والی غیر معمولی دنیوی ترقی نے اس کے لیے صرف یہی راستہ چھوڑا تھا کہ وہ دن بھر دفتر میں معاش کے مسائل نمٹائے اور شام میں اپنے دینی ذوق کی تکمیل کرے۔ اس کی زندگی ایک کشمکش میں گزررہی تھی۔ اس کی تعلیم کچھ اور تھی اور اس کا ذوق کچھ اور تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ عمرہ کرنے گیا تو خدا سے یہی دعا کرتا رہا تھا کہ اس کی منزل اس کے سامنے واضح ہوجائے۔ اس کے لیے ایسے راستے کھل جائیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کرسکے۔ مگر سر دست یہ ایک خواب تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ خاندانی سرپرستی سے محروم ایک یتیم کے سامنے پہلا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات؛ گھر، گاڑی، شادی ، بچوں اور خاندان کی ضروریات پوری کرے۔
اسماعیل صاحب کے گھر میں اسے اپنی منزل نظر آنے لگی تھی۔ ناعمہ اس کے دل کے دروازے پر دستک دیے بغیر داخل ہوئی اور چپکے سے خانہ دل پر اپنا مستقل نقش بنالیا۔ یہ نقش مٹانا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ دوسری طرف اسماعیل صاحب بھی کئی دفعہ دبے لفظوں میں یہ بات کہہ چکے تھے کہ وہ اسے اپنا بیٹا بنانا چاہتے ہیں۔ یوں وہ اپنی نئی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ عنقریب اس کے خواب بکھرنے والے ہیں۔
ایک شام جب عبداللہ اسماعیل صاحب سے مل کر اپنے گھر روانہ ہوا تو آمنہ بیگم اسماعیل صاحب کو دوا کھلانے ان کے کمرے میں آئیں۔ اسماعیل صاحب نے دوا کھانے کے بعد اپنی بیٹی سے دریافت کیا:’’بیٹا! تم نے ناعمہ سے عبداللہ کے حوالے سے بات کی؟ مجھےاب اپنی زندگی کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور یہ لڑکا مجھے بہت پسند ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی ہی میں ناعمہ کی ذمہ داری سے فارغ ہو جاؤں۔‘‘
’’ابو! ناعمہ اس رشتے پر راضی نہیں ہے۔‘‘آمنہ بیگم نے سر جھکا کر جواب دیا۔
یہ سن کر اسماعیل صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ انہیں شاید یہ امید نہیں تھی کہ ان کی نواسی ان کے پسند کیے ہوئے رشتے سے انکار کردے گی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے پوچھا:’’عبداللہ میں خرابی کیا ہے؟‘‘
’’وہی جو ناعمہ کے والد شہزاد میں تھی۔‘‘، آمنہ بیگم نے اداسی کے ساتھ جواب دیا۔
’’شہزاد کے ساتھ تو تقدیر نے خرابی کی۔ ورنہ آج وہ زندہ ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ مگر تقدیر ہر دفعہ خراب نہیں ہوتی۔‘‘
’’اب زمانہ بدل گیا ہے ابو!‘‘، آمنہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا:’’اب ہم اپنی اولاد پراپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتے۔ آج کے بچے ہماری نسل کی طرح اپنی قسمت پر صابر و شاکر نہیں رہتے۔ وہ اپنی قسمت آپ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ فیصلے سنتے نہیں، اپنے فیصلے آپ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے فیصلے غلط ہوں تو اس کا الزام کم از کم اپنے آپ کو دیں۔ اپنے پیاروں کو تو کٹہرے میں کھڑا نہ کریں۔‘‘
’’تمہاری بات ٹھیک ہے، مگر دیکھو تو سہی عبداللہ میں کتنی خوبیاں ہیں۔ وہ اچھی شکل کا ہے۔ بہت باصلاحیت ہے، اچھی ملازمت کرتا ہے پھر اس نے ابھی ہسپتال میں ہمارا کس طرح ساتھ دیا ہے،سارا دن جاب کرتا اور ساری رات میرے سرہانے ایک کرسی پر بیٹھا رہتا تھا۔ اور نیک دیکھو کتنا ہے۔ اگر نیکی، شرافت اور صلاحیت کو دیکھنے میں ناعمہ کی نوجوان آنکھیں کامیاب نہیں ہو رہیں تو تم تو دیکھ سکتی ہو۔‘‘
’’ابو! ناعمہ جہاں سے زندگی شروع کرنا چاہتی ہے، عبداللہ شاید بڑھاپے تک بھی اس منزل پر نہ پہنچ سکے۔ آپ یہ بھی تو دیکھیے عبداللہ اور اس کے خاندان کا ہمیں بہت زیادہ پتہ نہیں ہے۔ اتنی کم ملاقاتوں میں اتنے بڑے فیصلے نہیں کیے جاتے۔ پھر ناعمہ کے لیے اور بہت سے رشتے آرہے ہیں۔ ناعمہ خوبصورت ہے، تعلیم یافتہ ہے، اچھے گھرانے سے ہے۔ ایک دو رشتے ناعمہ کے اور آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو بالکل ویسا ہی ہے جیسا ناعمہ چاہتی ہے۔‘‘
’’کہیں ناعمہ کی اپنی کوئی پسند تو نہیں؟‘‘، اسماعیل صاحب نے ایک امکان کو سامنے رکھتے ہوئے پوچھا تو آمنہ بیگم نے فورا تردید کردی۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ ناعمہ کا کبھی کسی لڑکے سے کوئی ربط و ضبط نہیں رہا۔ بس اس کے کچھ خوف ہیں کہ جو محرومی اس نے جھیلی ہے اس کی اولاد کو نہ دیکھنی پڑے۔ پھر اس کے پس منظر کی لڑکیاں اونچا ہی سوچتی ہیں۔ اس جیسی شکل و صورت کی لڑکی فطری طور پر آج کل کے معاشرے میں رہ کر ایسا ہی سوچے گی۔ معاشرہ میں خوبصورتی کا جو سکہ سب سے زیادہ چلتا ہے وہ ناعمہ کے پاس بے حساب ہے۔ پھر وہ اوسط درجے کے ایک رشتے پر کیسے قانع ہوجائے۔ میں بھی اسے کوئی عقلمندی نہیں سمجھتی۔‘‘ماں نے اپنا وزن بیٹی کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے گویا اپنا فیصلہ بھی سنادیا۔
’’دوسرا رشتہ کیسا ہے؟‘‘ اسماعیل صاحب نے ہار مانتے ہوئے بیٹی سے دریافت کیا:’’بہت امیر گھرانا ہے۔ لڑکا امریکہ میں تعلیم کے آخری مرحلے میں ہے۔ چند مہینے میں آنے والا ہے اور وہ لوگ اس کے بعد فوراً ہی شادی کرنا چاہتے ہیں۔میں نے تصویر دیکھی ہے لڑکے کی۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ رشتے والی خاتون بتارہی تھیں کہ انہیں رشتوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈیں گے تو ہزار ملیں گے۔ مگر چونکہ وہ خاتون میری پرانی جاننے والی ہیں، اس لیے انہوں نے ترجیحاً سب سے پہلے مجھ سے کہا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ فوراً ہاں کہہ دیں۔ ایسے رشتے بار بار نہیں ملتے۔‘‘
’’پھرمجھ سے کیا پوچھتی ہو، ناعمہ ہی سے پوچھ لو۔‘‘، اسماعیل صاحب نے قدرے بے رخی اور بے پرواہی کے ساتھ کہا۔
’’مجھے معلوم ہے جو ناعمہ کو چاہیے وہ سب اس میں موجود ہے۔مجھے یقین ہے وہ ہاں کہہ دے گی۔ اسکی سہیلی فاریہ کی بھی منگنی ہوچکی ہے اوراب ناعمہ کی شادی بھی ہوجانی چاہیے۔ آپ ہاں کہہ دیں تو اگلے ہفتے باقاعدہ بات چیت ہوجائے گی۔ ‘‘
’’میری ہاں تو بس ایک رسمی سی بات ہے۔ مگر میں عبداللہ کا سامنا کیسے کروں گا؟‘‘
’’تو کیا آپ نے عبداللہ سے بات کرلی تھی؟‘‘
’’میں نے تم سے بات کرنے سے قبل اس کا عندیہ اشاروں کنایوں میں لے لیا تھا کہ کہیں اس کی کوئی اور پسند نہ ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ناعمہ سے ہم بات کرلیں اور عبداللہ بعد میں منع کردے۔ یوں ناعمہ کو کوئی دکھ پہنچے۔مگر یہاں معاملہ ہی الٹا ہوگیا۔ اب تو عبداللہ کو دکھ ہوگا۔ میں نے سوچا تھا کہ ساری زندگی اللہ نے بیٹا نہیں دیا۔ اب عبداللہ جیسا بیٹا ملے گا جو میرے ذوق، مزاج اور خوابوں کے مطابق ہے۔ مگر شاید زندگی کے آخری حصے میں یہ محرومی اور دیکھنی تھی۔‘‘
’’عبداللہ آپ سے مخلص اور واقعی اچھا لڑکا ہے تو پھر بھی آپ کے پاس آتا رہے گا۔‘‘
’’پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟‘‘، اسماعیل صاحب نے آہستگی سے کہا اور آنکھیں بند کرلیں۔
دو ہفتے بعد ایک سادہ تقریب میں ناعمہ کی منگنی ہوگئی۔ لڑکا ملک سے باہر تھا۔ اس کے گھر والے زیورات اور مٹھائی لے کر ان کے گھر آگئے تھے۔ اسی موقع پر شادی کی تاریخ بھی طے پاگئی جو تین مہینے بعد کی تھی۔ اس موقع پر دونوں طرف کے لوگ بہت خوش تھے۔ ناعمہ عام طور پر بہت سادہ رہتی تھی۔ مگر منگنی والے دن جب وہ میک اپ کرکے باقاعدہ تیار ہوئی تو ہر دیکھنے والے کو لگا کہ گویا چاند زمین پر اتر آیا ہے۔ دوسری طرف ناعمہ کے سسرال والوں کی گاڑیاں، گھر اور معیار زندگی دیکھ کر ہر شخص ناعمہ کی قسمت پر رشک کررہا تھا کہ وہ کتنے بڑے گھر میں بیاہی جارہی ہے۔ اس کے سسرال والے تو بڑے دھوم دھام سے یہ تقریب کرنا چاہ رہے تھے، مگر اسماعیل صاحب نے اپنی بیماری کا عذر بیان کرکے تقریب کو بہت سادہ رکھوایا تھا۔
انہیں یہ فکر بھی تھی کہ وہ لوگ کسی طور پر ان کے ہم پلہ نہیں تھے۔ ناعمہ اپنی ناسمجھی اور آمنہ بیٹی کی محبت کی بنا پر یہاں رشتہ تو کررہیں تھیں، مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایسے غیر مساوی رشتوں میں کیا مسائل پیش آتے ہیں۔ وہ کیا کرتے، ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ ان کا دل اندر سے بہت اداس تھا۔ عبداللہ کے حوالے سے ان کے دل پر ایک بوجھ تھا۔ ان اندیشوں اور بوجھ کے ساتھ غالباً وہ اس تقریب کے واحد شخص تھے جو خوش نہیں تھا۔ اگلے دن انہوں نے یہ بوجھ اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔
عبداللہ آج بہت خوش تھا۔ وہ جھومتے ہوئے اپنی نئی چمچماتی گاڑی کو چلاتا ہوا اسماعیل صاحب کے گھر جارہا تھا۔ کل شام ان کا فون آیا تھا کہ وہ ان سے آکر مل لے۔ وہ خود ان سے ملنے جانا چاہتا تھا۔ اس نے پچھلے ہفتے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نئی جاب جوائن کی تھی۔ اس کمپنی نے اسے رہنے کے لیے ایک گھر اور نئی گاڑی بھی دی تھی۔ اب عبداللہ کی زندگی میں کوئی کمی تھی تو صرف ناعمہ کی۔ ناعمہ پچھلے کچھ عرصے میں اس کی زندگی اور خیالوں کا حصہ بن چکی تھی۔ محبت کیا ہوتی ہے۔ انسان کو وہ کس طرح پگھلا دیتی ہے۔ کس طرح اسے سرشار کردیتی ہے۔ کس طرح دنیا کے ہر رنگ کو بدل دیتی ہے۔ آج کل عبداللہ اسی تجربے سے گزررہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ قدرت نے ناعمہ کی شکل میں اسے اپنی زندگی کا بہترین تحفہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسماعیل صاحب کی باتوں سے بھی اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ اسے اس حیثیت میں قبول کرچکے ہیں۔
سب کچھ ایسا ہی ہورہا تھا جیسا اس نے چاہا تھا۔ جیسا ا س کی خواہش تھی۔ اور سب سے بڑھ کر جیسے اس کے خواب تھے۔ وہ اس پروردگار کی شکر گزاری کے احساس میں جی رہا تھا جس نے ایک دو برس کے اندر اندر اس کی زندگی بدل دی تھی۔ تعلیم کے آخری مرحلے ہی میں ایک بہترین جاب کی آفر ہوگئی تھی۔ تھوڑا تجربہ حاصل ہوتے ہی مارکیٹ میں اس کی بہت اہمیت ہوگئی۔ چنانچہ فوراً اس نے نئی جاب تلاش شروع کردی اور زیادہ تردد کے بغیر اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی۔ جہاں بہترین تنخواہ کے ساتھ متعدد مراعات بھی اسے دی گئی تھیں۔
انہیں خیالات میں مگن وہ ناعمہ کے گھر پہنچا۔ کال بیل بجائی تو دروازہ ناعمہ ہی نے کھولا۔ ناعمہ کو دیکھ کر بے اختیار اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ سب سے پہلے وہ ناعمہ کو اپنی نئی جاب اور کامیابی کا بتائے۔ مگر ناعمہ نے تو اس کے سلام تک کا جواب نہیں دیا تھا۔ اسے خاموشی سے اندر ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ اپنے نانا کو بلانے چلی گئی۔ ناعمہ کا رویہ شروع ہی سے اس کے ساتھ کچھ ایسا تھا۔ مگر عبداللہ کا خیال تھا کہ وہ کم گو اور با حیا لڑکی ہے۔ اس لیے فطری طور پر ایک اجنبی نوجوان سے کسی قسم کی گفتگو کرنے سے کتراتی ہے۔
تھوڑی دیر میں اسماعیل صاحب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو عبداللہ نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ کیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں صوفے پر بٹھایا۔ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے:
’’بیٹا کافی دنوں سے تم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ کہاں مصروف تھے؟‘‘
’’جی میں ذرا نئی جاب کی ذمہ داریاں سنبھالنے میں مصروف تھا، اس لیے حاضر نہیں ہوسکا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ لائی ہوئی مٹھائی اس نے ان کے سامنے رکھی اور پھر بڑی سرشاری کے عالم میں انہیں اپنی نئی جاب اور ملنے والی تنخواہ اور سہولیات کی تفصیلات بتانے لگا۔ یہ سب بتاکر وہ بولا:
’’سر میرا اپنا تو کوئی ہے نہیں۔ اس لیے مجھے آپ کو یہ سب کچھ بتا کر بہت خوشی ہورہی ہے۔ آپ آنٹی اور ناعمہ کو بھی یہ مٹھائی دے دیجیے گا۔‘‘
’’ہاں بیٹا ضرور دوں گا۔ تمہاری کامیابیوں سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مجھے بھی تمہیں مٹھائی کھلانی ہے۔ دراصل پرسوں ہم نے ناعمہ کی منگنی کردی ہے۔ تین مہینے بعد اس کی شادی کی تاریخ مقرر ہوئی ہے۔‘‘
اسماعیل صاحب یہ سب کہہ رہے تھے تو ان کا سر جھکا ہوا تھا۔ وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پارہے تھے کہ جس لڑکے کو وہ بار بار یہ کہہ چکے تھے کہ میں ساری زندگی کے لیے تمھیں اپنا بیٹا بنانا چاہتا ہوں، اس سے نظریں ملا کر اسے یہ بتائیں کہ اب اس کا کوئی امکان نہیں رہا ہے۔
یہ اسماعیل صاحب کی کیفیت تھی اور دوسری طرف ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ فضا میں سنسناتی ہوئی گولیوں کی طرح عبداللہ کے کانوں تک پہنچے اور اس کی روح اور دل کو اندر تک چھیدتے چلے گئے۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھاگئی۔ اس لمحے میں عبداللہ اپنی پوری طاقت اور قوت خرچ کرکے اپنے کرچی کرچی وجود کو سمیٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی بھرپور کوشش تھی کہ اسے اپنے چہرے کے تاثرات، لب و لہجے اور ان آنسوؤں پر قابو رہے جو سیلاب کی طرح جذبات کا ہر بند توڑ کر باہر نکلنے کے لیے بے چین تھے۔
عبد اللہ نے ساری زندگی محرومیوں میں گزاری تھی۔ ان محرومیوں کا سب سے بڑا فائدہ اسے آج ہورہا تھا۔ جب اسے زندگی کی سب سے بڑی محرومی کی اطلاع مل رہی تھی۔ جب آب حیات کے چشمے سے اسے زہر کا ساغر پینے کو مل رہا تھا۔ مگر ساری زندگی کے صبر ، ضبط اور برداشت کی بنا پر اس لمحے میں اسے اپنے آپ کو کچل کر خود پر قابو پانے میں کافی سہولت ہورہی تھی۔ اس نے اپنی پوری قوت استعمال کی اور آواز کے ارتعاش پر قابو پاتے ہوئے بولا:’’سر آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ آنٹی اور ناعمہ کو بھی میر ی طرف سے بہت مبارکباد دیجیے گا۔‘‘
پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ مستحکم لہجے میں یہ جملے ادا کرنے کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔ اس نے اپنی زندگی کا ایک اور معرکہ جیت لیا تھا۔ دوسری طرف اسماعیل صاحب کی جان میں جان آئی اور وہ تفصیل سے ناعمہ کی سسرال اور ہونے والے شوہر کے بارے میں بتانے لگے۔ اس بیان میں دولت، کارخانوں اور گاڑیوں، ملازموں کی تفصیلات بہت زیادہ تھیں۔ یہ بات بھی اس میں شامل تھی کہ لڑکا ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے اور ہنی مون کے لیے اس کا پروگرام تھا کہ یورپ اور امریکہ کے دو براعظموں میں جایا جائے۔ شاید اسماعیل صاحب لاشعوری طور پر یہ تفصیلات بیان کرکے عبداللہ کے سامنے اپنی پوزیشن صاف کررہے تھے کہ ایسے رشتے کا انکار ہم کیسے کرسکتے تھے۔ وہ یہ بات بتاکر عبداللہ کو دکھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ جس لڑکی کو وہ دل کی گہرائیوں میں جگہ دے چکا ہے، وہ اسے پہلے ہی دھتکار چکی تھی۔
پوری رات گزر گئی۔ عبداللہ نے ایک لقمہ کھایا نہ ایک لمحہ سویا۔ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ ناعمہ کے گھر سے باہر نکلنے تک انتہائی پرسکون نظر آتا رہا۔ لیکن اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جیسے ہی وہ مرکزی شاہراہ پر آیا اس نے اپنے آپ سے مزاحمت کرنا چھوڑ دی۔ سارے بند ٹوٹ گئے اور دل کا سیلاب آنکھوں کے رستے بہہ نکلا۔ سارے راستے وہ ہچکیاں لے کر روتا رہا۔ رات گئے تک اس کی کیفیت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
وہ عشا کی نماز کے لیے جائے نماز پر کھڑا ہوا تو اس سے ہٹ نہیں سکا۔ رات بھر وہ جائے نماز پر کھڑا رہا۔ ایک لمحے کے لیے اس کے آنسو نہیں رکے۔ وہ بلک بلک کر روتا رہا اور بار بار سجدے میں جاکر ایک ہی جملہ کہتا:’’پروردگار مجھے تجھ سے کوئی شکوہ نہیں اور اگر شکوہ ہے تو صرف تجھی سے ہے۔ تیرے سوا نہ کسی سے کچھ کہنا ہے نہ کہیں اور جانا ہے۔مجھے تیرا ہر فیصلہ قبول ہے۔ لیکن میرا اپنا آپ میرا ساتھ نہیں دیتا۔ میرے آنسو میرا ساتھ نہیں دیتے۔ تو مجھے معاف کردے۔‘‘
عبداللہ کا دل پھٹا جارہا تھا۔ اس کی زندگی محرومیوں کی ایک داستان تھی۔ پچپن سے ماں باپ کا سایہ نہ ملا۔ بہن بھائی نہ تھے۔ ایک طفل یتیم دور اور قریب کے رشتہ داروں پر بوجھ تھا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکے کھاتا رہا۔ خوش قسمتی سے بےپناہ ذہانت کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہا۔ شعور میں قدم رکھتے ہی اپنا بوجھ خود اٹھایا اور ہاسٹلوں میں رہ کر تعلیم پوری کی۔ نہ گھربار نہ رشتہ دار نہ دوست یار۔ اور اب جب وہ سمجھ رہا تھا کہ وقت اپنے ہر زخم کا مداوا کرنے جارہا ہے، زندگی کی سب سے بڑی محرومی اس کے سامنے آگئی۔ اس محرومی نے عبداللہ کو مکمل طور پر توڑ پھوڑ کررکھ دیا تھا۔
اب وہ اس محرومی کے ساتھ اس در پر کھڑا تھا جہاں آنے والے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتے۔ جہاں مانگنے والے ہفت اقلیم کی بادشاہی بھی مانگ لیں تو سب کچھ دے کر بھی اس اَن داتا کے خزانے میں ذرہ برابر کمی نہیں آتی۔جہاں مایوسی کفر ہوتی ہے۔ مگر عبداللہ کچھ مانگ نہیں رہا تھا۔ بس وہ خدا کے سامنے کھڑا رہا، روتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔ عبداللہ کے لیے یہ محرومی کی وہ سیاہ رات تھی جس کی تاریکیوں نے عمر بھر کے لیے عبداللہ کا احاطہ کرلیا تھا۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ بخشش کی رات ہے۔ وہ بخشش جو قیامت کے بعد بھی ختم نہیں ہوگی۔
وہ خود ابھی بہت کم عمر تھا۔ اپنی ایمانی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ اسے معمولی سا اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ کس اعلیٰ ترین ہستی کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔ وہ ہستی جو اپنے بندوں کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ عبداللہ کچھ نہیں مانگ رہا تھا مگر جو اسے چاہیے تھا وہ دینے والے کو بغیر بتائے معلوم تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ بندہ عاجز کی پہلی ضرورت صبر ہے۔ سو سب سے پہلے وہی دیا گیا۔ قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ عبداللہ کو زبانی یاد تھا۔ فجر سے کچھ پہلے وہ قرآن پڑھتا ہوا سورۃ نمل کے اس مقام پر پہنچا:’’بے شک بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو برباد کردیتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کر ڈالتے ہیں۔‘‘
عبداللہ اس آیت تک پہنچا۔ پھر آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ بار بار یہی آیت پڑھتا رہا۔ وہ اسے دہراتا رہا یہاں تک کہ اس پر واضح ہوگیا کہ یہ آیت اسے کیا بتارہی ہے۔ یہ کہ اللہ سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ اور دل کی بستی سب سے بڑی بادشاہت ہوتی ہے۔ اس بستی میں اگر اللہ داخل ہوجائے تو کسی اور کو وہ وہاں برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ وہاں موجود ہر عزت دار اور محبوب چیز کو نکال پھینکتا ہے۔ انسان اسے محرومی سمجھتے ہیں لیکن یہ توحید کا سب سے بڑا مقام ہوتا ہے۔ عبداللہ کا دل ہمیشہ خدا کا گھر بنارہا تھا۔ مگر پچھلے کچھ دنوں سے اس گھر میں ایک دیوی کی پرستش شروع ہوگئی تھی۔ لمحہ لمحہ کی خبر رکھنے والا آسما ن و زمین کا غیرت مند مالک یہ شرک کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ اس لیے آج رات اس دیوی کو دل کے مندر سے نکال باہر کیا گیا۔ اس معبد میں اب کبھی غیراللہ کا گزر نہیں ہوسکتا تھا۔ عبداللہ کے لیے یہی اس آیت کا مطلب تھا۔ شرک ختم ہوگیا۔ توحید باقی رہ گئی۔ عبداللہ کو قرار مل گیا۔ آنسو تھم گئے۔
فجر کی نماز پڑھ کر عبداللہ لیٹا۔ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ سو اسے بھی آگئی۔ وہ اٹھا تو دفتر جانے کا وقت نکل چکا تھا۔ مگر اب اسے دفتر جانا بھی نہیں تھا۔ سونے سے پہلے وہ ایک فیصلہ اور کرچکا تھا۔ وہ کشمکش جو بہت عرصے سے اس کے اندر جاری تھی آج اس کا فیصلہ بھی ہوگیا تھا۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ گاڑی ،بنگلے اور کیریر کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزاری جائے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے۔ وہ رب جو ہر نعمت دینے والا اور ہر محرومی کو دور کرنے والا ہے۔ اس کا تعارف اس دنیا کے ہر انسان سے کرایا جائے۔ اس کی محبت کی شمع ہر سینے میں جلائی جائے۔ اس کی ذات و صفات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور اس کی ملاقات کے لیے لوگوں کو تیار کرنا سب سے بڑا کام ہے۔ اس نے سونے سے قبل ایک دعا کی تھی۔
’’پروردگار! اس دنیا میں ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ہر شخص بکتا ہے۔ میں اپنے وجود کو کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ہاتھو ں نہیں بیچ سکتا۔ میں تجھ سے اپنا سودا کرتا ہوں۔ مجھے خریدلے۔‘‘صبح اٹھنے کے بعد عبداللہ نے پہلا کام یہ کیا کہ نئی جاب سے اپنا استعفیٰ لکھ دیا۔
جیسے جیسے ناعمہ کی شادی کے دن قریب آرہے تھے شادی کی تیاریوں کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا تھا۔ اسماعیل صاحب کی بیشتر بچت پہلے ہی عمرے میں نکل چکی تھی۔ پھر وہ دل کی انتہائی مہنگی بیماری کا شکار ہوگئے۔ جو بچا تھا کچھ وہ ملایا اور کچھ سرمایہ ایک پلاٹ بیچ کر حاصل کیا اور سارے پیسے بیٹی کے حوالے کردیے۔ آمنہ بیگم ایک سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ناعمہ کے لیے وہ اس کے بچپن ہی سے کچھ نہ کچھ بچا رکھتی تھیں۔ اس لیے عزت و آبرو کے ساتھ تیاری ہو رہی تھی۔ مگر جن لوگوں سے واسطہ پڑا تھا ان کے مقابلے میں ہر تیار ی بے وقعت تھی۔
اس بات کا اندازہ اسماعیل صاحب کو پہلے دن سے تھا۔ اب آمنہ بیگم کو بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ہوتا جارہا تھا۔ جیسے جیسے لڑکے والوں کی طرف سے شادی کے انتظامات اور تیاریوں کی تفصیل ان کے سامنے آتی ان کے ہاتھ پاؤں پھولتے چلے جارہے تھے۔
ان سب فکروں سے اگر کوئی بے خبر تھا تو وہ ناعمہ تھی۔ یہ اس کی زندگی میں بڑی خوشی اور مسرت کے دن تھے۔ اس نے جو خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر اچانک بہت تیزی سے اس کے سامنے نمودار ہوچکی تھی۔ خوشی کے ان لمحات کو وہ سب سے بڑھ کر اپنی گہری سہیلی فاریہ کے ساتھ مل کر انجوائے کررہی تھی۔ آج بھی فاریہ ناعمہ کے گھر آئی ہوئی تھی اوراس کے کمرے میں بیٹھی شادی کے جوڑے ٹانک رہی تھی۔ ہنسی مذاق اور گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ باتوں باتوں میں فاریہ ناعمہ سے کہنے لگی:
’’تمہیں معلوم ہے باہر عبداللہ بھائی آئے ہوئے ہیں؟ نانا ابو کے کمرے میں ان کے پاس بیٹھے ہیں۔‘‘
’’اچھا! مجھے نہیں معلوم۔‘‘، ناعمہ نے بے پرواہی سے جواب دیا۔
’’میں تمھارے پاس آنے سے پہلے آنٹی کے پاس گئی تھی۔ وہی بتارہی تھیں کہ انہوں نے نئی جاب کرلی ہے۔‘‘
’’ہاں میری منگنی کے ایک دو دن بعد وہ نئی جاب کی مٹھائی لے کر آیا تھا۔‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔ یہی تو اصل بات ہے۔ وہ جاب تو بہت زبردست تھی۔ مگر انہوں نے وہ جاب بھی چھوڑ دی۔‘‘
’’ہاں یہی ان مڈل کلاس اسٹرگلنگ نوجوانوں کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ترقی کی خواہش میں جلدی جلدی جاب بدلتے رہتے ہیں۔ مگر بوڑھے ہونے سے پہلے اپنا گھر بنانا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ناعمہ نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تبصرہ کردیا۔
’’ارے پاگل پوری بات تو سن لو۔ انہوں نے بہت اچھی جاب چھوڑ کر پڑھانے کی ایک پارٹ ٹائم جاب کرلی ہے اور باقی وقت میں وہ دینی علوم باقاعدہ سیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے۔ سوسائٹی میں ایک مولوی کا اضافہ اور ہوجائے گا۔‘‘، ناعمہ نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا۔
’’میں نے اپنی زندگی میں اتنا ڈیسنٹ اور نائیس شخص نہیں دیکھا۔ بےچارے اچھی خاصی کیرئیر جاب کررہے تھے۔ اچانک دل میں کیا سمائی کہ ہر چیز پر لات مار کر اس سمت نکل گئے۔‘‘فاریہ نے ہمدردی اور تاسف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا تو ناعمہ تنک کر بولی۔
’’یہ احمق پہلے دن ہی سے ایک جاہل ملّا تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے نانا ابو کی جان کو چمٹ گیا ہے۔ چھوڑ کر ہی نہیں دیتا۔‘‘، ناعمہ کے لہجے میں اتنی تحقیر تھی کہ فاریہ کو بہت برا محسوس ہوا۔
’’وہ نانا ابو کی جان کو چمٹے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا اور آمنہ آنٹی کا بہت بڑا سہارا بن چکے ہیں۔ دیکھو تم تو اپنے نئے گھر چلی جاؤ گی، مگر نانا اور آمنہ آنٹی تمہارے بعد تنہا رہ جائیں گے۔ ایسے میں عبداللہ بھائی ان کا بہت بڑا سہارا ہوں گے۔‘‘
’’میرے بعد وہ سہارا نہیں بنے گا بلکہ اس نے تو میرے ہوتے ہوئے بھی مجھے اس گھر سے عملاً نکال دیا ہے۔ جسے دیکھو عبداللہ ہی کی تعریف کرتا ہے۔‘‘
ناعمہ کے اس جملے سے فاریہ کو اندازہ ہونے لگا کہ ساری زندگی ماں اور نانا کی محبت کی تنہا حقدار ناعمہ کو شاید یہ بات انتہائی ناگوار گزر رہی تھی کہ اس محبت میں اب کوئی دوسرا شریک ہوچکا ہے۔ فاریہ نے عبداللہ کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:
’’بات یہ ہے ناعمہ کہ عبداللہ بھائی نے شروع ہی سے نانا کے ساتھ بڑی محبت کا تعلق رکھا تھا۔ ان کی بیماری میں ان کا بہت ساتھ دیا۔ تمہیں تو شاید کوئی فرق نہ پڑا ہو لیکن ان کے ہونے سے آنٹی اور نانا کو بہت سہارا تھا۔ پھر جب تم نے ان سے شادی کے لیے انکار کیا تو ہم سب کا خیال تھا کہ وہ ناراض ہوجائیں گے۔ مگر انہوں نے شکایت کا ایک لفظ تک نہیں کہا۔ بلکہ ان کا رویہ اور بہتر ہوگیا۔ تمہاری شادی کے کتنے معاملات میں وہ ہی نانا ابو اور امی کی مدد کررہے ہیں اور ان کو مختلف جگہوں پر لے کر جاتے ہیں۔ ایسے بےغرض اور بےلوث شخص سے کون محبت نہیں کرے گا۔‘‘
فاریہ ایک لمحے کو رکی اور ناعمہ کو سمجھاتے ہوئے بولی:’’انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم ہر وقت ان کے پیچھے لگی رہتی ہو۔‘‘
’’وہ میرا کیا بگاڑے گا۔ !He does not exist for me۔ بس اس کی باتوں سے مجھے چڑ آتی ہے۔‘‘
’’ان سے چڑنے کی کہیں یہ وجہ تو نہیں کہ اس گھر میں محبت کا مرکز پہلے ایک ہی ہستی ناعمہ تھی۔ اور اب اس کے ساتھ عبد اللہ بھی۔۔۔ ‘‘
ناعمہ نے دل کا چور پکڑے جانے پر فاریہ کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا:
“!I don’t care”
فاریہ کو محسوس ہوا کہ اس موضوع پر گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔چنانچہ اس نے موضوع بدلنا ہی مناسب سمجھا۔
’’چھوڑو یار، یہ بتاؤ کہ دولہا میاں سے کوئی بات چیت ہوتی ہے۔‘‘
’’نہیں بھئی تم جانتی ہو! میں بالکل بھی رومانٹک نہیں ہوں۔ امی اور نانا کو بھی نہیں پسند کہ کچے رشتوں میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے بات کریں۔ اس لیے اُن لوگوں کی خواہش کے باوجود امی نے میرا موبائل نمبر نہیں دیا۔ مجھے بھی یہ پسند نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن یار ایک بات ہے! تمہاری لاٹری نکل آئی ہے۔‘‘
’’ہاں تقدیر نے کبھی نہ کبھی تو مہربان ہونا ہی تھا۔‘‘
’’یار تم امیر ہو کر ہمیں بھو ل تو نہیں جاؤ گی۔‘‘
’’ارے پاگل ہوگئی ہو کیا! میں دولت اور اسٹیٹس کی بھوکی نہیں ہوں کہ اسے پاکر اپنا ماضی اور رشتے بھول جاؤں گی۔ بس میری خواہش تھی کہ زندگی کی محرومیاں جس طرح میری ماں اور مجھے ساری زندگی گھیرے رہی ہیں، میری اولاد اور خاندان کو ایسے نہ گھیر لیں۔ فاریہ زندگی بس ایک ہی دفعہ ملتی ہے۔ میں تو یہ چاہتی تھی کہ جتنا ہوسکے اس کو انجوائے کرکے اچھے طریقے سے گزاروں۔ اور پھر دولت مند انسان کے دل میں دوسروں کا درد ہو تو وہ دوسروں کی بہت مدد کرسکتا ہے۔‘‘
’’خیر اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ دولت پاکر تم دوسروں کی مدد کرتی ہو یا اپنے پرانے رشتوں کو بھی بھول جاتی ہے۔‘‘
’’فکر نہ کرو! میں بدل نہیں سکتی۔ دنیا کی کوئی طاقت میرے خیالات اور سوچ کو نہیں بدل سکتی۔ میں اپنی دنیا کی خود مالک ہوں۔ میں آپ اپنی خدا ہوں۔‘‘
خدائی کا دعویٰ کرنے والی ناعمہ کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ بہت جلد اس کا واسطہ حقیقی خدا رب ذوالجلال کے کمال و جلال سے پیش آنے والا ہے۔
شفاف نیلگوں آسمان کے نیچے وادی میں دور دور تک سبز گھاس کا فرش بچھا ہوا تھا۔ ہر جگہ مختلف رنگوں کے حسین پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہر رنگ ایسا تھا کہ نگاہوں کو اپنی طرف سے ہٹ کر کسی اور سمت متوجہ ہونے کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔ ہوا کے مدھم جھونکو ں کے ساتھ ہولے ہولے یہ پھول لہرارہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ فطرت نے رنگوں کے تار پر کوئی سر چھیڑ دیا ہے جس پر یہ پھول اور کونپلیں بےخودی کے عالم میں محو رقص تھیں۔ یہ وادی چاروں طرف سے بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی۔ کچھ پہاڑ اونچے اور شاداب درختوں سے لدے ہوئے تھے۔ کچھ ہری گھاس کا مخملی لباس پہنے ہوئے تھے۔ بعض پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ سورج کی کرنیں جب ان برف پوش چوٹیوں سے ٹکراتیں تو سنہری کرنوں کا عکس فضا میں بکھر جاتا۔ برف اتنی پاک و شفاف تھی کہ سفید رنگ ہر رنگ کا بادشاہ بن کر چمک رہا تھا۔ کہیں کہیں یہ سفیدی سورج کی شعاعوں سے منور ہوکر چاندی کا روپ ڈھال چکی تھی۔ دیکھنے والی آنکھ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ فضائے بلند میں آسمانی، سبز، سفید اور سنہری رنگوں کا تال میل زیادہ حسین تھا یا زمین پراس وادی کے رنگ زیادہ جاذب نظر تھے جو پھولوں کے ایک گلدستے کی شکل میں سرسبز پہاڑوں کا دل بنی ہوئی تھی۔
اس وادی میں ایک اور وجود بھی تھا۔ حسن فطرت کا شاہکار یہ نسوانی وجود ناعمہ کا تھا۔ اس کے گہرے سیاہ اور ریشمی بال جو عام حالات میں گھٹنوں سے بھی نیچے جا پہنچتے تھے، اس وقت فضا میں دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ سیاہ بالوں کی کچھ لٹیں دمکتے ہوئے سنہری چہرے سے چھیڑ خانی کررہی تھیں۔ ناعمہ کی بڑی بڑی آنکھیں، کھڑی ناک، صراحی دار گردن بار بار ان بہکتے ہوئے بالوں کا نشانہ بن رہی تھیں۔ انہیں شہہ دینے والے نرم و لطیف ہوا کے جھونکے تھے۔ یہ جھونکے ناعمہ کو بھی دلکش پھول سمجھ کر اس کے مرمریں وجود سے ٹکراتے اور اپنے آپ کو معطر کرلیتے۔کہیں دور کسی درخت کی آغوش میں چھپی کوئی کوئل فطرت کا ایک اور ساز گنگنا رہی تھی۔
وقفے وقفے سے اٹھتی کوک ماحول میں ایسی موسیقی بکھیر رہی تھی جو روح انسانی کے ہر تار کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھی۔وادی کے بیچ میں پھولوں کے درمیان خود کو ایک تتلی کی طرح محسوس کرتی ناعمہ بھی اسی کشمکش میں تھی کہ حسن فطرت کی کون سی ادا زیادہ دلفریب ہے۔ اس کی نظر کبھی رنگ برنگ پھولوں کے قالین پر بہکتی چلی جاتی تو کبھی بلند قامت پہاڑوں کا سبزہ اور سنہری برف اس کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسی حسین جگہ دیکھی تھی نہ اس کے وجود نے ایسے سرور کا کبھی ذائقہ چکھا تھا۔
وہ اسی کیفیت میں تھی کہ اچانک اس کی نگاہ روشنی کے اس مرغولے کی طرف پڑی جو آسمان کی بلندی سے زمین کی طرف آرہا تھا۔ یہ منظر بڑا عجیب تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھ کر اس مرغولے کو دیکھنے لگی جو آہستہ آہستہ اسی کی سمت بڑھتا چلا آرہا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب آرہا تھا اس نے ایک چمکدار ہیولے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ بظاہر وہ انسانی ہیولہ تھا، مگر وہ کوئی انسان نہ تھا۔ ناعمہ کو اس سے کوئی خوف اور اندیشہ محسوس نہ ہوا۔ بلکہ اس کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس سے باتیں کرے۔ اس خواہش کی تسکین کے لیے اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ہیولہ آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا اور زمین سے چند فٹ اوپرمعلق ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی اس سے آواز آئی۔
’’تو تم وہ ناعمہ ہو جسے یہ عزت دی گئی ہے۔‘‘
اس آواز میں عجیب سی تاثیر تھی۔ یہ آواز ناعمہ کے کانوں سے گزر کر دل و دماغ تک پہنچ گئی۔ اس پر آواز اور اس ہیولے کا رعب چھا گیا۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی:’’جی میں ناعمہ ہوں، مگر آپ کون ہیں۔ اور یہ کس عزت کا ذکر کررہے ہیں؟‘‘
ایک دفعہ پھر وہی پرتاثیر آواز آئی۔’’مجھے چھوڑو۔ صرف یہ جان لوکہ اپنی محبوب چیز ایک غریب کو دینے کی ادا تمہارے مالک کو پسند آئی جس کے بعد اس نے تمہیں اپنے قرب کی عزت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ناعمہ کچھ نہ سمجھ سکی اس بات کا مطلب کیا ہے۔ پھر اس خوف اور رعب کا ایسا عالم طاری تھا کہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز نہ نکل سکی۔ وہ خاموشی سے ہیولے کی آواز سنتی رہی۔’’مگر تمہیں دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ تم اس عزت کی مستحق نہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت باعزت بہت باحیا ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ تم ان کا قرب حاصل کرو اور تمھارا حال یہ ہو کہ تم بالکل برہنہ ہو۔‘‘
اس جملے کے ساتھ پہلی دفعہ ناعمہ کی نظر خود اپنے وجود کی طرف لوٹی۔ یہ دیکھ کر وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی کہ اس کے جسم پر کوئی لباس نہیں تھا۔ وہ اتنی دیر سے اس کھلے میدان میں بالکل برہنہ کھڑی ہوئی تھی۔ اور اب ہیولے کے سامنے بھی وہ اسی حال میں تھی۔ اس کا دل چاہا کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ وہ بے اختیار اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے زمین پردہری ہوکر بیٹھتی چلی گئی۔ اس پر شدید احساس ذلت طاری تھا۔ وہ بے اختیار رونے لگی اور ہیولے کی طرف دیکھ کر بولی:
’’میرے کپڑے کہاں گئے؟‘‘
مگر ہیولہ غائب ہوچکا تھا۔ اس نے گھبراکر ارد گرد دیکھا تو ہر طرف اسے انسانوں کا سمندر نظر آیا۔ ہر شخص اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ ناعمہ یہ دیکھ کر بلبلا اٹھی۔ ذلت اور رسوائی کی اس حد کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ہنسنے والے لوگ اب اس کی طرف دیکھ کر انگلیاں اٹھارہے تھے اور دوسروں کو اس کے بارے میں بتارہے تھے۔ وہ بے چین ہو کر کسی پناہ کی تلاش میں چاروں طرف دیکھنے لگی۔ ایسے میں اس کی نظر قہقہے لگاتے ہوئے ہجوم میں موجود ایک خاموش اور اداس شخص پر پڑی۔ اسے دیکھ کراس کی شرمندگی اور بڑھ گئی۔ وہ اسے دیکھ کر چلائی اور بولی:’’یہ میں نے خود نہیں کیا۔ میں نے یہ خود نہیں کیا!‘‘’’ناعمہ بیٹا اٹھو! کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘
آمنہ بیگم نے ناعمہ کو جھنجھوڑا تو وہ اٹھ بیٹھی۔ اس کا دل خوف و دہشت سے لرزرہا تھا۔ اس کی سسکیاں ابھی بھی جاری تھیں۔ شعور میں آتے ہی اس نے بےاختیار اپنے کپڑوں کو چھوا۔ اسے یہ دیکھ کر ایک گونہ اطمینان ہوا کہ اس کے جسم پر لباس موجود تھا۔ اس کے سامنے اس کی والدہ آمنہ موجود تھیں۔ انہوں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا:’’بیٹا ڈرو نہیں۔ تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے۔‘‘
ناعمہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ کئی دن سے یہی خواب دیکھ رہی تھی۔ مگر ہر دفعہ یہ خواب بہت ہی خوبصورت ہوتا تھا۔ یہ خواب ایک حسین وادی کے مناظر تک محدود رہتا جس میں وہ تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتی تھی۔ یہ ہیولے والا منظر اور بےلباسی والی بات آج پہلی دفعہ اس نے دیکھی تھی۔ ایک تیسری بات جو اسی لمحے اسے یاد آئی تھی وہ اس کے دل پر ایک اور زخم لگا گئی۔ ذلت کے اس تماشے میں وہ شخص جو آخر میں اداس اور خاموش کھڑا اسے حسرت سے دیکھ رہا تھا، عبد اللہ تھا۔