غیبی امداد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
غیبی امداد
زہرا ، کراچی
صبح کے وقت وہ تیزی سے باہر نکلی اس کا رنگ سفید تھا اور پاؤں لرز رہے تھے۔ امی اس وقت؟ اس نے بے پناہ خوف سے لڑکھڑاتی آواز میں احتجاج کیا مگر وہ جانتی تھی ماں اس کی ایک نہ چلنے دینے والی۔
اس وقت سب بنگالن ماسی کے گھر کی طرف رواں دواں تھے جو بھنگی پاڑے میں کہیں دور افتادہ مقام پر رہائش پذیر تھی۔
’’اندھیرا چھٹنے سے پہلے پہنچنا ہے نجمہ۔۔۔۔ جلدی کر‘‘ ماں نے درشت لہجے میں کہا اور کپکپاتے ہونٹ میں صدائے التجا دب کر رہ گئی قدموں میں تیزی آگئی اسٹاپ پر رکشہ نہیں مل رہا تھا اب اماں کی جدوجہد بڑھ گئی۔
’’دیکھ کتنی رکاوٹیں آرہی ہیں! کہیں رکشہ نہیں ملتا!‘ ‘اماں نے بے چارگی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا:
’’تجھ سے کتنی بار کہا ہے ! تیری ماں نے جو جھاڑ پھونک سکھائی ہے نہ پڑھا کر مگر میری چلتی نہیں ابوسفیان کے گھرانے کی ہے تیری ماں!‘‘
’’اماں!‘‘ اس نے التجا کو لفظوں کا رنگ دیا مگر چپ ہوگئی۔
’’ٹیکسی !‘‘ اماں چلائی اور پھر دونوں سوار ہوگئیں۔
’’جلدی کرنا بھائی!جلدی ارے ہمیں ٹھیک ۶ بجے پہنچنا تھا مگر یہ بی بی ہے نا پاک دامن اس نے تہجد پڑھ پڑھ کر وقت کا بیڑا غرق کردیا!‘‘ اماں نے پھر اس کو کوسا جبکہ اس معصوم نے اٹھ کر نماز وتر وہ بھی بیٹھ کر پڑھی اس سے کھڑا ہونا مشکل جو تھا۔
رات بھر وہ گھر آنے والے ہر شخص کو چائے پلاتی رہی خود اس کی حالت اچھی نہ تھی بے کس کا شوہر فوج میں تھا اس سے کروڑوں میل دور اور وہ اپنی ساس کے ساتھ۔ ابھی رات اطلاع ملی تھی کہ نو بیاہتا دلہا زخمی ہوگیا ہے اور جب سے سب کا تانتا بڑھ گیا تھا۔
وہ بے چاری جس کی ہاتھوں کی مہندی بھی نہ چھوٹی تھی دل بھی نہ بھرا تھا شوہر تیسرے دن جاب پر چلا گیا اور ادھر ایک ماہ بعد یہ خبر!
’’تیری ماں تعویذ کرتی ہے‘‘ اماں پھر چلائی۔
’’ارے میرا قصور کیا تھا ؟ تجھے بیاہ لائی ؟‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسوو موجیں مارنے لگے دل میں مد و جزر بن رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کو تکنے لگی پھر غلطی سے جب اس نے مہندی والے ہاتھوں کو آپس میں رگڑا تو ساس نے دیکھ لیا۔
’’ارے ! نامراد چاہتی ہے میرا بیٹا مرجائے کیوں اتار رہی ہے سہاگ کی مہندی!‘‘
وہ لرز گئی ’’اماں!‘‘پھر لفظ مچلے مگر زبان نے ادائیگی سے انکار کردیا تو دل نے اکیلے ہی ماتم کرنے کی ٹھان لی۔
’’تو رو کیوں رہی ہے!‘‘ساس نے پھر اس کو لتاڑا تو دل نے کہا زندگی کا کیا فائدہ شوہر کے زخمی ہونے پر رونا منع ہے تو کیا ہنسوں؟ اگر ہنسی تو کہا جائے گا شوہر کے زخمی ہونے کی خوشی ہے! کہاں جاؤں؟
’’سلام بی بی!‘‘ اماں نے سیاہ چہرے والی خرانٹ عورت کو جھک کر سلام کیا اس نے گردن ہلا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’بی بی میرا بیٹا زخمی ہے سنا ہے!ذرا سلامتی کیلئے تعویذ کردو‘‘
’’شادی کردی؟؟‘‘بنگالن ماسی نے اسے بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ہاں یہ اسی کی بیوی ہے‘‘
’’کھونٹے سے باندھنے کے باوجود چلا گیا؟‘‘
بنگالن ماسی نے اس کے اوپر ایسے دیکھا کے اس کو سمجھ نہ آیا وہ شرمائے یا پھر زمین پھٹے اور وہ سما جائے۔
’’بی بی اس کے قدم تو آپ ہی روک سکتی ہیں‘‘
’’اچھا اس کو چھوڑ جائو ابھی! پھر میں رات تعویذ دو تو مغرب کے وقت لے جانا‘‘بنگالن ماسی نے اس پر دوبارہ نگاہ ڈالی۔
’’سمجھ گئی ہونا؟‘‘ بنگالن ماسی نے پوچھا اماں نے ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ گئی۔ اب وہ سوچ رہی تھی شوہر اس کا زخمی تعویذ اس کیلئے ہونا چاہیے وہ کیوں رکے؟ ’’تو یہاں آرام کر دیکھ پریشان نہ کرنا بنگالن ماسی کو ، خبردار بغیر ماسی کی اجازت باہر قدم نکالا‘‘ وہ بے بسی کی تصویر بنی اک پتلی کی طرح اماں کے ہاتھوں میں تھی جدھر اس کا دل کر رہا تھا وہ گھما رہی تھی اور اماں کی ڈوریں بنگالن ماسی کے ہاتھ میں۔
اب اسے ایک علیحدہ کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ وضو تو اس کا تھا ہی وہ اٹھی اور دوپٹہ پھیلا کر اوڑھا اور نفل پڑھنے لگی۔
اس نے شکر کیا کہ اللہ نےنفلی نمازوں میں شرط ہی نہیں رکھی قبلے کی لو جی جدھر منہ کیا شروع وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی پرسکون مگر اندر سے پرشور موجیں مارتے سمندر کے ساتھ۔
یہ کمرہ نہ تھا مقبرہ تھا دیواروں پر سیاہ رنگ ، کارپیٹ سیاہ رنگ کا ، قبر کی طرح سا چھوٹا سا کمرہ اوپر سے عجیب و غریب کڑوی کسیلی بدبوئیں لگتا ہے ان کا گٹر قریب ہی ہے اس نے اندازہ لگایا وہ نماز کے ساتھ کمرے کا جائزہ لیتی جارہی تھی۔
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا بنگالن ماسی نے اندر قدم رکھا وہ لرزنے لگی، سیاہ لبادے میں آنے والی ماسی کی حالت عجیب تھی بکھرے بال ، سرخ دانت جو کسی طرح بھی پان والے نہ تھے ، جوں ہی وہ قریب پہنچی اس کے جسم سے آنے والی مہک نے اس کا دماغ پھاڑ ڈالا تعفن کی بو سے اس کا سانس رکنے لگاقریب قریب۔۔ اور قریب۔۔ اتنا قریب کے اس کی سانس اِس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔
’’بیٹھو‘‘ اس کے کپکپاتے وجود نے دیوار کا سہارا لیا ہوا تھا اگر وہ نہ لیتی تو کب کی گر چکی ہوتی۔
’’یہ پی لو!‘‘ اس نے ایک پیالہ اس کی جانب بڑھایا
’’ی۔۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے خوف سے رکتی نبضوں ، اکھڑتی سانسوں کے ساتھ پوچھا۔
’’پی لو ‘‘ اس نے ہونٹوں سے جڑ دیا۔
’’م۔۔۔۔۔۔۔ م۔۔۔۔۔ ‘‘ اس نے تھوڑا سا احتجاج کی کوشش کی مگر
بنگالن ماسی کی زبردستی کے آگے وہ ناکام ہوگئی۔
بنگالن ماسی اس سے جسم میں مضبوط اور سخت عورت تھی اس کا جسم عورت نہیں مرد ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔
انتہائی کڑوا مشروب پی کر اس کے حواس معطل ہوگئے اس کے کانوں میں آخری آواز یہی آئی۔’’اس کو لٹادو‘‘
’’آہ‘‘ اس نے لرزتے ہاتھوں سے سر تھاما۔
’’محترمہ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘کسی نے اس سے پوچھا۔
’’جی‘‘ اس نے جواب دیا مگر دماغ کی بتی تھی جو گل تھی وہ روشن ہی نہیں ہورہی تھی۔
’’انہیں اب کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘ کسی نے کسی سے کہا۔
’’نرس ان کو وارڈ میں شفٹ کردیں‘‘
اسکے پھر کانوں میں آخری آواز ابھری اور پھر وہ بے خبری کی وادی میں چلی گئی جہاں اس کے خیال کی وادیاں تھی جہاں اس اکیلی کی حکومت تھی۔
’’آہ!‘‘ اس نے پھر آنکھ کھولی۔
’’شکر ہے آپ کو ہوش آگیا ہے! ‘‘اس نےقریب آکر کہا پھر ڈاکٹر کو آواز دینے لگا ’’مبارک ہو صفدر صاحب۔ اب یہ مکمل ٹھیک ہیں‘‘ ڈاکٹر نے قریب کھڑے کیپٹن کو صفدر کے نام سے پکارا۔
’’اب یہ کب ڈسچارج ہوں گیں؟‘‘ صفدر صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
وہ ان سب باتوں سے لاتعلق بیٹھی حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
کمرہ انتہائی صاف ستھرا تھا قریب ہی کونے میں چھوٹی سی ایک بیل لگی ہوئی تھی شاید نقلی ہے اس نے قیاس کیا۔
قریب ہی لکڑی کی الماری تھی جس میں شیشہ لگا ہوا تھا اس میں کچھ کپڑے تھے اور بس قریب ہی اسٹینڈ پر ایک ڈرپ لٹکی ہوئی تھی جو اس کے ہاتھ کی نبضوں میں گم ہورہی تھی۔
’’آپ کون ہیں‘‘ صفدر نامی شخص نے قریب آکر پوچھا۔
’’میرا نام ھما ہے۔۔۔ ظل ھما۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں اتنی نقاہت تھی کہ اس کو اپنی ہی آواز اجنبی لگی۔
’’آپ بنگالن ماسی کے اس کمرے میں کیا کرنے گئیں تھیں؟‘‘
اس نے سختی کے ساتھ پوچھا۔
’’اوہ!‘‘ اس کو یاد آیا اب اس کے ذہن میں فلم چلنے لگی۔
خبر آئی اس کے بعد رشتہ داروں کی فوج ، سسرالی رشتے دار تھے یا کسی دیہات کے لٹیرے آتے کھاتے اور افسوس ایسے کرتے گویا شوہر اس کا زخمی نہیں مرگیا ہو۔ ’’میرے شوہر فوج میں ہیں وہ زخمی ہوگئے تھے تو میری ساس مجھے لائی تھیں تاکہ دعا و تعویذ کروائیں‘‘ ’’اچھا ! ‘‘
’’اور آپ کے والدین؟ وہ کہاں ہیں؟ میں ان کو اطلاع دے دوں آپکے بارے میں۔آپ کو پتہ ہے آپ تقریبا ایک ہفتہ بعد ہوش میں آئی ہیں!؟؟‘‘
’’ایک۔۔۔۔۔ ہفتہ؟‘‘ اس بار اس کی آنکھوں میں اتنا خوف تھا کہ کیپٹن صفدر خود ڈر گیا کہیں مرنے سے بچانے کے بعد صرف ایک جملے پر ہی یہ دلہن دم نہ توڑ ڈالے۔
’’میری ساس مجھے مار ڈالیں گیں !‘‘ وہ رونے لگی۔
’’انہوں نے کہا تھا کہ وہ مغرب کے وقت لینے آئیں گی‘‘ اس نے بے چارگی کے عالم میں کہا۔
اس کو صاف لگ رہا تھا کہ اس کی ساس اسے طلاق دلوا دے گی اور اب اس کی ماں !وہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کا آگے پیچھے صرف ماں تھی جس نے بڑی امیدوں کے ساتھ اس کا بیاہ راحیل کے ساتھ کیا تھا۔
’’بی بی ڈریں مت۔ یہ بتائیں کہ آپ کی ساس وہاں چھوڑ کر کیوں گئیں ؟؟‘‘
کیپٹن کے ساتھ کھڑے ہوئے صاحب نے پوچھا۔
’’شوہر کو بارڈر پر گولیاں لگی ہیں تو اماں کے ساتھ آئی تھی تعویذ لینے‘‘
’’پھر رکنے کی وجہ؟ اور وہ بھی الگ کمرے میں ‘‘ سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے حیرت سے اسے اور کیپٹن کو دیکھا۔
’’بنگالن ماسی نے کہا تھا تو وہاں چلی گئی پھر انھوں نے ایک شربت دیا جو انتہائی کڑوا تھا پھر کیا ہوا پتہ نہیں!‘‘
’’مشروب! صالح صاحب! اس کو چھوڑنا مت ‘‘ اس بار کیپٹن نے اشارے سے مخاطب کیا ان کا چہرہ غصہ سے سرخ تھا اور ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
’’بے فکر رہیں ! بے فکر یہ بیٹی ہے میری، میری ذمہ داری ‘‘
صالح نامی شخص نے افسردہ سے لہجے میں کہا جبکے وہ صرف احمقوں کی طرح تماشا دیکھ رہی تھی اس کی سمجھ سے سب باتیں بالا ہی تو تھیں۔
’’آپ کی ساس حوالات میں ہیں ابھی جو میرے ساتھ صاحب کھڑے ہیں وہ ڈی ایس پی ہیں انہوں نے آپ کا بیان لے لیا ہے‘‘
’’حوالات؟‘‘ اس نے تعجب سے دہرایا۔
’’جی حوالات‘‘ صفدر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پتہ نہیں کیا ہوا تھا اس دن میں سونے کی کوشش کر رہا تھا مگر ایک خوف میرے ذہن پر سوار تھا میں اس انجانے خوف کو سمجھ نہیں پارہا تھا یکدم میری آنکھ لگی تو میں نے دیکھا میں بنگالن ماسی کے گھر کے سامنے کھڑا ہوں اور وہاں ایک کبوتر پڑا تڑپ رہا ہے چھری بنگالن کے ہاتھ میں ہے میں ڈر کر اٹھ گیا سمجھ گیا یہ خدائی حکم اور اس کا غیبی اشارہ ہے اس کی تعمیل کرنا اسی وقت ضروری ہے۔
بہن! اصل میں وہ آدمی بہروپیہ ہے بنگالن ماسی کے نام سے برے کاموں کا ارتکاب کرتا ہے۔ تمہاری ساس بھی اسی کی آلہ کار تھی تم معصوم کو اس نے دھوکے سے اپنے نام نہاد بیٹے سے کردی۔
اور وہ تمہیں پہلی بار اس بنگالن ماسی کے پاس لائی تھی اور پھر باربار لاتی تمہیں اطلاع بھی نہ ہوتی۔‘‘
’’م۔۔۔۔ مم۔۔ مجھے؟‘‘
’’مطلب‘‘
’’کیا؟‘‘اس کے دماغ پر برف جم گئی ٹھنڈک نے اس کے جسم پر لرزہ طاری کر دیا پھر پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا؟’’اماں‘‘ اس نے جب خلا میں تیرتے ہوئے ماں کو دیکھا تو پکارا۔
’’اماں تم نے سنا۔۔۔۔۔۔۔ اماں‘‘
وہ تڑپی۔
’’ہاں بیٹی! سنا اور دیکھا ہوش میں آ۔۔۔۔ اللہ نے تجھے تیری نمازوں کی وجہ سے محفوظ رکھا اٹھ بیٹی!
ماں کی مدھم آواز اور دھندھلایا سایہ گہرا ہوا اس کی آنکھیں کھلیں تو رو پڑی اماں سے چمٹ گئی۔
’’بیٹی ! تیری نماز تہجد اور نفلی نمازوں کی بدولت اللہ نے تجھے بچا لیا‘‘
اماں نے روتے ہوئے اس کو اس طرح بازووں میں سمیٹا گویا بے اماں کو اماں دے رہی ہو۔’’اماں ! جس کمرے میں تھی نا وہ بہت خوفناک تھا۔
اماں تو میری ماں ہے مگر میری دوسری ماں نے مجھے بچالیا۔
اماں مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا میں نے نماز پڑھ کر تسبیح فاطمہ پڑھی تھی اماں میں نے دیکھا تھا وہ تھیں وہیں ، میں نے دیکھا اماں میں نے دیکھا اماں جب بنگالن ماسی نے مجھے شربت پلانے کی کوشش کی تو انہوں نے پیالے کا پانی بدل ڈالا اماں وہ پانی سرخ سے سبز بن گیا پھر۔۔۔۔ پھر ‘‘وہ پھر بے ہوش ہوگئی مگر اس کو سکون تھا ایک ماں نے بچایا ہے تو دوسری ماں نے آغوش میں پناہ دے دی ہے۔
بے شک یہ ہمارے معاشرے کی کہانی ہے جب بھی رشتہ ہو خاندانی گھر میں کرنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ بیٹی سے غافل نہیں رہنا چاہیے کیوں کہ بیٹی اپنے گھر میں خوش ہو یہ ضروری ہے نہ کہ یہ کہ بیٹی اپنے گھر میں ہو صرف۔