بھوک تہذیب بھلا دیتی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بھوک تہذیب بھلا دیتی ہے
عائشہ بی بی
ماسی نعمت نے کپڑے سرف ملے پانی سے نکالنے کے بعد ان کو دوسرے ٹب میں ڈالا اورپروین سے کہا کہ وہ نلکا کھول دے اور ٹب میں پانی بھر دے۔
ماما بھوک لگی ہے کھانے کو دیں کچھ دس سالا حافظ نے اسکول سے آتے ہی چلاناشروع کردیا تھا۔ تم یونی فورم تبدیل کرکے ہاتھ منہ دھو لو میں کھانا لگاتی ہوں جاوشاباش۔
ماما نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور پھر اس کے لیئےکھانا لینے کچن میں چلیں گئیں آج انہوں نے حافظ کی پسند کی میکرونی بنائی تھی جسکو ان کے بیٹے نے بہت شوق سے کھانی تھی-
اسی وقت نو سالا پروین کی بھی بھوک چمک اٹھی اس نے بھی اپنی ماں کے کندھے پہ سر رکھتے ہوئے کہا اماں مجھے بھی بھوک لگی ہے کچھ دو نا کھانے کو۔
لیکن ماسی نعمت کو ابھی کپڑے دھو کر ان کو اوپر بھی پھیلانا تھا
پروین کی بھوک مٹانے کا انتظام اس کو مہنگا پڑ سکتا تھا اس نے پروین کو جھڑکتے ہوئے کہا
نی رے صبح تو ناشتہ کروایاتھا تجھے اتنی جلدی بھوک لگنے لگی۔
چل میری دھی میرے ساتھ اوپر یہ کپڑے پھیلانے چل پھر پچھلی گلی میں بیگم صاحبہ کے گھر بھی جانا ہے کام کرنے اور پروین صبح سات بجےکا کیا ناشتہ یاد کرنے لگی لیکن اس کو دن کے دو بجے وہ ناشتہ بالکل یاد نہیں آیا۔
ماسی نعمت بالٹی اٹھا کر اوپر چلی گئی لیکن پروین ادھر ہی حافظ سے سامنے کھڑی اس کو کھاتے دیکھتی رہی۔
نعمت اپنی بیٹی کو ادھر سے لے کر جاؤ ایک تو یہ ندیدے لوگ سکون سے کھانے بھی نہیں دیتے جلدی سے کام کرکے جاؤ تم لوگ اب کیا سارا وقت تمہارے سر پر کھڑے رہئیں۔
باجی کی آواز سن کر نعمت جلدی سے نیچے اتری پروین کے سر پر دو ہاتھ مارے اور اسےاپنے ساتھ اوپر لے کر چلی گئی ادھر بیٹھ۔
بس ایک گھر اور ہے پھر مل کر دونوں دوپہرکا کھانا کھائیں گئے تو تھوڑا سا صبر کرلے اس طرح نہیں کھڑا ہوا کر سب کے سامنے۔
نعمت کو احساس تھا پروین کی بھوک کا لیکن وہ کیا کرتی اس کا کام کرنا بھی ضروری تھا تھوڑی سی جو دیر ہوجاتی تو بیگم صاحبہ دس دس باتیں سناتیں تھیں دیر ہوجانے پر۔
ادھر پروین سوچ رہی تھی کہ ڈش بھری ہوئی تھی کیا تھا باجی تھوڑا سا اسے بھی دے دیتی کھانے کو۔
لیکن پروین نہیں جانتی تھی کہ مہذہب لوگ اپنی بھوک کے وقت دوسروں کی بھوک کو بھلا دیتے ہیں۔
یہ بچا ہوا کل کا کھانا تو آپ کو دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بچ گیا تھا لیکن بھری ہوئی آج کی ڈش میں سے کچھ نہیں دیں گئے کہ ہوس ہے اس بات کی کہ اگر ختم ہوگیا تو کیا ہوگا۔ ؟؟
سچ کہا ہے کسی نے کہ
بھوک تہذیب کے آداب بھلادیتی ہے

۔