یروشلم کا حاکم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
یروشلم کا حاکم
……شہبازاحمد بلوچ
یوسف بن ظہیر۔ سُلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی فوج کےجانبازوں کے دستے کے سالار اور مجلس شورٰی کہ رکن کہ مرتبے تک پہنچنے والے دو ستارے۔ یوسف بن ظہیر اور احمد بن حسن۔
یوسف بن ظہیر اور احمد بن حسن نے آپس میں عہد کر رکھا تھا کہ جب تک یروشلم پر صلیبی نشان کی جگہ ہلالی پرچم نہیں نصب کریں گے تب تک وہ رُخصت پر گھر نہیں جائیں گے۔ جن دنوں سُلطان صلاح الدین ایوبی ؒ یروشلم پر آخری حملے کی تیاریاں کر رہا تھا بغداد میں سلطان کی فوج کہ چند رضا کار جو کہ رخصت پر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو اُن میں سے ایک سپاہی نے یوسف کہ خیمے میں داخل ہو کر اُس کی بیوی کا خط پیش کیا۔
یوسف نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خط کھول کر پڑھا اور تھوڑی دیرسر جھکا کر سوچنے کہ بعد اُس سپاہی کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی نے کہا " میں نے اپنی بیوی کو آپ کے گھر بھیجا تھا۔ وہ آپ کی بیوی کی حالت نازک بیان کرتی ہے آپ کا بچہ میں نے دیکھا وہ تندرست ہے میں اپنی بیوی سے کہ آیا ہوں وہ آپ کی بیوی کی تیمارداری کر رہی ہے "
یوسف نے اپنے چہرے پر ایک غمگین مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا: خُدا آپ کو جزا دے اور پھر دوبارہ خط دیکھنے میں منہمک ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد یوسف تنہا اپنے خیمے میں ٹہل رہا تھا پانچ چھ مرتبہ پڑھنے کہ بعد اُسے مختصر سے خط کے الفاظ زبانی یاد ہو چُکے تھے:
"میرے سرتاج! میرے آقا ! بہت انتظار کے بعد آپ کا خط ملا۔ کاش میں بھی آپ کہ ساتھ یروشلم پر فتح کا جھنڈا نصب ہوتے ہوئے دیکھ سکتی۔ میں قدرے علیل ہوں لیکن آپ فکر نہ کریں یروشلم کی فتح کی خبر سُن کر میں تندرست ہو جاؤں گی۔ ہاں یہ ضرور چاہتی ہوں مجھے یروشلم کی فتح کی خبر سنانے والے آپ ہوں اپنا عہد پورا کیجیئےمیں دن رات خُدا سے دُعا کرتی ہوں کہ یروشلم پر جھنڈا نصب کرنے کی سعادت آپ کے حصے میں آئے۔ طاہر بہت خوش ہے اور محسن کی بیوی میرا بہت خیال رکھتی ہے مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں "
یوسف خیمے میں ٹہلتے ہوئے یہ الفاظ کبھی آہستہ اور کبھی بلند آواز میں دہراہ رہا تھا اُس کے دل کی دھڑکن کبھی تیز اور کبھی سُست ہو رہی تھی اُس کا دل اور دماغ دو مختلف خیالات ، دو مختلف اُمنگوں اور ارادوں کی کشمکش میں مُبتلا تھے اُس کے سامنے دو فرائض تھے۔ ایک طرف حسین اور نوجوان بیوی جس کے ساتھ شادی سے پہلے وہ دُنیا میں بالکل تنہا تھا اور شادی کے بعد جس کی حیاء میں ڈوبی ہوئی مُسکراہٹ ، اس کیلیے دُنیا بھر کےخزانوں سے زیادہ قیمتی تھی،وہ بیمار تھی اور خط کے تسلی آمیز لہجے کے باوجود وہ محسوس کر رہا تھا کہ اُس کی حالت مخدوش ہے ورنہ وہ معمولی تکلیف کی حالت میں محسن کی بیوی کی تیمارداری کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔
اسے گھر پہنچنا چاہیے وہ خیالات کہ برق رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر بغداد پہنچتا اور اپنے مکان میں داخل ہوتا۔
زاہدہ ! زاہدہ ! تم کیسی ہو ؟ میں آ گیا ہوں۔ میری طرف دیکھو۔ وہ چونک کر اُس کی طرف دیکھتی اور بے قرار سی ہو کرکہتی " آپ ! کیا یروشلم پر اسلام کا پرچم نصب ہو چکا ہے ؟ " یہ سوال تصور کے گھوڑے کیلیے تازیانہ ثابت ہوتا اور وہ بغداد کے پُرامن گوشے سے لوٹ کر یروشلم کی رزم گاہوں میں پہنچ جاتا اور ہاتھوں کی مُٹھیاں بھینچ کر بلند آواز میں کہتا " میں اپنا عہد پورا کروں گا میں یروشلم کی فتح کی خبر لے کر جاؤں گااور وہ تیروں کی بارش میں خندق عبور کرتا ، قلعے کی دیواریں توڑتا ، صلیب کے نشان اُکھاڑتا اور ہلال کا پھریرا اُڑاتا ہوا قلعے کہ آخری بُرج تک پہنچ جاتا اور فتح کا نعرہ بلُند کرتے اور خون آلود تلوار نیام میں ڈالتے ہوئے اور اپنے صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہوتا اور بغداد پہنچ جاتا۔ اپنے گھر کے سامنے گھوڑے سے اُترتا اور بھاگ کر اندر داخل ہوتے ہوئے کہتا :" میری جان ! میری روح ! میں آ گیا ہوں – یروشلم فتح ہو گیا ہے میں نے قلعے کہ سب سے اُونچے بُرج پر اپنے ہاتھوں سے اسلامی جھنڈا نصب کیا ہے اور زاہدہ کا حسین اور معصوم چہرہ خوشی سے چمک اُٹھتا "
میں نہیں جاؤں گا۔ اُس کا آخری فیصلہ تھا احمد بن حسن اُس کے کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے کہا" یوسف بغداد سےچند سپاہی آئے ہیں تمہارے گھر سے کوئی پیغام آیا "
بیوی کا خط آیا ہے یوسف نے مُسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا – " تم پریشان ہو خیریت تو ہے ؟"
" وہ کچھ علیل ہے " احمد بن حسن نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا تمہیں بُلایا ہے؟
" یوسف ! نہیں آپ پڑھ لیجیے یہ کہتے ہوئے یوسف نے احمد کے ہاتھ میں خط دے دیا "
احمد نے خط پڑھنے کے بعد کہا کہ خط میں تو ایسی کوئی بات نہیں تم پریشان ہو تمہیں میں ایک خوشخبری سناتا ہوں !
یوسف نے بے تابی سے پوچھا کیسی خوشخبری ؟ کیا۔۔ کک ک،کیا یروشلم پر حملہ ہونے والا ہے ؟
احمد نے جواب دیا :ہاں ! پرسوں ہم یروشلم کی فصیلیں توڑ رہے ہوں گے ان شاء اللہ ایک ہفتے سے پہلے تم بغداد والوں کو فتح کی خوشخبری دینے روانہ ہو جاؤ گے اور چند منازل تک میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
یوسف نے پھر پوچھا " آپ کو یقین ہے کہ پرسوں حملہ ہو جائے گا " احمد نے جواب دیا " میں ابھی سُلطان سے مل کر آیا ہوں "
یوسف ! کاش یہ حملہ آج ہوتا !
شام کے وقت احمد بن حسن نے یوسف سے کہا " یوسف ! میں محسن ( یوسف کیلیےخط لانے والا ) سے مل چکا ہوں اُس کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے تمہاری بیوی کی حالت تسلی بخش نہیں ہے اگر جانا چاہو تو میں سُلطان سے تمہاری رُخصت کے لیے کہوں"
یوسف نے جواب دیا " نہیں ! مریضہ کی تیمارداری کا موقع پھر شاید مل جائے لیکن یروشلم کی فتح میں حصہ لینے کی سعادت شاید دوبارہ نصیب نہ ہو"
آٹھ دن کے بعد مسلمانوں کی فوج چاروں طرف سے یروشلم پر یلغار کر رہی تھی سُلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ ایک سفید گھوڑے پر سوار حملہ آور فوج کی رہنمائی کر رہا تھا۔ وہ سپاہی جسے سُلطان نے سب سے پہلے کمند ڈال کر قلعے کی فصیل پر چڑھتے دیکھا وہ یوسف تھا اوپر سے تیروں اور پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور یوسف سر پر ڈھال رکھ کر اپنا بچاؤ کر رہا تھا فصیل پر پہنچنے کیلیے اُس کی کامیابی کےامکانات بہت کم تھے۔ سُلطان نے اپنے دل میں کہا کے اگر یہ فصیل پر پہنچ گیا تو میں اسے اپنی تلوار انعام میں دوں گا۔یوسف فصیل پر پہنچ چکا تھا اور چند نوجوان اُس کی تقلید کر رہے تھے یوسف کی تلوار چند آدمیوں کو موت کے گھاٹ اُتار چکی تھی۔" سُلطان اپنے جرنیل سے کہ رہا تھا اب وہ میرے گھوڑے کا بھی حقدار ہے " چند مجاہد فصیل پر چڑھ کر یوسف پر عقب سے حملہ کرنے والے پہرے داروں کو روک رہے تھے اور یوسف اپنے پے درپے حملوں سے چھ سات سپاہیوں کے پاؤں اُکھاڑ چُکا تھا سُلطان صلاح الدین جوش مُسرت میں کہ رہا تھا " نوجوان ! میں تمہیں ہر اول دستے کا سالار اعلیٰ بناتا ہوں " تھوڑی دیر کیلیے سُلطان کی توجہ کسی اور محاذ پر مرکوز ہو گئی جب دوبارہ اُس نے فصیل کہ اس حصے کی طرف دیکھا تو اُس کے سپاہی اُس مقام پر قبضہ کر چکے تھے مگر وہاں یوسف نہیں تھا۔ اُس نے اپنے ہم رکاب سے پوچھا ! یوسف کہاں گیا ؟
اُس نے دروازے کہ سب سے اونچے بُرج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا وہ دیکھیے یوسف سب سے خطرناک مقام پر لڑ رہا ہے۔سُلطان نے اوپر نگاہ کی یوسف کی تلوار بیک وقت تین تلواروں سے ٹکرا رہی تھی سُلطان کہ دو سپاہی اُس کی مدد کے لیےپہنچ چُکے تھے یوسف کی تلوار کی ایک ضرب سے نشان صلیب سرنگوں ہو چکا تھا سُلطان نے آنکھوں میں خوشی کہ آنسو بھرتے ہوئے کہا:" تم میرے بیٹے ہو – میں تمہیں اس شہر کا والی مقرر کرتا ہوں۔ " لیکن یوسف کے ہاتھ سے تلوار گِر چکی تھی اور ایک نوجوان اُسے سہارا دینے کی کوشش کر رہا تھا سُلطان نے اُسے پہچان لیا وہ احمد بن حسن تھا سُلطان کہ سپاہی اندر داخل ہو کر قلعہ کے دروازے کھول چُکے تھے۔ دُشمن ہتھیار ڈال چکا تھا سُلطان گھوڑا بھگاتے ہوئے اور گھوڑے سے اُتر کر اپنے چند سپاہیوں کہ ساتھ جلدی سے بُرج پر چڑھا۔
یوسف کے جسم پر زخموں کے کئی نشان تھے احمد اُسے چھاگل سے پانی پلا رہا تھا سلطان فرش پر گھٹنے ٹیک کر اُس کے قریب بیٹھ گیا اُس کی زرہ کُھلوا کر اُس کے زخم دیکھے اور اُس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مغموم لہجے میں بولا " بیٹا میں تمہیں اس شہر کا والی بنا چُکا ہوں شاید تمہارا عہد حکومت بہت مختصر ہے۔ اگر شہر والوں کے لیے کوئی حکم نافذ کرنا چاہتے ہو تو جلدی کرو"
یوسف نے پہلے سُلطان اور پھر احمد کی طرف دیکھا اور بالآخر اُس کی نگاہیں لوٹ کر لٹکے ہوئے صلیبی جھنڈے پر مرکوز ہو گئیں۔ احمد نے کہا " اس شہر کے حاکم کی خواہش یہ ہے کہ وہ فتح کا جھنڈا اپنے ہاتھ سے نصب کرے " احمد کہ یہ الفاظ سُن کر یوسف کے آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک اُتر آئی۔
سُلطان نے دوبارہ اُس کی نبض دیکھی اور ایک سپاہی کو جھنڈا لانے کااشارہ کیا سُلطان صلاح الدین ایوبی اور احمد بن حسن نے یوسف کو سہارا دے کر اُٹھایا یوسف کے بے جان ہاتھوں میں اچانک زندگی آ گئی اُس نے جھنڈا نصب کیا۔ اُس کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ تھی وہ مسکراہٹ جو صرف اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو نصیب ہو سکتی ہے۔ اچانک اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے :
" زاہدہ ! یروشلم فتح ہو چکا ہے "
سُلطان کہ حکم پر یوسف کو شاہی محل کہ ایک کمرے میں پہنچایا گیا جان کنی کہ عالم میں اُس نے احمد سے جو بات کہی وہ یہ تھی " احمد ! میری بیوی کی دُعا کا صرف ایک حصہ قبول ہوا میں یروشلم کی فتح کی خبر لے کر اُس کہ پاس نہ جاسکا لیکن قدرت کا ایک راز اب میری سمجھ میں آ رہا ہے زاہدہ بغداد میں نہیں کسی اور مقام پر میرا انتظار کر رہی ہے اگر وہ زندہ ہوتی میں یقیناً اُس کے پاس پہنچتا جھنڈا نصب کرتے ہوئے میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔
تم بغداد جاؤ اگر وہ زندہ ہوئی تو سب سے پہلے خبر سُننے کا اُس کا حق ہے اور اگر نہ ہوئی تو میں اپنا بیٹا تمہیں سونپتا ہوں۔ یہ کہہ کر اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خفیف سی آواز میں دہرانے لگا " زاہدہ ! میں آ گیا ہوں ، یروشلم فتح ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے جھنڈا نصب کیا ہے " یہ کہتے ہوئے اُس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں سُلطان اور احمد کی طرف دیکھا اور پھر یوسف کی آنکھوں کے سامنے موت کے پردے حائل ہوگئے۔
تھوڑی دیر بعد احمد بن حسن یوسف بن ظہیر شہید کہ بچے کیلیےسُلطان صلاح الدین ایوبی کے گھوڑے ، سُلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار ، اُس کی پرورش کے لیے پانچ ہزار دینار،سن بلوغت کو پہنچنے پر اُس کے مستقبل کے لیے ہیرے جواہرات سے بھری ریشمی کپڑے کی بنی ہوئی تھیلی کو لے کر بغداد کی طرف روانہ ہوا۔
چند ہفتوں کے بعد بغداد پہنچ کر احمد بن حسن کو معلوم ہوا کہ یوسف کی بیوی زاہدہ فتح یروشلم سے چار دن قبل اللہ کو پیاری ہو چکی تھی اور محسن ( یوسف کا ہمسایہ ) کی بیوی بچے کو اپنے پاس لے گئی تھی۔
احمد بن حسن نے اُس کے گھر پہنچنے پر بچے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب محسن نے اڑھائی سال کا بچہ اُس کی گود میں ڈالا تو احمد کی آنکھیں بھر آئیں احمد بن حسن اُس کے سر پر پیار اور شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگا تو بچے نے ہاتھ بڑھا کر اُس کی ناک پکڑ لی اور کہا " غازی۔۔۔۔ ابا۔۔۔۔۔ غازی !"
احمد نے اُسے سینے سے بھینچ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا " بیٹا !
ابا شہید کہو ! " " ابا۔۔
بچہ غور سے احمد کی طرف دیکھنے لگا۔
" ابا شہید ! احمد نے اُس کہ ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
" ابا شہید ! بچہ یہ کہتے ہوئے اُس کی گود میں کھیلنے لگ گیا "