”آف دی ریکارڈ“

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
”آف دی ریکارڈ“
……نعیم خان
" تاریخ فتوحات گنتی ہے۔ دستر خوان پر پڑے انڈے جیم اور مکھن نہیں!!"
یہ 1973ء کی بات ہے۔عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سینیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اُسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم "گولڈہ مائیر" کے پاس لے جایا گیا۔
گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سینیٹر کا استقبال کیا اور اُسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اُس نے امریکی سینیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائینگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کیلئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آبیٹھی۔
اُس کے ساتھ اُس نے توپوں، طیاروں اور میزائلوں کا سودا شروع کر دیا۔
ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اُسے چائے پکنے کی خوشبو آئی وہ خاموشی سے اُٹھی اور چائے دو پیالیوں میں اُنڈیلی۔
ایک پیالی سینیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سینیٹر سے محو کلام ہو گئی۔چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پاگئیں۔
اس دوران گولڈہ مائیر اُٹھی۔ پیالیاں سمیٹیں اور اُنہیں دھو کر واپس سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی:"مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کیلئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اُس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا مگر گولڈہ مائیر نے کتنی "سادگی" سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کردیا۔ اُس کا مؤقف تھا اِس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
گولڈہ مائیر نے کابینہ کے ارکان کا مؤقف سُنا اور کہا۔
" آپ کا خدشہ درست ہے لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کردیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دے گی۔
اور تاریخ جب کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے تو بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔
اُس کے دستر خوان پر شہد ' مکھن ' جیم تھا یا نہیں۔
اور اُن کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا اُن کی تلواروں کی نیام پھٹے پرانے تھے۔فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔"
گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اِس سودے کی منظوری دینا پڑی۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ گولڈہ مائیر کا اِقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا ' اُسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔جنگ ہوئی اور عرب ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھا گئے۔
(یہ بھی ایک عجیب حقیقت ھے کہ امت مسلمہ کو بیسویں صدی میں ٹکڑوں میں تقسیم کردینے میں دو عورتوں کا ہاتھ رہا۔یعنی عربوں کو ختم کرنے میں گولڈہ مائیر کا اور عجم کے مسلمانوں کو شکست دینے میں اندرا گاندھی کا (
جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا:
"امریکی اسلحہ خریدنے کیلئے آپ کے ذہن میں جو دلیل آئی تھی وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی یا پہلے سے حکمت عملی تیار کررکھی تھی؟"
گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا چونکا دینے والا ہے۔ وہ بولی:
"میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا۔
میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔اُنہی دنوں میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سوانح حیات پڑھی۔
اُس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اُن کے گھر میں اِتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لیے تیل خریدا جا سکے لہٰذا اُن کی اہلیہ عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے اُن کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدالیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔
میں نے جب واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے..لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں۔ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔
لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے ' تو بھی اسلحہ خریدیں گے ' خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔
گولڈہ مائیر نے اِس حقیقت سے تو پردہ اُٹھایا مگر ساتھ ھی انٹرویو نگار سے درخواست کی کہ اِسے " آف دی ریکارڈ " رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔
وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے وہاں دنیا کے مسلمانوں کے مؤقف کو تقویت ملے گی۔
چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔
پھر وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا۔
یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔اس دوران ایک اور نامہ نگار امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔
اُس سلسلے میں وہ اُسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اُس انٹرویو میں اُس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بھی بیان کردیا جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تھا۔
اُس نے کہا:
"اُسے اَب یہ واقعہ بیان کرنے میں کوئی شرمندگی اور عار محسوس نہیں ہو رہی ہے۔"
گولڈہ مائیر کا انٹرویو لینے والے نے مزید کہا:
"میں نے اِس واقعہ کے بعد جب تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔
کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا اُس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاھدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔
وہ بہتَر بہتَر (72) گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہوگیا کہ " تاریخ فتوحات گنتی ہے۔ دستر خوان پر پڑے انڈے ، جیم اور مکھن نہیں!!