چراغِ محبت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چراغِ محبت
……حامد علی چغتائی
سیرت کاکون ساگوشہ ہے جس پرنہیں لکھاگیا؟اورکون ساپہلوہے جس پر نہیں کہا گیا؟کون سی زبان جومدحِ نبی ﷺسے آرستہ نہ ہوئی ہو۔؟یقیناًکوئی گوشہ ، کوئی پہلو ایسانہیں جس پرخامہ فرسائی نہ کی گئی ہو ،تعبیرات کے شہ پارے ،خطابت کے شاہ کار،منظوم جواہرپارے کےادیب ،خطیب وشاعردربار رسالت میں حاضری اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں، عبادت سمجھتےہیں۔ انداز سب کاعاشقانہ ،ہرایک کاوالہانہ،اس لیے نہیں کہ سیرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی حاجت ہے کہ جمال سیرت توان سب سے مستغنی وبے نیاز….. تاہم لفظوں کے جس صدف کو ابر ِسیرت چھوگیا،وہ گوہرمیں ڈھل گیا
… ولکن مدحت مقالی بمحمد….
کیاکوئی زبان ایسی ہے جہاں ادب کی فضائیں حضوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ سلام کہتی ہوں ، نہ پیار دیتی ہوں …. نہیں اور قطعاًنہیں۔
اس لیے حضورﷺکی سیرت کاایک پہلو ہے محبوبیت وعقیدت کادلوں میں آپ ﷺ کے احترام وعظمت کو،شاہ ہوکہ گدا ،فقیر ہوکہ امیر ،عاصی ہوکہ پاکباز،بندہ مومن کے دل میں ﷺکی محبت کاچراغ روشن رہتاہے۔ یہ چراغ؛ چراغِ محبت سرمایہ ملت بھی ہے اور سرمایہ ملت کانگہبان بھی ،گناہوں سے آلودہ معاصی کاخوگر ،لاابالی وآورہ ،ہرسوغفلت کے چھائے ہوئے اندھیروں میں گھِر ا ایک امتی۔ ختم الرسل کے سامنے جب نام ِ محمد ﷺ آجائے تو اس کے آنکھوں میں عقیدت کا نور،محبت کاسرور جھلکنے لگتاہے۔
آج ہم تذکرہ کرتے ہیں ایک شاہ حکمران کا اورایک شاعر غم نوا کا۔
بادشاہ ناصرالدین محمودکے ایک خاص مصاحب کانام محمد تھا۔بادشاہ اسےاسی نام سے پکاراکرتاتھا ایک دن انہوں نے خلاف معمول اسے تاج الدین کہہ کرآواز دی وہ تعمیل ِحکم میں حاضر ہوگیا لیکن بعد میں گھر میں جاکر تین دن تک نہیں آیا۔ بادشاہ نے بلوا بھیجاتین دن تک غائب رہنے کی وجہ پوچھی؟ تو اس نے کہا آپ ہمیشہ مجھے محمد کے نام سے پکاراکرتے تھے لیکن اس دن آپ نے تاج الدین کہہ کر پکارا میں سمجھا کہ آپ کے دل میں میرے متعلق کوئی خلش پیدا ہوگئی ہےاس لیے تین دن حاضر نہیں ہوا۔ سلطان ناصر الدین محمود نے کہا:واللہ ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں۔
میں نے جب بھی آپ کو محمد کہہ کر پکارا باوضو ہوا کرتا تھا اس دن جب آپ کو تاج الدین کے نام سے میں نے اس لیے پکارا تھا کہ اس وقت میراوضو نہیں تھااورمجھے محمد ﷺ کا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہو تا۔
انہی سلطان ناصر الدین محمود کے زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دانشمند فصیح الدین دہلی آیا۔ دہلی کے بڑے بڑے علماء اس کے سوالوں کے جواب دینے سے عاجز آ گئے۔ ایک بار کسی مجلس میں دہلی کے پانچ عالم بیک وقت اس سے مباحثے میں شریک ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں پانچوں لاجواب ہو گئے۔ فصیح الدین نے فخر سے پوچھا ، کیا دہلی یا گردونواح میں کوئی ایسا عالم ہے جس نے مجھ سے مباحثہ نہ کیا ہو ؟ انہوں نے اسے بابا فرید رحمۃ الله علیہ اجودھنی کے متعلق بتایا اور وه آپ کی خانقاه تک پہنچ گیا۔اس وقت آپ کی خدمت میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ الله اور کچھ دوسرے درویش موجود تھے۔ فصیح الدین نے بظاہر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: شیخ ! میرے ذهن میں کچھ مسائل الجھ کر ره گئے ہیں۔ دہلی کے علماء نے ان کے جواب کیلئے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ اس کے بعد اس نے سوچے سمجھے مسائل آپ کی خدمت میں پیش کر دیے۔
آپ نے اس کے سوال سنے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آپ کے چہرے کو دیکھنے والا اندازه لگا سکتے تھے کہ آپ غور و فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر فصیح الدین خوش ہونے کو ہی تھا کہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ الله نے فرمایا ، تمہارے مسائل تو بے حد ساده ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس کے سب مسائل کے جواب یوں بتا دیے جیسے وه کوئی مسائل ہی نہ ہوں۔ فصیح الدین کا چہرہ اتر گیا کہ جب شاگرد ایسا ذہین ہے تو استاد کیسا ہو گا ؟ وه کچھ دیر تک نادم بیٹھا رہا اور پھر شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی بابا فرید رحمۃ الله علیہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ الله پر ناراض ہوئے۔ تم درمیان میں کیوں بولے ؟ کیا میں اس کے سوالوں کے جواب نہیں جانتا تھا؟ میں اس لئے خاموش تھا کہ اس کی دل شکنی نہ ہو۔ تو نے دیکھا وه کیسا شرمندہ ہو کر گیا ؟ جب تک فصیح الدین کے دل سے شرمندگی کا غبار نہ دهلے گا تب تک میں تم سے ناراض ہوں۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ الله گھبرا کر اٹھے اور فصیح الدین کا پتا پوچھتے اس سرائے تک جا پہنچے جہاں وه ٹھہرا ہوا تھا۔ آپ کو دیکھ کر فصیح الدین خوش ہوا اور دیر تک آپ کے علم کی تعریف کرتا رہا۔ لیکن حضرت نظام الدین اولیاء نے فرمایا ، میں تو تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ تمہاری وجہ سے مرشد مجھ پر ناراض ہیں۔ وه حیران ہوا ، اس میں ناراضگی والی کیا بات ہے ؟
پیرو مرشد اس لئے ناراض ہوئے کہ اگر میں خاموش رہتا تو اہل مجلس جان لیتے کہ تم بے حد بڑے عالم ہو اور اس طرح تمہارا دل خوش ہو جاتا۔ یہ سن کر فصیح الدین کچھ لمحوں کیلئے تو جیسے سکتے میں آ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، سبحان الله ! ایسا علم اور ایسا تحمل ! کسی کا دل توڑنا گوارا نہیں۔ چاہے اپنی ذات پر حرف آ جائے۔
پھر آپ سے بولا ، مجھے تم سے کوئی شکوه نہیں۔ حضرت نظام الدین رحمہ الله نے پوچھا ، کیا تم یہی بات پیرو مرشد کے سامنے کہہ سکتےہو ؟ میری خاطر یہ زحمت گوارا کر لو۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں گا۔
فصیح الدین نے عجیب سے انداز میں آپ کی طرف دیکھا اور بولا ، چلو ! میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ اب اور مجھے جانا بھی کہاں ہے؟ پھرہندوستان کا سب سے بڑا دانشمند بابا فرید رحمہ الله سے گذارش کر رہا تھا:
”شیخ ! مجھے بھی غلامی کا شرف عطا کیجئے۔“
پھر بابا فرید رحمۃ الله علیہ کے فرمان پر فصیح الدین علم ظاہری کے مظاہرے سے تائب ہو کر آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو گیا۔
اب ایک شاعر کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہمارے ہاں کے تو رندانِ بلا نوش کا بھی حال یہ ہے کہ شراب کی ساری سرمستیاں اور نشہ کی تمام مدہوشیاں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دامانِ ادب ان کے لرزتے ہاتھوں سے چھڑانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ اور یہ ’’دیوانے‘‘ اپنے اس حال میں بھی ’’بامحمد ہوشیار‘‘! کا پاس نہیں بھولتے۔
شہرۂ آفاق شاعر اختر شیرانی رومانوی شاعری میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک معروف نقاد نے کہا تھا کہ وہ وصل کی آرزو اس طرح کرتا ہے جس طرح بچہ ٹافی مانگتا ہے۔ مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیریؒ فرماتے ہیں کہ عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ اس وقت تک شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے۔ تمام بدن پر رعشہ طاری تھا، حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔ ادھر اَنا کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ جانے کیا سوال زیر بحث تھا۔ فرمایا مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینئس (Genios)بھی ہیں اور کامل الفن بھی۔ پہلے ابوالفضل، دوسرے اسد اللہ خاں غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھا، اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔
کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طُرح دے گئے۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا وہ ناظم ہے۔ سردار جعفری کا نام لیا، مسکرا دیے۔ فراق کا ذکر چھیڑا، ہونہہ ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا۔ فرمایا، مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا ’’نام سنا ہے۔‘‘ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا ’’میرا شاگرد ہے۔‘‘ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں، تو بحث کا رخ پھیر دیا۔
’’حضرت! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ نشہ میں چور تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا، لیکن چونک کر فرمایا:’’کیا بکتے ہو؟‘‘
’’ادب و انشا یا شعر و شاعری کی بات کرو۔‘‘ کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا۔ ’’ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟‘‘ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے، فرمایا۔ ’’اجی پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں۔ یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے، تو ہمارے حلقہ میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا؟ کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔‘‘
اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک قادیانی نوجوان نے سوال کیا:
’’آپ کا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
اللہ اللہ! ایک شرابی، جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔
’’بدبخت ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیاہ رُو سے پوچھتا ہے! ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘
تمام جسم کانپ رہا تھا۔ ایکا ایکی رونا شروع کیا۔ گھگی بندھ گئی ’’تم نے اس حالت میں یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرأت کیسے ہوئی…؟ گستاخ! بے ادب!!
باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار!
اس شریر سوال پر توبہ کرو، تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس قادیانی کو محفل سے اٹھوا دیا پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے۔ کہتے تھے یہ بدبخت اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتا ہے۔
ایک مقام پر آقا کے حضور یوں مدح سرائی کرتے ہیں :
دنیائے ہست و بُود کو زینت تمہی تو ہو اس باغ کی بہار کے ساماں تمہی تو ہو
دنیا کی آرزوئیں فنا آشنا ہیں سب
 
جو روح زندگی ہے وہ ارماں تمہی تو ہو
صبح ازل سے شام ابد تک ہے جس کا نور

وہ جلوہ زار حُسن درخشاں تمہی تو ہو

دُنیا و آخرت کا سہارا تمہاری ذات

دونوں جہاں کے والی و سلطان تمہی تو ہو

اخترؔ کو بے نوائیِ دُنیا کی فِکر کیا
 
ساماں طرازِ بے سر و ساماں تمہی تو ہو
عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور جھلک شیرانی کے مدحت حبیب میں ڈھلے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔
اگر اے نسیمِ سحر ترا! ہو گزر دیارِ حجاز میں

مری چشمِ تر کا سلام کہنا حضورِ بندۂ نواز میں

تمہیں حدِ عقل نہ پاسکی فقط اتنا حال بتا سکی

کہ تم ایک جلوۂ راز تھے جو نہاں ہے رنگِ مجاز میں

نہ جہاں میں راحتِ جاں ملی ، نہ متاعِ امن و اماں ملی

جو دوائے دردِ نہاں ملی ، تو ملی بہشتِ حجاز میں

عجب اک سُرور سا چھا گیا مری روح و دل میں سما گیا

ترا نام ناز سے آگیا مِرے لب پہ جب بھی نماز میں

کروں نذر نغمۂ جاں فزا میں کہاں سے اخترِ بے نوا
 
کہ سوائے نالۂ دل نہیں مرے دل کے

غمزدہ ساز میں