عصر ِحاضر اور دینی تعلیم

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
عصر ِحاضر اور دینی تعلیم
……بنت منظور احمد، لودھراں
دورِ حا ضر میں انگریزی تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیےکہ ہم مسلمان ہیں اور اسی حیثیت سے علم دین سیکھنا ہمارے لیے اہم فریضہ ہے دورجدیدمیں انگلش تعلیم حاصل کرنے والے کو کہاجاتاہے کہ یہ اعلیٰ معیار کے لوگ ہیں۔ بڑے ہی افسوس اور ندامت کی بات ہیں کہ ہم مسلمانوں میں مغربی تہذیب بلند ہوتی جاری ہے اور ہم بالکل بے خبر اس میں رواں دواں ہیں جبکہ ایمان کا معیار تو تقویٰ ہے آج کل معیار کا مطلب ہی بدل گیاپہلے جاہل اس انسان کو کہا جاتا تھا جس میں علم دین کی سوچ سمجھ نہیں ہوتی تھی لیکن اب ایسےشخص کو جاہل کہا جاتا ہے جس میں انگلش لٹریچر کا رنگ نہ چڑھا ہو اور جو مغربی تہذیب کے خلاف ہو۔دورِ جدید میں فیشن بھی معیا ر کا حصہ بن گیا ہے جبکہ دینی تعلیم و تربیت میں فیشن بے حیائی اور فحش کے جمع ہونے کا نام ہے۔ دورِ حاضر کا نوجوان طبقہ بہت ذہین اور فیصلہ کن صلاحیت رکھنے والا ہیں لیکن ان کو جیسی تعلیم و تربیت ملے گی وہ اسی طرف عروج حاصل کریں گے۔ انگلش تعلیم اور دینی تعلیم کے حصول اورفوائد میں فرق جاننے کی کوشش کریں خود بھی اپنے دین کی قدر کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔
مشہور قول ہے کہ’’ ایک مرد پڑھا لکھا تو ایک فرد پڑھا لکھا ایک عورت پڑھی لکھی تو پورا خاندان پڑھا لکھا‘‘اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کرتے ہوےانہیں دینی تعلیم بھی حاصل کر وائیں ورنہ مسائل سے بے خبر رہنے والے لوگوں کی طرح وہ بھی گناہ کی زندگی گذار جائیں گی۔ایک یونیورسٹی جس میں ایک تقریری اور سوالاتی مقابلے کےدوران ایم۔ اے ہسٹری کی ایک طالبہ سے سوال کیا گیا: غسل کے فرائض بتائیں۔جواب میں طالبہ کہتی ہے تولیہ ، صابن، تیل اور پانی۔یہ رزلٹ ہے اعلیٰ تعلیم کا۔ہم مسلمانوں کےلیے بہت ہی افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے ایک مسلمان بچی کو اتنا بھی علم نہیں۔ جبکہ معاشرے کی نظر میں وہ ایک با شعور اور گر یجویٹ لڑکی ہے۔اس لیے دین کا علم ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ پہلے کا دور تھا کہ علم سے عمل اہمیت رکھتا تھا لیکن آج عمل کے ساتھ علم بہت ضروری ہے۔ حدیث میں علم کی اہمیت واضح ہے:حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا:”اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہے جنہیں اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہے،توشوق سے علم دین حاصل کرنے والوں دیکھ لے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے جب کوئی دین سیکھنے کا طالب علم کسی عالم کے دروازے کی طرف چلتا ہے۔ اللہ اس کے ہر قدم اورہر حرف کے بدلے ایک سال کی عبادت کا ثواب لکھتا ہے اور ہر قدم پرجنت میں اس کےلیے ایک محل تعمیر کر دیتا ہے۔زمین کے جس حصے سے وہ گذرتا ہے وہ زمین اس کے لیے مغفرت کی دعُا کرتی ہے ا س کی صبح شام اس حالت میں گزرتی ہے کہ اللہ نے اس کی بخشش فرما دی ہوتی ہے۔ فرشتے ایسے لوگوں کے بارے میں شہادت دیتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نےجہنم سے رہائی کا پر وانہ عطا فرما دیا ہے‘‘علم دین سیکھنا اور سکھانا دونوں ہی کار ثواب ہیں اور بُری باتیں سیکھنا اور سکھانا دونوں ہی انسان کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔ جہنم ایک غضبناک ٹھکانہ ہے۔علم کے ذریعے ایک عام آدمی پسندیدہ لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے اوردنیا اور آخرت میں بلند درجات حاصل کر سکتا ہے ،علم کے ذریعے انسان حلال و حرام کی تمیز سیکھتا ہے،علم امام اور عمل مقتدی کی حیثیت رکھتا ہے ،علم دین کے ذریعے انسان میں صلہ رحمی کے جذبات روشن ہوتے ہیں، علم نیک بخت اور خوش نصیبوں کو ملتا ہے جبکہ بد نصیب علم سے محروم رہتے ہیں۔