پاکستان میں شادی کی ایک جھلک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پاکستان میں شادی کی ایک جھلک
……فاخرہ تبسم
دنیا کے کسی میں ملک میں شادی ایک انتہائی عام اور سستی سی سرگرمی ہے۔ یورپ اور امریکا میں باہمی رضا مندی کے بعد چرچ جائیں اور میاں بیوی بن کر گھر آجائیں۔اگلےدن دوستوں اور اہل وعیال کو کھانے کی دعوت پر بلائیں مبارکبادیں لیں۔ چلیں جی ہوگئی اِس طرح نئی زندگی شروع۔ نہ کوئی زیور، نہ جہیز، نہ مکلاوا، نہ واگ پھڑائی، نہ جوتی چھپائی، نہ دودھ پلائی، نہ مایو، نہ مہندی، نہ لڑکی والوں کی طرف سے تمام سسرال والوں کے جوڑے لگائی اور نہ ہی سارے رشتے داروں کی مٹھائی اور بدِ بھجائی۔ جتنی زیادہ رسمیں اتنی ہی زیادہ ٹینشنیں، اور اتنی ہی زیادہ رشتے داروں کی باتیں اور ناراضگیاں۔ لیکن قصوروار کون؟ ہماری خواہ مخواہ کی انا، ہمارا معاشرہ، ہندووانہ رسمیں اور لوگوں کی باتوں اور سوچ کا ڈر۔ کہ لوگ کیا سوچیں گے؟ !ہمارے ہاں روایتی شادی کی تقریبات کے آغاز اور اختتام کے دوران ہر دن پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے۔ شادی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے رشتے کی تلاش سے۔ پیسے نچوڑنے کا پہلا مرحلہ شروع ہوتا ہے میرج بیورو یا رشتے کروانے والوں سے۔ لڑکی یا لڑکے کا رشتہ دکھانے کی آڑ میں سبز باغ دکھاکر خوب پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ پسند کا لڑکی لڑکا چننے میں ایک عمر گزر جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر مرضی کا رشتہ طے ہوتا ہے۔اب رشتہ طے ہونے کے بعد مبارکباد کے نام پر مٹھائی کھلائی جاتی ہے اور لڑکا لڑکی والے ایک دوسرے کو نقد رقم دے کر بات پکی کرنے کا بالکل ایسے ہی اشارہ دیتے ہیں جیسے کسی پراپرٹی کا بیعانہ دیا جاتا ہے۔ اس دوران منگنی کی باتیں بھی چلتی ہیں اور لڑکی لڑکے والے ایک دوسرے کی ’’اچھی سیرت اور کردار‘‘ کی تصدیق کرنے کیلئے نا صرف گھروں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں بلکہ محلے داروں سے بھی بھرپور تفتیش کی جاتی ہے۔ منگنی کی تاریخ طے ہو تو دلہن کیلئے سونے کی انگوٹھی اور گولڈن سیٹ تو پکا ہے اور ساتھ ساتھ سسرال والوں بالخصوص نند کیلئے بھی جوڑے اور سیٹ دینا روایت ہے۔ ناک رکھنے کیلیے رشتے داروں کی دعوت کیلیے شادی ہال اور اچھے کھانوں کا اہتمام بھی خوب کیا جاتا ہے۔ منگنی کے اخراجات کی لسٹ بنائیں تو اسے ’’منی شادی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ منگنی کے بعد پھر بات چلتی ہے شادی کی تاریخ طے کرنے کی۔ ڈیٹ فکس کرنے کی روایت الگ سے ہے۔ دونوں خاندان ایک دوسرے سے مذاکرات کے ذریعے شادی کی تاریخ طے کرتے ہیں۔ ڈیٹ فکس کرنے کی تاریخ کی بھی لڑکی والوں کو دعوت کے ساتھ رقم کی جاتی ہے۔ لڑکی والے لڑکے والوں کے پورے خاندان کیلیے کھویا یا مٹھائی لے کر آتے ہیں اور لڑکے والے مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ آپس میں میٹھی میٹھی باتیں ہوتی ہیں اور الوداع کے بعد چائے کے کپ پر تھوڑی سی غیبت کی چسکیاں لی جاتی ہیں۔ڈیٹ فکس ہونے اور مایو کے دن کے درمیان کے سارے ایام شادی کی شاپنگ کیلیے مخصوص ہوتے ہیں۔ لڑکی والوں کی کمر تو پہلے جہیز توڑتا ہے اور پھر زیور۔ دلہا دلہن کے جوڑے، جوتیاں، سسرالیوں کیلئے ان سلے کپڑے مایو مہندی کا سامان، ڈی جے کا بندوبست، شادی کارڈ چھپوانا، ناچ گانے کا اہتمام اور ڈھول اور بارات والوں کو بلاوے سمیت دعوت طعام کیلیے بھرپور انتظام کیا جاتا ہے۔ شادی کی دعوت آپ ایس ایم ایس پر نہیں دے سکتے۔ خود گھر گھر جانا پڑتا ہے۔ لڑکے والے تو ناک رکھنے کیلئے دلہن کے زیور اور ولیمے کا بہترین اہتمام کرتے ہیں۔ ان دنوں ایک ہی معاملہ زیر بحث رہتا ہے، ولیمہ شادی ہال میں کریں یا کوئی ہوٹل۔ خیر پھر وہ دن آتا ہے جب شادی کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو اخراجات کی اصل وجہ شادی نہیں بلکہ فرسودہ اور ہندوانہ رسومات ہیں جو ہمارے کلچر میں بری طرح سرایت کر چکی ہیں۔