سیدہ اُمِّ رُومان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سیدہ اُمِّ رُومان
معظمہ کنول
سن 9 ہجری میں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی خاتون کی وفات کی خبر ملی جو شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانہ وار فدا تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر سخت حزن و ملال کے عالم میں ان کے جنازے پر تشریف لے گئے۔ خود قبر میں اتارا اور ان کو حور عین کے لقب سے نوازا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔ یہ ام روما ن رضی اللہ عنہا جن کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی حور قرار دیا، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رفیقہ حیات، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشدامن اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ تھیں۔
حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھا، کسی نے ان کا اصل نام نہیں لکھا، اس لیے کنیت ام رومان ہی سے مشہور ہیں۔ سلسلہ نسب یوں ہے۔
ام رومان رضی اللہ عنہا بنت عامر بن عویمر بن شمس بن اذینہ بن سبیع بن دہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔
حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح (زمانہ جہالیت میں) عبداللہ بن حارث بن سنجرہ سے ہوا اور انہی کے ساتھ مکہ آکر سکونت پزیرہوئیں۔ عبداللہ بن حارث کےصلب سے ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام طفیل رکھا گیا۔ کچھ عرصہ بعد عبداللہ بن حارث نے وفات پائی اور ام رومان رضی اللہ عنہا کا دوسرا نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے صلب سے ام رومان رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ھوئے جو تاریخ اسلام کی نہایت درخشندہ ہستیاں ہیں۔
بعثت کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان چار عظیم المرتبت ہستیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے سب سے پہلے لوائے توحید کو تھاما (یعنی ام المومنین حضرت خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا، حضرت علی کرم اللہ وجہ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ)۔ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کو سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے بلا تامل ان کی تقلید کی اور یوں سابقون الاوّلون کی مقدس جماعت میں شامل ہو گئیں۔
سفر ہجرت میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کاعظیم الشان شرف حاصل ہوا۔ مکہ سے چلتے وقت انہوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو اللہ کے بھروسے پر دشمنوں کے درمیان چھوڑ دیا۔ جب مدینہ پہنچ کر اطمینان ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ اور حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو اپنے اہل و عیال لانے کے لیے مکہ بھیجا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ہمراہ عبداللہ بن اُریقط کو اپنے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نام خط دے کر بھیجا کہ وہ بھی ام رومان رضی اللہ عنہا، اسماءرضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہمراہ مدینہ منورہ لے آئیں۔ چنانچہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا، اسماءرضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے روانہ ہوئیں۔ مدینہ منورہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال نے بنو حارث بن خزرج کے محلے میں قیام کیا جہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مکان پہلے سے ہی لے رکھا تھا۔
سن 6 ہجری میں افک کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافیقین مدینہ کی سازش سے ناپاک تہمت لگائی گئی۔ واقعہ کی صورت کچھ ایسی تھی کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع مبارک بھی پر ملال ہو گئی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے آقا کا ملال قیامت سے کم نہ تھا۔ دکھیا بیٹیوں کی پناہ گاہ دامان مادر ہی ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گرتی پڑتی اپنے والدین کے گھر پہنچیں۔ یہ ایک دو منزلہ مکان تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اوپر کی منزل میں تھے اور ام رومان رضی اللہ عنہا نچلی منزل میں بیٹھی تھیں۔ بیٹی کو اس حالت میں آتے دیکھ کر پوچھا:
”میری بچی خیر تو ہے، کیسے آئیں۔ ؟“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واقعہ بیان کیا۔ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ماں تھیں، دکھ تو انہیں بھی بہت ہوا لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دل رکھنے کو کہا: " بیٹی گھبراؤ نہیں، جو عورت اپنے خاوند کو زیادہ محبوب ہوتی ہے اسے شوہر کی نظروں سے گرانے کے لیے ایسی باتیں بنائی جاتی ہیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل پر بنی ہوئی تھی۔ انہیں ماں کے جواب سے تسکین نہ ہوئی اور فرط الم سے ان کی چیخ نکل گئی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بچی کی چیخ سن کر بالا خانے سے نیچے اترے، واقعہ سنا، رقیق القلب تو تھے ہی خود بھی رونے لگے۔جب ذرا قرار آیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ، بیٹی تم اپنے گھر جاؤ، ہم ابھی آتے ہیں۔
جب وہ چلی گئیں تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو ہمراہ لے کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پہنچے۔ ام المومنین رنج و الم کی شدت سے بخار میں مبتلا ہو گئی تھیں، حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا نے انہیں اپنی گود میں لٹایا۔
نماز عصر کے بعد سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے اور اس بہتان کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ماں باپ کی طرف دیکھا اور کہا، آپ لوگ جواب دیں لیکن دونوں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے شیدائی تھے اپنے آقا کو ملول دیکھ کر بیٹی کی حمایت کیسے کر سکتے تھے، کہنے لگے: "ہم کیا کہہ سکتے ہیں"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل بے قصور ہوں۔"
آخر غیرت الہٰی جوش میں آئی اور اللہ رب العزت نے خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طہارت کی گواہی بڑے ُپر زور الفاظ میں دی۔ ارشاد ہوا:جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح تہمت ہے۔)سورہ نور - آیت 12(
آیت برات کے نزول سے حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کو کمال درجے کی مسرت ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ماں نے بیٹی سے کہا: " بیٹی اٹھو اور اپنے شوہر کے قدم لو۔"
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ناز سے جواب دیا : " میں تو صرف اپنے رب کی ممنون اور شکر گزار ہوں جس نے میری بے گناہی کی شہادت دی۔"
حضرت ام رومان کی وفات سن 9 ہجری کو ہوئی۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی بہت عزت کرتے تھے چنانچہ ان کی تدفین کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اترے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔