ء کا امریکی جنسی انقلاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
1920ء کا امریکی جنسی انقلاب
رانا بابر
موجودہ معاشرے میں عورت کی آزادی پر بحث بڑے زورو شور سے جاری ہے۔ تقریباً تمام بین الاقوامی تنظیمیں جو ہیومن رائٹس پر کام کر رہی ہیں انکو سب سے زیادہ فکر عورت کے حقوق کی ہے۔
لیکن ان تنظیموں کو چلانے والے اور انکے سرپرست لوگوں کو عورت کی آزادی کا خطرہ اگر لاحق ہے تو صرف مسلم ممالک میں ہے اپنے گھر کی کوئی فکر نہیں دوسروں کے گھر کی فکر ہے۔
آج معاشرے میں سب سے زیادہ اٹھایا جانے والا سوال ہے عورت کی آزادی اور مجھے اس نظریہ کی دو ٹوک الفاظ میں آج تک کوئی خاص سمجھ نہیں لگی کیوں کہ میں کافی عرصے سے اس پر غور کر رہا تھا بھئی کیا ماجرا ہے ؟
لیکن جب میں نے اس پر اپنی بساط کے مطابق معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تو اس میں مجھے عورت کے حقوق نظر نہیں آئے بلکہ میں گھوم پھر کر ایک نقطے پرپہنچا کہ عورت کا ایک ہی حق ہے جسے مسلم معاشرے پر نافذ کرنے کی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس کو عورت کا حق آزادی بھی کہتے ہیں جس میں عورت کو مکمل طور پر جنسی آزادی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تنظیموں کے سرپرست اعلیٰ جو انکومنظم اور Circulate کر رہے ہیں انکے ہاں تو عورت بازار کی زینت بنا دی گئی ہے ، یا بوجہ معاشرتی حالات اپنی مرضی سے بن گئی ہے۔
اب اسوقت ایک مشروب کی بوتل سے لے کر شراب کی بوتل پر عورت کی تصویر بنا دی گئی ہے ، ایسے ہی ایک میڈیسن کی ڈبیہ سے لے کر بڑی بڑی دوائی بنانے والی کمپنیوں کے سائن بورڈ پر عورت کی تصویر لگائی جا رہی ہے ان سب کو چھوڑیں میرے پاس اس سے مناسب الفاظ نہیں ایک ڈسپوزیبل چیز پر بھی عورت کی نیم عریاں تصویر چھاپ کر بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
کیا یہ ہے آزادی ؟ کیا یہ عزت ہے عورت کی ؟ کیا یہ اخلاقی عمل ہے ؟ تف ہے ایسے عقلی معیار پر لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہو۔
یہاں تک مان لیا جائے کہ حقیقی طور پر نہیں بلکہ فرضی طور پر یہ درست ہے ایسا ہونا چاہئے۔ تو کیا یہ درست ہے ؟۔کیا عورت کا صرف یہ ہی حق ہے ؟۔ بازار کی رونق خریدو فروخت کی اشیاء ہوا کرتی ہیں کیا عورت ایک بازاری چیز ہے جب دل کیا اسے استعمال کیا جائے اور جب دل کیا اسے چھوڑ دیا جائے ؟
کیا عورت کی ایسی ذہنی تربیت کی جائے کہ جس کا مرضی دل کرے اس کے ساتھ کھیلے اور جب دل کرے اس کو کھلونے کی طرح پرے ہٹا دے ؟۔ پرانے وقتوں میں غلاموں کی منڈیا ں لگا کرتی تھیں اور بولیاں بھی جن میں بلا تفریق مردوزن بازار کی زینت بنا کرتے تھے۔ جس میں بولیاں لگا کرتی تھی عورتیں اور مرد فروخت ہوا کرتے تھے۔
لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کس نے اس قبیح فعل کے خلاف علم بلند کر کے ثابت کیا کہ یہ غلط کام ہے اور عورت کو معاشرے میں عزت اور گھر کی چار دیواری میں حکمرانی دی اس وقت بھی تو عورت کو اس طرح کی جنسی آزادی تھی لیکن کیوں آج دوبارہ اس دور میں واپس لے جانے کی تگ و دو ہورہی ہے وجہ؟
جن کے ہاں اس طرح کی جنسی آزادی ہے ان کی معاشرتی اکائی یعنی ان کے خاندان میں موجود میاں بیوی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جن بچوں کی وہ کفالت اور پرورش وغیرہ کر رہے ہیں وہ بچے ان کے ہیں بھی یا کہ نہیں۔
وہ تو کچھ وجوہات کی بنا پر بعدمیں DNA ٹیسٹ بتا تا ہے کہ اس کا والد تو کوئی اور ہے۔ یہ میں نہیں کہتا آپ مغرب اور امریکہ اور اس طرح کے لبرل ممالک کے اخبارات اور نیوز نیٹ ورک سے معلوم کر سکتے ہیں اور اس میں دوسری قابل غوربات ان کو اس کی فکر بھی نہیں ہے۔
لیکن اس کے برعکس ہمیں ہے کیوں کہ وہ لفظ غیرت کو نہیں مانتے لیکن ہم مانتے ہیں وہاں پر ایک عورت کاایک کو چھوڑ کر دوسرے ، دوسرے مرد کو چھوڑ کر تیسرے ، تیسرے کو چھوڑ کر چوتھے کے ساتھ تعلقات استوار کرنا کوئی غیر معیوب بات نہیں بلکہ اس کو وہ لوگ Freedom کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
ان کے ہاں شادی کی شرح کامیابی اٹھائیں اور مجھے بتائیں کتنے فی صد شادیاں کامیابی کے مراحل طہ کرتی ہیں ؟۔ مذہبی معاشرے اور لبرل معاشرے کا فرق تناسب دیکھیں تو ہمارے ہاں کم تعداد میں جتنے فی صدشادیا ں ناکام ہوتی ہیں ان کے ہاں اتنے فی صد کامیاب ہوتی ہیں۔
ان کے ہاں مردو زن آپسی تعلقات کی سکیورٹی کو اتنا اہم نہیں مانتے کیوں کہ یہ ہی ہے ان کی Freedom۔ کیا ہم بھی اپنے معاشرے میں عورت کو اس طرح کی آزادی دیں ؟۔ اس سے خاندان پر کیا اثرات پڑتے ہیں کبھی سوچا ہے ؟
اس سے معاشرے میں کس طرح کا بگاڑ آئے گا یہ جو لوگ عورت کی جنسی آزادی کے دعوے دار ہیں کبھی ان کی اپنی زندگی دیکھیں یہ لوگ زندگی کے اس بنیادی پہلو میں ناکام ترین لوگ ہیں۔ ہم زحمت نہیں کریں گے اس بات پر غور کریں کیوں کہ ہمارے سر پر مادی ترقی کا بھوت سوار ہوا پڑا ہے۔ اس کا اثر ایسا ہی ہے جیسا کہ انسان کبھی کبھی خوشی کے مارے اوسان خطا کر بیٹھتا ہے لیکن جب کانوں پر پڑتی ہے تب عقل ٹھکانے آتی ہے۔
میں مادی ترقی کا منکر نہیں اﷲ نے انسان کو شعور کی طاقت دی ہے تو اس کے ساتھ احساس بھی عطا کیاہے صرف مادیت ہی سب کچھ نہیں۔ غور وفکر صرف مادی ترقی کے لئے نہیں ہے بلکہ احساسات اور جذبات کی سمجھ بوجھ کے لئے بھی اس کا استعمال لازم ہے۔
عورت کی جنسی آزادی کے موجودہ نظریہ کی بنیادی سوچ کی جو کڑی مجھے ملی اسکے مطابق اصل میں اس نظریہ کا پسِ منظر اور آغاز 1920ء میں امریکہ سے ہوا۔
اُس وقت لاکھوں لوگ چھوٹے قصبوں سے ہجرت کر کے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔وہ لوگ جو شہروں میں آکر آباد ہوئے ان کے شہری لوگوں کے ساتھ خاندانی اورذاتی آپسی میل جول کو نشو نما ملی جس میں نوعمر عورتوں اور مردوں کو ان کے جنسی تعلقات استوار کرنے اور ان مراسم کو آگے لے کر کے چلنے کی کھلی آزادی ملی۔
کافی عرصہ یونہی چلتا رہا پھر جا کر 1930ء سے لے کر 1940ء تک کے درمیانہ عرصہ میں جنگ عظیم دوئم اور اس کے دباؤ کی وجہ سے یہ جنسی انقلابی تبدیلی تھوڑی سست پڑ گئی۔
جنگ عظیم کے بعد 1945ء میں الفریڈ Kinsey نے ایک پلان ترتیب دیا جسکو بعد میں جنسی انقلاب کے نا م سے جانا گیا۔1948ء میں الفریڈ اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے جنسی تعلیم پر پہلی بار مواد شائع کیا جس کی بدولت امریکی عوام پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
Kinsey کی پہلی کتاب (Pomeroy and Martin ) 1948 میں شائع ہوئی اور اس کی بہترین سیل ہوئی۔اس کے بعد 1953ء میں اس کی دوسری کتاب (Kinsey et al.) شائع ہوئی یہ بھی بیسٹ سیلر تھی۔ یہ دونوں کتابیں جنسی تعلیم پر مبنی ہیں۔
ان کتابوں نے جنسی انقلاب کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد کی اور 1960ء تک کے عرصہ تک ان کتابوں نے جنسی انقلاب کو بہت مدد دی اور لوگوں کی ذہن سازی اس طرح ہوئی کہ جنسی تعلقات میں غلط اور درست کی پہچان ختم ہو گئی۔ اور یہ نظریہ دیا کہ اگر جنسی عمل ، عیاشی، اور نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنا اگر اچھا ہے تو دل کھول کر کرو عمر کی تمیز کئے بغیر جاری رہو۔
میں اپنے الفاظ میں تشریح کروں تو معاشرے کو جنگل بنا دو اور جانوروں کی سی زندگی جیؤ جس میں کوئی فرق نہ ہو۔ نہ رشتہ کی تمیز ہو۔ نہ جنس کی تمیز ہو۔ امریکہ میں 1946ء سے لے کر کے 1964ء تک کی پیدائش کا یہ ذہن بن چکا تھا کہ جنسی فعل انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے خواہ شادی کی جائے یا نہ کی جائے۔
اس میں سب سے اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جس شادی کوتاریخ میں انسان نے جوڑے کے تعلقات کی سیکیورٹی بنایا تھاجس سے خاندان کی بقاہواس سکیورٹی پر حملہ کر کے اس کو ختم کیا گیا یہ تھی آزادی۔
اوراب دوبارہ انسان کو پتھر کے زمانے کی طرف لوٹانے اور ننگ دھڑنگ بنانے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ جنسی طاقت کے لئے ادویات اور اس کے ساتھ مانع حمل ادویات وغیرہ نے بھی جنسی انقلاب میں بہت حد تک مدد کی کیوں کہ اس کی بدولت ایک سکیورٹی کو تو ختم کیا گیا لیکن اب خود بھی تو اس عمل کے بعد اپنے کئے کی بھی سکیورٹی ضرورت تھی تو وہ جدید ٹیکنالوجی نے فراہم کی۔
تم ہمیں پرانے خیالات کا طعنہ دو گے لیکن تمہارے خیالات جو تمہاری نظر میں نئے ہیں وہ تو ہم سے بھی پرانے نکلے۔