عفو ودر گزر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عفو ودر گزر
عبدالعزیز
دشمن سے انتقام لینا فطرت انسانی کا خاصہ ہے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ دشمنوں سے انتقام کے قائل نہیں تھے بلکہ ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدترین دشمنوں سے حسن سلوک برتااور ان کے ساتھ ہر ممکن مہربانی سے پیش آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو قدرتِ انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع کرے میں اس کو ملاؤں۔ جو مجھے محروم رکھے، میں اس کو عطا کروں۔ غضب اور خوشنودی، دونوں حالتوں میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس کا مظہر رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دشمنوں کے حق میں دعا کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ ان کیلئے استغفار کریں یا نہ کریں برابر ہے۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے حق میں بد دعا نہیں کی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارگاہِ نبوی میں درخواست پیش کی گئی کہ یا رسول اللہ! مشرکوں پر بد دعا اور لعنت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والے کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہوا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
غزوۂ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے چار دانت شہید ہوگئے۔ سر مبارک اور چہرۂ انور بھی زخمی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رنج اور اضطراب کی حالت میں گزارش کی، یا رسول اللہ! کاش آپ ان دشمنانِ دین پر بددعا کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت اور بد دعا کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے واسطے بھیجا گیا ہوں۔
اس کے باوجود جب قریش کے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ان کے مظالم و ایذا رسانی کا سلسلہ حد سے بڑھ گیا تو صحابہؓ نے پھر عرض کیا کہ حضور! ان ظالموں کے حق میں بد دعا کیجئے۔
مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حق میں یہ دعا کی: ’’الٰہی میری قوم کو بخش دے کہ یہ لوگ بے خبر ہیں‘‘۔
جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں خود کے دو حلقے پیوست ہوگئے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے التماس کی : یا رسول اللہ! دشمنوں کے حق میں بد دعا کیجئے۔ اس موقع پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ ’’الٰہی! میری قوم کو بخش دے۔ یہ لوگ ناواقف ہیں‘‘۔
سخت ترین دن: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ایذائیں جھیلیں، لیکن سخت ترین دن وہ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کیلئے طائف گئے۔
وہاں دعوتِ اسلام کے جواب میں لوگ سخت بد اخلاقی سے پیش آئے۔ بازاری لفنگوں اور اوباشوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگادیا۔ یہ غنڈے بدمعاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے اور ذات اقدس پر بے پناہ سنگ باری شروع کردی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جدھر کا رخ کرتے یہ غول آپ کا تعاقب کرکے پتھراؤ کرتا اور گالیاں بکتا۔ حضرت زیدؓ نے اپنے جسم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ڈھال بنا رکھا تھا، لیکن جب چاروں طرف سے پتھر برس رہے ہوں تو وہ کہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھ سکتے تھے، اتنی سنگ باری ہوئی کہ جسم مبارک لہو لہاں ہوگیا اور نعلین مبارک میں خون بھر گیا۔ جسد اطہر کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو مجروح نہ ہوا ہو اور اس سے خون نہ رِس رہا ہو۔
آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی مشکل سے ایک باغ میں انگور کی بیلوں میں پناہ لی اور اوباشوں سے پیچھا چھڑایا۔ حضرت زیدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا خون پونچھا۔
نعلین مبارک میں اتنا خون جم گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت بمشکل اپنے پیر سے نعلین نکال سکے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ میرے لئے سخت ترین دن تھا۔ میں باغ سے نکل کر غم زدہ آرہا تھا کہ اچانک بادل کے ایک ٹکڑے نے آکر میرے اوپر سایہ کر دیا۔
میں نے جو نظر اٹھاکر دیکھا تو جبریل علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے حق تعالیٰ شانہٗ نے اسے دیکھا اور اگر آپ کی مرضی ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو باہم ملا کر یہاں کی ساری آبادی کو تہس نہس کر دیا جائے۔
میں نے کہا؛ نہیں، میں ان کی ہلاکت و بربادی نہیں چاہتا بلکہ مجھے خدا کے فضل سے امید ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ انہی میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘۔
گیارہ سال بعد یہی اہل طائف تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت سے دستبردار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گر پڑے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں سخت قحط پڑا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قریش چمڑا اور مردار کھانے لگے۔ ابو سفیان کو یہ معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوتی ہے۔ وہ مدینہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ محمد! آپ کی قوم قحط سے ہلاک ہورہی ہے، آپ ان کیلئے دعا کیجئے۔
اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کے حق میں کیوں دعا کروں جنہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں اپنے گھروں سے نکالا، بلکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فی الفور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔
اناج کی بندش: شہر مکہ میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی۔ اناج یمامہ سے آتا تھا۔ یمامہ کے حاکم حضرت ثمامہؓ مسلمان ہوگئے اور انہوں نے مکہ معظمہ کی طرف غلے کی برآمد بند کر دی۔ اس بندش سے قریش میں کہرام مچ گیا۔ انہوں نے سخت اضطراب اور بدحواسی کے عالم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ میں رجوع کیا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہؓ کے نام پیغام بھیجا کہ اناج کی بندش اٹھالو، چنانچہ اناج مکہ پہنچنے لگا۔ حالانکہ یہ اہل مکہ وہی تھے جنہوں نے مسلسل تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کا ایسا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا تھا کہ اناج کا ایک دانہ تک پہنچنے نہیں دیتے تھے۔ ہاشمی بچے بھوک سے تڑپتے اور بلبلا اٹھتے تھے، لیکن ان ظالموں کے پتھر دل کسی طرح نہ پسیجتے تھے بلکہ یہ گریہ و بکا سن کر رحم کرنے کے بجائے ہنستے اور خوش ہوتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ سب باتیں بھول ان کیلئے اناج کی بندش ختم کروائی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جذبۂ ترحم میدانِ جنگ میں بھی رہتا تھا۔ بدر کے میدانِ جنگ میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے آدمی اس حوض پر پانی پینے آئے جو اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا۔
مسلمانوں کی فوج نے یہ حوض اپنی ضرورت کیلئے تیار کیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے مشرکین کو پانی پینے سے روکنا چاہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانی پینے سے منع نہ کرو، پینے دو‘‘۔
فتح مکہ کے بعد کا منظر:
جب مسلمانوں نے مکہ فتح کیا تو یہ وقت تھا کہ وہ ظالمون سے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے۔ ابو سفیان بہت پریشان تھا۔ سعد بن عبادہؓ نے ابو سفیان سے کہا: ابو سفیان! آج کا دن قتل اور خون ریزی کا دن ہے۔ آج کے روز خدائے شدید العقاب قریش کو ذلیل کرے گا۔‘‘
یہ سن کر سفیان حواس باختہ ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے تو کہا:’’یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ہی قوم قریش کے قتل و غارت کا حکم دے دیا ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر گز نہیں۔‘‘
ابو سفیان نے کہا: ’’سعد تو یہی کہہ رہے ہیں‘‘۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سعد غلط کہتے ہیں، تم اطمینان رکھو۔ آج کا دن لطف اور رحمت کا دن ہے‘‘
ابو سفیان نے کہا : ’’ میں آپ کو خدائے برتر کی قسم اور قریش کی قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ قریش کو معاف کیجئے، کوئی انتقام نہ لیجئے‘‘۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں؛ ایسا ہی ہوگا۔‘‘
اور حکم جاری کیا سعد سے جو انصار کا جھنڈا لئے فوج کی کمان کر رہے تھے، جھنڈا لے لیا جائے کیونکہ وہ جذبات سے مغلوب ہیں اور انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں۔
حضرت سعدؓ بن عبادہ قبیلہ خزرج کے رئیس اعظم تھے اور قریش مکہ نے قبول اسلام کی پاداش میں انہیں بری طرح اپنے جور و ستم کا تختۂ مشق بنایا تھا اور فطری طور پر وہ اس جورو ستم کا بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ یہ یوم انتقام نہیں، یوم رحمت ہے۔ اور احتیاطاً ان سے پرچم لے لیا۔ جس فوج کی وہ کمان کر رہے تھے اس کی کمان دوسرے کے سپرد کر دی گئی۔
یہ اعلان ہوا کہ جو کوئی ابو سفیان کے مکان میں پناہ لے گا یا اپنے گھر کا دروازہ بند رکھے گا یا ہتھیار جسم سے علاحدہ کر دے گا اس کو امان ہے لیکن پھر بھی لوگ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں کی فوج مکہ میں خون کی ندیاں بہا دے گی اور ہمیں اپنی ایذا رسانیوں اور جفا کاریوں کی عبرت ناک سزا ملے گی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا مشفقانہ برتاؤ کیا کہ بعض انصار صحابیؓ سرگوشیاں کرنے لگے کہ حضورؐ پر اپنی قوم کی الفت اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم مدینہ والوں کو چھوڑ کر مکہ ہی میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہا کریں گے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا: ’’تم نے کہا ہے کہ رسول اللہ پر اپنی قوم کی الفت اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی تھی اور مطمئن رہو کہ میرا مرنا، جینا تمہارے ساتھ ہی ہے‘‘۔ انصار عرض پیرا ہوئے: ’’یا رسول اللہ! ہم نے جو کچھ کہا ہے خدا اور رسول کی محبت میں کہا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا تمہارا عذر قبول کرتا ہے‘‘۔
شانِ رحمۃ لّلعالمین:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور فاتح مکہ میں یوں فاتحانہ فاخل ہوتا تو اس کے کبرو غرور کی کوئی انتہا نہ ہوتی اور وہ بڑی شان و شوکت اور جاہ و جلال کا مظاہرہ کرتا لیکن اقلیم نبوت کے تاجدارؐ نے اس موقع پر تواضع، حلم اور انکسار کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اس داخلے کی کیفیت یوں لکھتے ہیں کہ فوجی دستوں کو تین سمتوں میں متعین فرمانے کے بعد آپؐ نے غسل کیا۔ پھر اسلحہ زیب تن کرکے خاص اصحاب کے ساتھ اونٹوں پر سوار ہوئے۔ آپؐ کو اپنی ہجرت کا وہ نازک وقت یاد آیا جب اسی مکہ میں دشمنوں نے آپؐ کے قتل کا فیصلہ کرکے رات بھر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم بے کسی میں غارِ ثور کے اندر جا چھپے تھے۔ اب اسی شہر میں خدا نے حاکمانہ اقتدار بخشا تھا۔ اس پر جذبۂ تشکر سے سرشار ہوکر سب سے پہلے حضورؐ نے اپنا سر مبارک جھکایا اور اونٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدۂ شکر ادا کیا۔ پھر سورۃ اِنَّا فَتَحْنَا۔۔۔ بلند آواز سے پڑھی۔
سب سے پہلا مسئلہ جس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ فرمائی وہ ایک بے گناہ جُنَیدِب بن اکوع کا معاملہ تھا، جو مسلمانوں کے ہاتھوں غلطی سے مارا گیا تھا۔ آپؐ نے سب سے پہلے سو اونٹ اس کے وارثوں کو بطور خون بہا بھجوائے۔ اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام امان کا اعلان فرمایا۔ صرف سولہ افراد ایسے تھے جن کے جرائم کی نوعیت سنگین تھی۔ ان کیلئے یہ فیصلہ ہوا کہ موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں، لیکن پھر ان سولہ میں سے بھی تیرہ کی جاں بخشی کر دی اور صرف تین آدمی مارے گئے۔ ان تین آدمیوں میں سے دو ایسے تھے جنھوں نے مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پناہ لی تھی اور پھر لوگوں کو قتل کرکے مکے بھاگ آئے تھے۔ تیسرے آدمی حُویرث بن نقیذ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو بڑی ایذائیں دی تھیں۔
اتنے بڑے شہر میں جہاں قدم قدم پر وہ لوگ موجود تھے جو ساری عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درپے آزار رہے، صرف تین آدمی مجرم قرار پائے اور باقی سب معاف کر دیئے گئے۔ ان معافی پانے والوں میں حضرت امیر حمزہؓ کا قاتل، وحشی اور حضرت حمزہؓ کا جگر چبانے والی ابو سفیان کی بیوی ہندہ جگر خوار اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ شامل تھے۔ فتح مکہ کے دوسرے دن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو لہب کے بیٹوں کا خیال آیا۔ وہ خوف کے مارے روپوش ہوگئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کروایا اور ان سے بڑی مہربانی کا سلوک کیا۔ یہ سلوک دیکھ کر وہ بھی فوراً مسلمان ہوگئے۔ مسجد الحرام کے دربار میں وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے خاندان کو تین سال تک ایک درّے میں محصور کرکے آب و دانہ تک بند کر دیا تھا اور اناج کا ایک دانہ تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔
اس دربار میں وہ لوگ بھی کھڑے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو تپتی ہوئی ریت پر ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے۔ انہی میں وہ مغرور ہستیاں بھی موجود تھیں جنہوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ ہم داعی اسلام کو صفحہ ہستی سے محو کر دیں گے اور ایسے لوگ بھی تھے جو خونِ رسالت سے اپنی پیاس بجھانا چاہتے تھے۔ یہ سبھی مجرم سر جھکائے کھڑے تھے۔
ادھر دس ہزار تلواریں شہنشاہِ عرب و عجم کے ایک اشارے کی منتظر تھیں کہ حکم ہو تو ہم ان مجرموں کے سر قلم کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف دیکھا اور پیغمبرانہ جلال کے ساتھ دریافت کیا: ’’تمہیں کچھ معلوم ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ یہ سن کر اہل مکہ پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص کو یقین ہوگیا کہ ابھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قتل عام کا حکم دیں گے۔ لیکن پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں آج تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ میں بھی یوسف صدیق کی طرح تم سے کہتا ہوں کہ آج تم پر کوئی الزام اور مواخذہ نہیں ہے۔ خدائے برتر تمہارے قصور معاف کرے اور وہی ارحم الراحمین ہے‘‘