اچھی تعلیم و تربیت کے آثار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اچھی تعلیم و تربیت کے آثار
فاروق اعظم ، حاصل پور
اگر انسان کی صحیح تربیت کی جائے‘ مناسب تعلیم اور اخلاق حسنہ کے زیور سے اسے آراستہ کیا جائے تو وہ گلدستہ کائنات کا ایک حسین پھول بن جاتا ہے اور ایک مشفق باپ یا ماں ‘ پُر محبت اور باوفا شوہر یا بیوی‘ فرمانبردار اولاد‘ پُر خلوص دوست‘ محب وطن اور اچھے انسان کا بہترین نمونہ بن جاتا ہے۔
لیکن اگر بد قسمتی سے انسان اچھی تعلیم و تربیت سے محروم ہو جائے‘ جہالت کے گہرے سائے اس کے دل و دماغ کو ڈھانپ لیں تو وہ ایک پیکر وحشت ‘ نمونہ ظلمت اور مجسمہ عبرت بن جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ” کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے‘ انسان کا اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔

(1)

صدقہ جاریہ۔

(2)

وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

(3)

نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں آدمی کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟ تو جواب ملتا ہے اس لئے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لئے مغفرت طلب کرتا ہے۔
انسان کو نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ نا مساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کاا پنی اولاد کی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے۔ کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہو گی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔
بچوں کی تربیت کا آغاز بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شیر خوارگی کا عرصہ بچوں میں ان کی زندگی کے پہلے دو سالوں پر محیط ہے۔ زندگی کا یہ پہلا مرحلہ نہایت اہم ہے ‘ بچے کی جسمانی اور جذباتی نشوونما اس مرحلہ کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ صرف تین ہی ماہ میں وہ رنگ اور شکل میں تمیز کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ابتدائی بچپن کا مرحلہ دو سے چھ سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ اس عرصہ کے دوران بچے کی سوچ‘ یادداشت‘ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت اور سماجی دنیا سے اس کے تعلقات میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوتا ہے۔ بچپن کے بعد کا مرحلہ چھ سے بارہ سال کی عمر تک محیط ہے اس مرحلہ کے دوران بچے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت‘ وجوہات اور دلائل پیش کرنے کی صلاحیت‘ سماجی سوجھ بوجھ اور خود آگاہی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔نوجوانی بچے کی جسمانی‘ نفسیاتی اور سماجی نشوونماءکا ایک دورہ ہے جو تقریباً تیرہ سے انیس سال کی عمر پر محیط ہے۔ اس عرصہ کے دوران بچہ بچپن سے جوانی کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے اور بچے میں بلوغت کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں۔
انسان نوجوانی کی عمر سے اپنے عہد شباب تک پہنچتا ہے۔ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ انسان اپنے بچپن اور نوجوانی میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے۔ نکاح کیلئے نیک اور اچھے خاندان کی عورت کا انتخاب چند امور ایسے ہیں جن کا اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت ان امور سے بھی وابستہ ہوتی ہے۔
بیوی کے انتخاب کے سلسلے میں مرد کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کہ ماں کی اچھی یابری عادات کل اولاد میں بھی منتقل ہونگی۔ مرد کو نیک ‘ صالح اور اچھی عادات کی حامل پاک دامن بیوی کا انتخاب کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک دنیا بہترین استعمال کی چیز ہے لیکن اس کے باوجود نیک اور صالحہ عورت دنیا کے مال و متاع سے بھی افضل و بہترین ہے۔
عورت کے اہل خانہ کے طرز زندگی کوبھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے نطفہ کے لئے اچھی جگہ تلاش کرو کہ عورتیں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پیدا کرتی ہیں۔
اپنا کردار مثالی بنائیں تربیت کرنے والے کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے ننھے سے ذہن کیلئے باعث تشویش ہوگا۔ ایک کام یہ خودتو کرتے ہیں مثلاً اخلاق سے پیش نہیں آتے مگر مجھے منع کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا اپنے بڑوں کی کوئی نصیحت اس کے دل میں گھر نہ کر سکے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول کا بھی بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت اورخوش اخلاق ‘ بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنے والے‘ آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے والے ہوں گے تو ا ن کے زیر سایہ پلنے والے بچے بھی حسن و اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ اس کے برعکس عیاش‘ لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ کرنے والوں کے گھر میں پرورش پانے والا بچہ ان کے ناپاک اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
منفی جذبات ‘ لڑائی جھگڑے ‘ دوسروں سے تعلقات توڑنا‘ گرما گرم بحث و مباحثہ‘ غصہ‘ طعنہ زنی کے شکار خاندانوں کے بچے بڑے ہو کر بہت سے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل میںگالی گلوچ کرنا‘ یک دم غصے کی حالت میں آ کر خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانا ہر وقت بغیر وجہ کے خوف میں مبتلا رہنا ‘ تشویش ‘ تنہائی وغیرہ شامل ہیں۔ جن کے گھر رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ یا آپس میں لڑائی جھگڑے کا شکار ہو جاتے ہیں دیکھا گیا ہے عدم تحفظ کا احساس وہ بنیادی وجہ تھی جس سے بچوں کے اندر احساس کمتری یا احساس برتری جیسے بگاڑ پیدا ہو کر مختلف علامات کی شکل میں سامنے آئے۔ الغرض اولاد کی تربیت کیلئے والدین‘ اساتذہ اورگھر کے دیگر افراد کا اپنا کردار بھی مثالی ہونا چاہیے۔
بچوں کی تربیت صرف پڑھانے میں موقوف نہیں ہوتی بلکہ مختلف رویوں‘ باتوں اور باہمی تعلقات سے بھی بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔ بچے جب بولنا شروع کریں تو کلمہ اور اسم ذات ” اللہ“ سکھانا چاہیے اس کے سامنے اللہ اللہ کرتے رہیں‘ سلام کرنا‘ بڑوں کا ادب‘ گفتگو کے آداب‘ والدین کا نام‘ ضروری عقائد‘ کھانے پینے کے آداب‘ حسن اخلاق‘ پاکیزگی‘ مختلف دعائیں‘ خوف خدا‘ شکر اور صبر کرنا‘ خود اعتمادی‘ سچ بولنا سکھائیں۔
اپنے بچوں کو منفی عادات و اطوار مثلاً کسی کا مذاق اڑانا‘ عیب اچھالنا‘ تکبر‘ جھوٹ‘ غیبت‘ چوری‘لعنت‘ گالی دینا‘ وعدہ خلافی‘ معمولی وجوہات کی بناءپر ترک تعلقات وغیرہ سے بچائیے۔ اس عالم رنگ و بو میں انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کی اصلاح سے امن و سکون اور برکت کی بہار آتی ہے اور اس کی خرابی سے بحرو بر میں تباہی امڈ آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رب کائنات نے اس کی اصلاح کیلئے اپنی طرف سے ہدایت کا انتظام فرمایاسب مسلما ن والدین پر فرض ہے کہ اپنی اولاد کو دینی ماحول فراہم کریں‘ بقول شاعر وہ یتیم نہیں ہے جس کے والدین زندگی کے غم سے نجات پا چکے ہوں اور اس کو ذلیل چھوڑ گئے ہوں بلکہ یتیم تو وہ ہے جس کو اس کی والدہ اور والد نے اپنی مشغولیت کی وجہ سے آزاد چھوڑ دیا“
لازمی ہے کہ اس پُر فتن دور میں اپنے نونہالوں کی ابتداءہی سے اس طریقہ پر تربیت کریں کہ وہ معاشرے کے بہترین افراد ثابت ہوں اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن سکیں۔ اگر ہم نے اس فریضہ میں کوتاہی کی اور ہماری کاہلی کی وجہ سے بچوں میں بری خصلتیں پیدا ہوئیں تو ہم بھی ان کے جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔