دسمبر

پھر دیجیے جبیں کو سجدوں سے تازگی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
پھر دیجیے جبیں کو سجدوں سے تازگی
عزیز بلگرامی
یہ ہمارے پاؤں تلے بچھا ہوا فرشِ زمین اوریہ ہمارے سروں پر تنا ہوا آسمان کا سائبان،یہ خاموش ساحلوں سے ٹکراتی ہوئی بحرِ بے کراں کی موجیں اور یہ پُر شکوہ فلک بوس کوہستانی سلسلے،یہ رم جھم کرتی آسمانوں کی بلندی سے برستی بارش اور ہر ذی روح و غیر ذی روح کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے والے یہ بپھرے ہوئے سیلاب،یہ انسانوں کے بدن کو جھلسا دینے والی گرمیاں اور یہ منجمد کر کے رکھ دینے والے سرد ہوا کے جھونکے ،یہ فراوانئ رزق کے ساتھ اِسی زمین کے ایک بڑے خطے پر دیوانہ وار رقص کرنے والے قحط و قلت کے یہ بے کیف منظر،غرض کہ اس کائنات کی ہر منفی و مثبت شئے ہمارے لئے دروسِ عبرت لیے ہوئے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عقلِ سلیم کے ذریعہ ان منظروں میں پنہاں خاموش اِشارات پر غوروفکر کریں اور ان سے حسب لیاقت واستطاعت سبق حاصل کریں۔کیا عجب کہ ہم اپنی زندگی کوبہتری کی سمت گامزن کر سکیں
Read more ...

ء کا امریکی جنسی انقلاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
1920ء کا امریکی جنسی انقلاب
رانا بابر
موجودہ معاشرے میں عورت کی آزادی پر بحث بڑے زورو شور سے جاری ہے۔ تقریباً تمام بین الاقوامی تنظیمیں جو ہیومن رائٹس پر کام کر رہی ہیں انکو سب سے زیادہ فکر عورت کے حقوق کی ہے۔
لیکن ان تنظیموں کو چلانے والے اور انکے سرپرست لوگوں کو عورت کی آزادی کا خطرہ اگر لاحق ہے تو صرف مسلم ممالک میں ہے اپنے گھر کی کوئی فکر نہیں دوسروں کے گھر کی فکر ہے۔
آج معاشرے میں سب سے زیادہ اٹھایا جانے والا سوال ہے عورت کی آزادی اور مجھے اس نظریہ کی دو ٹوک الفاظ میں آج تک کوئی خاص سمجھ نہیں لگی کیوں کہ میں کافی عرصے سے اس پر غور کر رہا تھا بھئی کیا ماجرا ہے ؟
لیکن جب میں نے اس پر اپنی بساط کے مطابق معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تو اس میں مجھے عورت کے حقوق نظر نہیں آئے بلکہ میں گھوم پھر کر ایک نقطے پرپہنچا کہ عورت کا ایک ہی حق ہے
Read more ...

برادری سے بربادی تک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
برادری سے بربادی تک
ڈاکٹر ظہور احمد
ہم جہاں عقائد کے اعتبار سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں وہیں ہم نے تقسیم سے تقسیم در کے ضابطے پر عمل کرتے ہوئے خود ہو انسانوں کی دنیا میں تقسیم کرتے چلے جارہے ہیں۔ اسی تقسیم کاری کی ایک صورت ،بٹ ،گجر ،ملک ،وڑائچ۔ کنبو۔جتوئی۔ وٹو مینگل۔۔ مغل۔۔ پلیجو۔۔میواتی۔۔ سواتی۔۔ چوہدری۔۔ بھٹو۔ملک۔ سردار۔ تھکیال۔۔ ڈمال۔ وغیرہ ہے۔جس پر ہم نازکرتے ہیں۔ جس پر ہم نے اپنی بہت سی معاشرتی و ملی ترجیحات کو ترتیب دے رکھا ہے۔ میرے محلہ میں میرے علاقہ میں اسکول اور ڈسپنسری کی حاجت ہے۔ میرے علاقہ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے۔ جب بات ان مسائل کے حل کی آتی ہے میں آپ ہم سب سراپائے احتجاج ہوجاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے اس طریقہ کار پر چلیں گے تو آپ کے بچے کو جاب بھی ملے گی۔ بہتری بھی آئی گی۔
Read more ...

سیدہ اُمِّ رُومان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سیدہ اُمِّ رُومان
معظمہ کنول
سن 9 ہجری میں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی خاتون کی وفات کی خبر ملی جو شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانہ وار فدا تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر سخت حزن و ملال کے عالم میں ان کے جنازے پر تشریف لے گئے۔ خود قبر میں اتارا اور ان کو حور عین کے لقب سے نوازا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔ یہ ام روما ن رضی اللہ عنہا جن کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی حور قرار دیا، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رفیقہ حیات، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشدامن اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ تھیں۔
حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھا، کسی نے ان کا اصل نام نہیں لکھا، اس لیے کنیت ام رومان ہی سے مشہور ہیں۔
Read more ...

رحمت کائنات کی ولادت اور عرب معاشرہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
رحمت کائنات کی ولادت اور عرب معاشرہ
مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، ایسے پر آشوب اور پر فتن ماحول میں ہو ئی کہ جہاں شرافت اور انسانیت نیست و نابود ہوچکی تھی۔ ہر طرف ظلم و ستم ہی دکھائی دے رہا تھا۔ لوگ عدل و انصاف کے لیےماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ شرم و حیا رخصت ہو چکی تھی۔ عفت و عصمت دم توڑ چکی تھی۔ بے حیائی و بے شرمی عام تھی۔ جوا قمار بازی باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔زنا کاری و شہوت رانی ہر جوان کے فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ عورتوں کی حیثیت، ایک غیر انسانی مخلوق سے زیادہ نہیں تھی۔ ان کے بطن سے، بچی جنم لیتی؛ تو انھیں حقارت بھری نگاہ سے دیکھا جاتا۔ لڑکیوں کو باعث شرم و عار سمجھا جاتا اور پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔
Read more ...
Page 2 of 2